14 February 2019 - 23:47
News ID: 439774
فونت
دو مصیبت نے میری کمر توڑ دی ایک میرے والد رسول خدا(ص) کی وفات اور دوسرے امیر المؤمنین علی(ع) پر ہونے والا ظلم نے ۔

رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق، جب کوئی دانشور دنیا سے گزرتا ہے تو لوگ اس کے مرنے کا سوگ مناتے ہیں ، اس کے انتقال پر آنسو بہاتے ہیں اور گریہ و زاری کرتے ہیں ، اور کہتے ہیں کہ صد حیف ایسی اہم شخصیت ہمارے درمیان سے اٹھ گئی ، مگر جب کوئی نادان دنیا سے اٹھتا ہے تو ایسا نہیں ہوتا اور لوگ اظھار افسوس نہیں کرتے کیوں کہ انسان کی قدر اس کی معرفت کی وجہ سے ہوتی ہے اور معرفت علم سے حاصل ہوتی ہے ، اور جب ایسا ہے تو ہمیں کچھ اس طرح زندگی بسر کرنی چاہئے کہ جاہلوں کا مصداق نہ بنیں اور ہماری زندگی اور موت عالموں کی زندگی اور موت ہو ۔

 

شاید یہ پوچھا جائے کہ جاہلانہ موت کسی موت ہے؟

پیغمبراکرم(ص) نے اپنی گفتگو میں اس سوال کے جواب میں فرمایا کہ «مَن مات و لم یَعرف امام زمانهِ مات میتهً جاهلیه» [۱] جو کوئی مرجائے اور اپنے زمانے کے امام کو نہ پہچانے وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے ، اس حدیث کے مطابق جاہلانہ موت کا میعار یہ ہے کہ اگر انسان، امام وقت کی شناخت کے بغیر مرجائے تو وہ جاہلوں کی موت مرتا ہے۔

تو سوال یہ ہے کہ معرفت اور شناخت جس کا روایت میں تذکرہ ہے اس کے کیا معنی ہیں؟ کیا معرفت فقط یہ ہے کہ ہم فقط امام کی ظاھری شناخت حاصل کریں مثال کے طور پر کس سن میں پیدا ہوا ، اس کے ماں باپ کون ہیں ؟ اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر معرفت کے کیا معنی ہیں ؟

 

سیرت فاطمی میں امام زمانہ کی معرفت

حضرت امام جعفر صادق(ع) کے ارشاد کے مطابق، امام کی معرفت کا ایک معیار ہے کہ انسان امام کو «مفترض الطاعۃ» جانے [۲] یعنی اس کی اطاعت کو واجب سمجھے اور اپنی حیات کے تمام مسائل میں اپنے اوپر امام کی اطاعت کو واجب فرض کرے اور امام کا مطیع و فرمانبردار رہے ، ہر وہ عمل جو امام کی رضایت کے تحت ہو اسے انجام دے اور ہر وہ عمل جو امام کی مرضی کے خلاف ہو اسے ترک کردے۔

اس تعریف کے مطابق شاید اس بات کو کہا جاسکتا ہے کہ مورد نظر معرفت کا مطلب امام کی پیروی اور اطاعت کو واجب سمجھنا ہے اور امام و پیشوا کی رضایت کو حاصل کرنا ہے۔

اب دوسرا سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہم کس طرح اس کی رضایت کو حاصل کریں ؟ اس سوال کا جواب حضرت زهرا سلام الله کے سلسلہ میں پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم اور امیرالمومنین علی علیه السلام کی گفتگو میں دیکھ سکتے ہیں کہ جس وقت پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم نے امیرالمومنین علی علیه السلام سے دریافت کیا کہ حضرت زهرا سلام الله کیسی بیوی ہیں ؟

حضرت نے فرمایا: «نعم العون علی طاعۃ الله»، یعنی خدا کی اطاعت میں بہترین یاور و مددگار ہیں [۳]۔

معصوم علیہ السلام کا یہ بیان ایک بات کا بیانگر ہیں کہ امام کے نزدیک خدا کی اطاعت کس قدر اہم ہے کہ جو ایک اچھی بیوی کا میعار اس کی اطاعت میں پوشیدہ جانتے ہیں۔

تو یہاں پر ایک اور سوال اٹھتا ہے کہ خدا کی اطاعت اور بندگی کے مراحل اور مراتب ہیں اور بندگی کا کونسا مرحلہ بالاترین مرتبہ رکھتا ہے ؟

اس سوال کے جواب کو امیرالمومنین علی (ع) کے کلام سے استفادہ کرتے ہوئے دیا جاسکتا ہے کہ «افضل العباده العفاف»[۴] بالاترین عبادت عفت و پاک دامنی ہے۔

ہم اس مقام کی بلندی پر بھی حضرت زهرا سلام الله علیھا کو دیکھتے ہیں کہ اپ کی حیات میں عفت موجزن ہے ، کیوں کہ آپ کی شادی کے بعد جب پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله و سلم نے کام کو تقسیم کیا تو فرمایا کہ " گھر کے اندر کا کام حضرت زهرا (س) کے سپرد ہے اور گھر کے باہر کے امور حضرت امام علی (ع) انجام دیں گے " اس بات کو سن کر حضرت زهرا (س) بہت خوش ہوئیں اور عرض کیا کہ اسلام لانے بعد آج تک اس قدر خوش نہ ہوئی تھی۔[۵] ۔/۹۸۸/ن

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬