30 May 2019 - 10:44
News ID: 440484
فونت
مسلمانوں کو یہ جان لینا چاہیے کہ یوم قدس ، تمام مظلوم مسلمانوں کی حمایت کا دن ہی نہیں بلکہ تمام ستم دیدہ اور مستضعف انسانوں کی حمایت کا دن ہے۔

رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق یوم قدس تاریخ کا وہ  عظیم دن ہے جسے اقوام عالم ہرگز بھلا نہیں سکتیں۔ یوم قدس ظلم و بربریت، جارحیت، دفاع کے نام پر بے گناہ، نہتے اور مظلوم لوگوں پر قتل و غارت گری  نیز عالمی سامراجیت کے خلاف فرزندان توحید اور انسانیت کا درد رکھنے والے تمام حریت پسند انسانوں کی پکار اور ظلم و تشدد سے نفرت و بے زاری کا دن ہے۔

یہ وہ دن ہے جس دن بانی انقلاب اسلامی ایران حضرت آیت اللہ روح اللہ خمینی   نے اپنی ہی سر زمین سے بھگائے گئے فلسطینیوں اور اسرائیلی درندازی کے شکار مظلوم لبنانیوں کی حمایت میں ۱۳ ماہ مبارک رمضان سن ۱۹۷۹ میں ماہ مبارک رمضان  کے آخری جمعہ کو عالمی یوم قدس کا نام دیا ، تا کہ اس دن عالمی مسلم برادری مظلوموں اور بے بسوں کی حمایت میں اپنے نعروں اور درد بھری پکار سے ظلم و ستم کے امریکی اور اسرائیلی ایوانوں کو ہلا دیں اور دنیا کے ظالموں اور سامراجی طاقتوں کو اپنی زندہ دلی اور بیداری دکھا دے۔

چنانچہ امام خمینی فرماتے ہیں:

’’ میں تمام مسلمانوں  کو یہ پیغام دیتا ہوں کہ وہ ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعہ کو عالمی یوم قدس کے عنوان سے  منائیں تا کہ  فلسطین اور دنیا کے تمام مظلوم اور ستم دیدہ انسانوں کی حمایت کر سکیں‘‘۔

یوم قدس کسی مذہب و ملت اور قوم سے مخصوص دن کا نام نہیں ہے بلکہ ہر قوم و ملت  کے افراد کو بلا مذہب و ملت کی تفریق کے اس دن کے احتجاجی مظاہرہ میں شریک ہونا چاہئے  تا کہ اس طرح ظلم و سامراجیت کے ایوانوں کو وہ ہلاسکیں اور یہ دنیا امن و چین اور انسانیت و سلامتی کا مسکن و مرکز بن سکے اور بے جرم و بے گناہ لوگ بلا کسی خوف و حراس کے امن کی سانس لے سکیں۔ چنانچہ اگر انسانی برادری نے ایسا نہیں کیا تو ظلم بڑھتا جائے گا اور دن بدن سامراجی طاقتوں کے حوصلوں میں اضافہ ہوتا جائے گا۔

لہذا عالمی یوم قدس میں ضروری ہے کہ لوگ اپنے گھروں سے باہر نکلیں اور دنیا کے مظلوم اور ستم دیدہ لوگوں ، خاص طور سے فلسطین کے بے چارہ اور بے بس لوگوں کی حمایت میں اپنے نعروں سے ان کے زخموں پر اپنی حمایت کا مرہم لگائیں اور انہیں یہ احساس دلا دیں کہ حق کی تحریک میں وہ تنہا نہیں ہیں۔

رہبر انقلاب ایران حضرت آیت اللہ خامنہ ای(زید عمرہ)  اس سلسلہ میں فرماتے ہیں:

’’مسلمانوں کو یہ جان لینا چاہیے کہ یوم قدس ، تمام مظلوم مسلمانوں کی حمایت کا دن ہی نہیں بلکہ تمام ستم دیدہ اور مستضعف انسانوں کی حمایت کا دن ہے‘‘

یہ ایک کلیہ ہے کہ ظلم  کے خلاف خاموشی اس میں اضافہ اور ظالم کی حوصلہ افزائی  کا سبب ہوتی ہے ۔ چنانچہ سماج کی کسی فرد، جماعت ، قوم اور یا پھر پورے سماج پرہونے والے  ظلم و ستم  کا اگر خاموشی کے ساتھ تماشا دیکھا جائے، تو یہ خاموشی ظالم کے حوصلوں کو نہ صرف بڑھاتی ہے، بلکہ ایک وقت ایسا بھی آتا ہےکہ ظالموں اور شر پسند عناصر کا قہر  و تشدد، پورے عالمی سماج کو اپنے پنجوں تلے جکڑ لیتا ہے۔

لہذا اسلام نے پہلے ہی سے اپنے ماننے والوں کوآگاہ کیا  ہے اور نہ صرف ظلم و ستم کے خلاف خاموشی کو  غیر اسلامی عملاور خاموش رہنے والے کو شریک ظلم بتایا بلکہ اسلام نے تو یہاں تک تاکید کی ہے کہ اگر کو ئی مسلم صبح نیند سے بیدار ہونے کے بعد اپنے دیگر مسلم بھائیوں کےحالات سے باخبر نہ ہو تو اسے خود کومسلمان کہنے کا حق  نہیں ہے۔

لیکن افسوس وہ  اسلام  جو اپنے ماننے والوں کو اتنی اجازت نہیں دیتا کہ وہ دوسرے مذاہب کے ماننے والے غیر مسلم پر ظلم کریں، بلکہ اتنا ہی نہیں اسلام اپنے دشموں پر بھی ظلم و نا اصافی کو برداشت نہیں کرتا، آج اس کے ہی ماننے والے خود ہی اسلام کے نام پر  ایک دوسرے کا خون بہارہے ہیں اورکل کی صلیبی جنگوں میں  جو کام واٹیکن کے پادری نہ کر سکے ، آج نہایت آسانی کے ساتھ اسلام کا لبادہ اوڑھے، چند شرپسند  تکفیری انجام دے رہے ہیں اور عالمی مسلم برادری خاموشی کے ساتھ اس خونی ہولی کا  تماشادیکھ رہی ہے۔

امام خمینی علیہ الرحمہ نے عالمی یوم قدس کا اعلام مظلوموں کی حمایت میں کیا تھا ،لہذا آج انسانیت پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف انسانیت کا درد رکھنے والے تمام حریت پسند اور آزاد ضمیر انسانوں پر فرض ہوتا ہے کہ  امریکہ اور اسرائیل اور دنیا کے تمام مسلمانوں  پر ہونے  مظالم کے خلاف آواز اٹھائیں اور اپنی لبیک و تکبیر  کی آوازوں سے دنیا کو یہ بتادیں کہ ہم ہرگز ظلم کے آگے  خاموش نہیں رہ سکتے۔

ظلم اور ظالم کی شناخت

یوم قدس صرف ظلم و ستم کے خلاف آواز اٹھانے کا دن نہیں ہے بلکہ ہمیں ظلم کے خلاف آواز اٹھا نے کے ساتھ ہی ساتھ ظالم اور اس کے مختلف حربوں کو بھی سمجھنا ہوگا تا کہ  کہیں ایسا نہ ہوجائے کہ غفلت اور نادانی میں مسلمان خود ایک دوسرے کا خون بہانے لگیں اور انجام میں وہی ہو جس کا دشمن کو انتظار تھا ، یعنی مسلمانوں کے درمیان آپسی اختلاف اور تفرقہ۔ جیسا کہ آج مشرق وسطی میں ایسا ہی ہو رہا ہے ۔

آج مشرق وسطی میں مسلمان ہی مسلمان کا خون بہا رہے ہیں اور اس کا مکمل فائدہ امریکہ اور اسرائیل ہی کو پہنچ رہا ہے ۔ نہ صرف یہ بلکہ قتل و غارتگری کی اس آگ کو مزید شعلہ ور کرنے کے کئے وہ مسلمانوں کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ سے لڑنے کے لئے اسلحہ بھی فراہم کر رہے ہیں۔

آخر ہم مسلمانوں کی عقل کو کیا ہوگیا ہے ، ہم کیوں نہیں سونچتے  کہ وہ یہودی اور مسیحی جو مسلمانوں کے دیرینہ اور شدید دشمن ہیں، بھلا مسلمانوں کو ہی آپس میں لڑانے کے لئے کیوںانہیں اسلحہ فراہم کر رہے ہیں۔ عالمی سامراج کا مقصد اور ہدف بالکل واضح اور نمایا ہے، کیونکہ اسلام کو ختم کرنے کا بہترین راستہ یہی ہے کہ خود مسلمانوں کو ہی ایک دوسرے کا دشمن بنادو تا کہ نتیجہ میں خود مسلمان کا ہی خون بہے اور عالمی سامراج خوشی کے ساتھ اس خونی رنگولی کا تماشا دیکھتا رہے  اور مسلم خود ہی ایک دوسرے  کے خون سے اپنے ہاتھ رنگتے  رہیں۔ یہ حالت یہودیوں کا وہ دیرینہ خواب  تھا جو صدیوں سے شرمندہ تعبیر تھا لیکن افسوس آج کے مسلمان نے اپنے دشمن کو پہچانے بٖغیر خود اپنے ہی ہاتوں اپنی مہار اپنے دشمن کے ہاتھ میں دے دی۔

آخر کب ہم مسلمانوں کی آنکھیں کھلیں گی۔ ہم کب بیدار ہوں گے۔ اگر اب بھی بیدار نہ ہوئے تو کل بہت دیر ہوچکی ہوگی۔

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬