08 August 2019 - 09:37
News ID: 441007
فونت
بڑی جمہوریت کا دعویدار ملک ہندوستان، اسرائیلی طرز ظلم و ستم اور حقوق انسانی کی پامالی اور عالمی معاہدوں کی نابودی میں پیش پیش ہے ۔

رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، عالمی بڑی جمہوریت کا دعویدار ملک ہندوستان، اسرائیلی طرز ظلم و ستم اور حقوق انسانی کی پامالی اور عالمی معاہدوں کی نابودی میں پیش پیش ہے ۔

اس وقت انسانیت اور عام مسلم اور غیر مسلم کشمیری مظلوم عوام بڑے فوجی محاصرے میں ہے جس پر تمام انسانی حقوق کا دعوا کرنے والے ادارے خاموشی اختیار کر چکے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کیا کہیں وہ بھی تو اس سازش میں شامل نہیں ہے ؟

جموں و کشمیر پر 70 سالہ غیر قانونی قبضہ اور ظلم پر اب اسرائیلی طرز پر ظلم و جارحیت، زمین خوری اور انسان کشی کو رسمی سند دی گئی۔

ہندوستانی حکومت اور فوج اقتدار اور استکباری سازشوں کے نشہ میں انسانیت اور شہری اور انسانی حقوق کو نابود کررہی ہے.

حقوق بشر کے دفاع کیلئے سینا سپر بننے اور حمایت کرنے والے دعویدار ملک جیسے زمین میں دھنس گئے ہیں۔

کشمیر سب سے بڑی درد بھر کی کہانی ہے..

کشمیر کی ریاست ہندوستان بھر میں اپنی خاص ثقافت کے حوالے سے معروف رہی ہے، یہاں کے کھانوں سے لیکر لباس تک اور نظریاتی حوالے سے اسلام تک کا ایک جداگانہ تشخص ہے۔ کشمیر کے لوگ کشمیر کی طرح خوبصورت ہیں اور اہل کشمیر کی ذہانت کی دنیا معترف ہے۔ پچھلے پچھتر سال سے ہندوستان اہل کشمیر پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔ 1989ء کے بعد کی جدوجہد آزادی میں ایک لاکھ کشمیری جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ یہ بات ھندوستان کو سمجھ لینی چاہیئے کہ جس قدر ظلم و بربریت اس نے کشمیر میں کیا ہے، اس سے اہل کشمیر اس سے فقط نفرت ہی کرسکتے ہیں۔

ریاست کشمیر کے تحفظ کے لیے آباد اقوام کی مرضی سے ڈوگرا دور میں یہ قانون بنایا گیا تھا کہ یہاں کوئی غیر مقامی زمین نہیں خرید سکتا۔ اس سے کشمیر میں کسی بھی قسم کے ڈیموگرافی چینج کا راستہ بند کر دیا گیا۔ ہندوستان نے اپنے آئین کے آرٹیکل 370 میں اس حق کو تسلیم کیا کہ یہاں غیر مقامی افراد کی آباد کاری نہیں ہوگی۔ اگرچہ اسی آرٹیکل میں کشمیر کے لیے صدر اور وزیراعظم کی بھی بات تھی اور وفاق کا تعلق فقط دفاع، مواصلات اور کرنسی تک محدود بتایا گیا تھا، مگر وہ سب پہلے ہی غصب کیا جا چکا ہے۔

یہ آرٹیکل ہندو نواز سیاسی جماعتوں کے کشمیر بیانیہ کے مطابق انہیں ہندوستان سے جوڑتا تھا، جس میں کشمیریوں کے حقوق کا تحفظ کیا گیا تھا۔ اب ان کے بیانیہ کے مطابق بھی کوئی ایسی بنیاد باقی نہیں رہی، جس سے کشمیر کا ہندوستان سے کوئی تعلق جوڑا جا سکے۔ بی جے پی نے اسے انتخابی نعرہ بنایا تھا کہ ہم اسے ختم کریں گے، اقتدار میں آتے ہی اس پر عمل درآمد شروع کر دیا۔

اس میں کئی ٹیکینکل مسائل ہیں، جیسے ھندوستان کے آئین کے مطابق بھی دوسری بہت سے ریاستوں جیسے ہماچل پردیش وغیرہ میں کوئی غیر مقامی زمین نہیں خرید سکتا، اسی طرح ھندوستان کے آئین کے مطابق جب کسی ریاست میں کوئی تبدیلی کرنی ہے تو اس کے لیے ریاست کی اسمبلی سے منظوری ضروری ہے، تعصب محض کی بنیاد پر کشمیر کو اس سے باہر رکھا گیا کہ وہاں صدر سب کچھ کرسکتا ہے۔

کشمیر  اب ہندوستان کی مقبوضہ کالونی بنا لیا گیا ہے، جہاں صرف ریاستیا سٹیٹس ہی ختم نہیں کیا گیا بلکہ اسے ایک فیڈرل علاقہ بنا دیا گیا ہے، جس کے تمام اختیارات مرکز کے پاس ہوں گے۔ لداخ ریجن میں تو کسی اسمبلی سے ہی انکار کر دیا گیا ہے، کشمیر ویلی کو ایک ایسی اسمبلی دی جائے گی، جس کے پاس بلدیہ سے بھی کم اختیارات ہوں گے، جو صفائی ستھرائی کے کام دیکھے گی۔

اتنے بڑے واقعہ پر مسلم امہ اور ہمارے دوست ممالک کی طرف سے کوئی بڑا ردعمل سامنے نہیں آیا، یہ ایک سفارتی ناکامی ہے، 1965ء کی جنگ میں پوری امت مسلمہ سوائے ملائیشیا کے ہمارے ساتھ کھڑی تھی اور آج صورتحال یکسر مختلف ہے۔ عرب امارات کے دلی میں سفیر کا بیان انگلش میڈیا پر سامنے آیا ہے کہ ھندوستان نے اس آرٹیکل کو ختم کرکے بہت اچھا کیا، اس سے کشمیر میں بہت ترقی ہوگی۔ یعنی ترقی میں یہ ایک رکاوٹ تھی جسے دور کر لیا گیا، اس سفیر محترم کو سمجھنا چاہیئے تھا کہ جن لوگوں کو یہ فائدہ پہنچایا جا رہا ہے، وہ اتنے پاگل ہیں کہ اپنے اس فائدہ کے خلاف جان دینے کے لیے تیار ہیں اور ھندوستان کی حکومت نے اہل کشمیر کو یہ فائدہ پہنچانے کے لیے وہاں کرفیو نافذ کر رکھا ہے، تعجب ہے۔

ممتاز ماہر قانون کا کہنا ہے کہ یہ تو شملہ معاہدے کی بھی خلاف ورزی ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ باہمی موجود مسائل کو نہیں چھیٹرا جائے گا۔ اس لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور بین الاقوامی عدالت انصاف میں اپنا مقدمہ پیش کرنا چاہیئے، تاکہ  ھندوستان کو اس محاذ پر رگڑا لگایا جا سکتے۔

 ویسے ہر شر میں ایک خیر ہوتی ہے، ھندوستان نے دوبارہ اسے ایک بین الاقوامی مسئلہ بنا دیا ہے، اب یہ ہماری قابلیت پر ہے کہ ہم اس سے کس قدر فائدہ اٹھاتے ہیں۔ خواجہ آصف نے کہا یہ اسرائیلی وزیراعظم مودی کو سکھا کر گیا ہے کہ کشمیریوں کو اسی طرح آزاد کشمیر کی طرف دھکیلا جائے گا، جیسے فلسطینیوں کو اردن دھکیلا گیا تھا۔ اس قانون کے تبدیل ہونے سے  بے تحاشہ غیر کشمیری کشمیر آئیں گے تو اس سے آبادی کا توازن بگڑ جائے گا۔ جس کا نتیجہ یہی ہوگا، جس کی طرف خواجہ آصف نے اشارہ کیا ہے کہ کشمیری  دربدر ہو جائیں گے۔

آج وقت ہے کہ ہم درست فیصلے لیں۔ ہر ایک زندہ صفت اور بیدار اور انسان دوست سے ہر کشمیری تڑپ تڑپ کے سوال کررہا ہے کہ اگر یہ ظلم اور حملے تم پر ہوتے تو کیا کرتے اور ہم سے کیا امید رکھتے اور کیا مدد مانگتے، وہی میں تجھ سے تقاضا کررہا ہوں۔ ورنہ کس رخ سے اور کس بہانے سے خداوند متعال اور اسکے انبیاء اور اولیاء علیہم السلام اور شہداء کا سامنا کروگے اور کیا جواب دو گے...!!!!

آج بیدار نہ ہوئے اور نظر اور عمل سے کچھ نہ کیا اور اپنے دینی، انسانی اور قومی وظیفہ اور تکلیف انجام نہ دی تو نہ تاریخ معاف کرے گی اور نہ اگلی نسلیں اور نہ ہی روز قیامت میں کوئی پرسان حال ہوگا۔

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬