14 August 2019 - 19:30
News ID: 441052
فونت

تحرہر: مولانا سید محمد جابر جوراسی

رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق آزادی ، آزادی ہوتی ہے۔ اس کا بدل کچھ نہیں ہوتا، قفس سے آزاد ہونے والے پرندے کا ڈال ڈال پر پھدکنا ثبوت ہوتا ہے کہ دولت آزادی کی کوئی قیمت نہیں لگا ئی جاسکتی ۔ اور جب قید صرف قید نہ ہو بلکہ ظلم و ستم و تشدد و آزار کے شکنجہ میں ہو تو اس سے آزادی کی لذت آزاد ہونے والا ہی بتا سکتا ہے۔

ہندوستان میں انگریز تاجر کی شکل میں آئے اور پھر وقت گزرنے کےساتھ ملک پر اپنا قبضہ مضبوط کرتے گئے۔ ظالم جب اقتدار میں آئے اور اس کا قبضہ مضبوط ہوتا جائے تو وہی سب کرتا ہے جو انگریزوں نے کیا۔مظلوم ہندوستانیوں پر انہوں نے اتنے ظلم ڈھائے کہ قوت برداشت سے باہر ہوگیا۔ اور وہ اپنی طاقت بھر مزاحمت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے یہ تھی ۱۸۵۷ ء کی پہلی جنگ آزادی جسے انگریزوں نے ’’غدر‘‘ کا نام دیا ۔گویا یہ انگریزوں کی ڈالی ہوئی بنیاد ہے کہ ملک کے وفاداروں کو ’’غدار‘‘ کہہ کر ان کی توہین کی جائے ۔

انگریز اپنی طاقت کے بل پر تحریک آزادی کو دبالے گئے لیکن دلوں میں روشن شعلۂ آزادی خاموش نہ رہ سکا اور ۱۹۴۷ء؁ آتے آتے یہ شعلہ ایسا بھڑکا کہ اسے برطانوی سامراج کی طاقت استبداد گل نہ کرسکی اور نتیجہ میں اگست ۱۹۴۷ء؁ میں ملک انگریزوں کے چنگل سے آزاد ہوگیا۔ اور آج ثمرۂ آزادی ہے یہ ۷۳ سالہ آزاد ہندوستان۔ یہ آزادی کا شیریں پھل یوں ہی نہیں ملا ہے بلکہ بہت قربانیاں دینا پڑی ہیں۔ آزادی کے متوالوں ، رام پرشاد بسمل ؔ جیسوں نے جب یہ چیلنج دے دیا: سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے                     دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

کانگریس ورکنگ کمیٹی نے صوبائی کمیٹیوں کو پیغام دیا تھا کہ وہ ۲۶؍ جنوری ۱۹۳۰ء؁ کو پورے ملک میں عوام کو جمع کرکے پہلا ’’ یوم آزادی ‘‘ منائیں اس میں جو عہد نامہ پڑھا گیا تھا وہ اس طرح تھا :

’’ ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اور قوموں کی طرح ہندوستانی قوم کا یہ لازمی حق ہے کہ وہ آزاد ہو اس کی محنت کا پھل اس کے پاس رہے اور اسے وہ چیزیں میسر ہوں جو زندگی کےلئے ضروری ہوں تاکہ اسے پنپنے اور بڑھنے کا پورا پورا موقع ملے۔ ہمارایہ بھی عقیدہ ہے کہ اگر کوئی حکومت کسی قوم کو ان حقوق سے محروم کرے اور اس پر ظلم کرے تو قوم کو حق ہے کہ اس حکومت کو بدل دے یا ختم کرے۔

(رام گوپال کی انگلش کتاب کا ہندی ترجمہ ’’ بھارتی سوتنتر سنگرام کا اتہاس‘‘ مترجم گیان چند جین بحوالہ ہندوستان کی جدوجہد آزادی صفحہ ۱۰۲)

تحریک آزادی میں ہندو مسلمانوں نے متحدہ طور پر مل جل کر حصہ لیا اور  انگریزوں کے ہاتھوں سزائیں بھی برابر سے بھگتیں ۔ مولوی مرزا محمد باقر ، شہید اشفاق اللہ خاں، وغیرہ کی قربانیاں اپنی جگہ اور دوسری طرف ہندوستان ریپبلیکن ایسوسی ایشن کی جدوجہد آزادی کو بھلایا نہیںجاسکتا۔ ’’لاہور سازش کیس‘‘  کے نام پر ہندوستانیوں پر سخت مظالم ڈھائے گئے۔ قیدیوں کو زدوکوب کیا گیا۔ جس کے سبب انگریزوں کے خلاف دلوں میں نفرت کی چنگاری بھڑک اٹھیں۔ لالہ لاجپت رائے نے اپنی موت سے پہلے کہا تھا :

 ’’ مجھ پر پڑی ایک ایک لاٹھی برطانوی سامراج کے تابوت میں ایک ایک کیل ثابت ہوگی‘‘ (نہروزنجیر سے تعمیر تک مرتبہ چند شیکھر آزاد)

۲۲؍ مارچ ۱۹۳۱ء؁ کو بھگت سنگھ اور ان کے دیگر دو ساتھیوں ( شیورام، سکھ دیو) کو پھانسی دے دی گئی یہ اور اس طرح کی دیگر قربانیوں نے پورے ملک کو بیدار کردیا اور عوام آزادی سے کم کسی بات پر تیار نہیں ہوئے۔ یہ تحریک صرف اندرون ملک محدود نہیں رہی بلکہ بیرون ملک پہنچی۔

دوسری جنگ عظیم میں جب جاپان نے سنگاپور بھی ۱۹۴۲ء؁ میں قضبہ کرلیا تو جاپانی فوجی افسر ہارا نے جنگی قیدیوں کو کیپٹن موہن سنگھ کے سپرد کیا۔ جنہوں نے ان میں سے ہندوستانیوں کو منتخب کرکے ہندوستان کو انگریزوں سے آزاد کرنے کی نیت سے ’’ آزاد ہند فوج‘‘ بنائی جس میں جان اس وقت پڑی جب سبھاش چندر بوس کی سربراہی اسے حاصل ہوئی۔ جاپان میں جلا وطن حکومت بھی قائم ہوئی۔ سبھاش چندر بوس اپنے ایک ساتھی کے ساتھ بینکاک سے ٹوکیو روانہ ہوئے لیکن وہ راستے میں حادثہ کا شکار ہوگیا۔ اور سبھاش چندر بوس کا انتقال ہوگیا۔

( بھارت کا راشٹریہ آندولن ( ہندی) حصہ دوئم از پروفیسر مکٹ بہاری لال صفحہ ۶۶۲)

رنگون پر برطانوی فوج کے قبضہ کے بعد آزاد ہند فوج کے تقریباً دس ہزار سپاہی ہندوستان لائے گئے۔ ۵؍ نومبر ۱۹۴۵ ء؁ کو لال قلعہ نئی دہلی میں آزاد ہند فوج کے تین سپاہیوں کرنل شاہنواز، کیپٹن گروبخش سنگھ ، ڈھلن، اور پیکے سہگل پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلا کر انہیں کالاپانی جلا وطن کرنے کی سزا دی دی گئی۔ جو بعد میں معاف کردی گئی۔ (مضمون آئی این اے کیس، ماہنامہ نیادور لکھنؤ اگست ۱۹۷۲ء؁)

ہندوصرف ہندوستان میں تھے لیکن اطراف میں مضبوط مسلم ممالک ترکی ، افغانستان وغیرہ موجود ہیں۔

لہٰذا یہاں کے مسلم قائدین نے طے یہ کیا کہ اندرون ملک ہندو مسلم متحد ہوکر انگریزوں کے خلاف تحریک چلائیں اور بیرون ممالک میں بالخصوص ترکی کے ذریعہ بیرونی دباؤ ڈالا جائے۔ اس سلسلہ میں اندرون ملک مسلمانوں کی کئی تحریکیں چلیں ۔

علمائے دار العلوم دیوبند نے ’’ریشمی رومال‘‘ تحریک چلائی۔ علی برادران، مولانا شوکت علی ،مولانا محمد علی جوہر نے ’’خلافت تحریک‘‘ چلائی اور ہندوستان میں مسلمانوں کے قد آور مذہبی و سیاسی رہنما مولانا ابو الکلام آزاد نے ’’ امامت تحریک‘‘ چلائی اس سلسلہ میں مولانا عبد الرزاق ملیح آبادی نے ’’ ذکر آزاد‘‘ میں تحریر فرمایا ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو مذہب کی راہ سے منظم کیا جائے۔

 مسلمانوں کی تحریک کا خلاصہ یہ تھا کہ :

مسلمانوں کا ایک امام ہو اور امام کی امامت کو وہ اپنا دینی فرض سمجھیں۔ ۔۔۔ جب مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد امام کو مان لے تو امام ہندؤں سے معاہدہ کرکے انگریزوں پر جہاد کا اعلان کردے اور ہندو مسلمانوں کی متحدہ قوت سے انگریزوں کو شکست دے دی جائے۔

( ذکر آزادؔ مولانا عبد الرزاق ملیح آبادی)

یہ عہدہ خود اپنے ہاتھوں میں لے کر انہوں نے تحریک بھی چلائی لیکن مصالح کی بنیاد پربعد میں اس سے دستبردار ہوگئے۔

مارچ ؍اپریل ۱۹۱۹ء؁ میں پنجاب میں جو واقعات رونما ہوئے انہیں فراموش نہیں کیاجاسکتا ۔ خاص طور سے ۱۳؍ اپریل کو جلیانوالہ باغ لاہور کا انگریزوں کے ہاتھوں قتل عام نتیجہ میں ہندو مسلم اتحاد، زبردست مظاہرہ جس نے انگریزی حکومت کی بنیاد کو ہلاکر رکھ دیا۔

ثمرات ( پھل) میٹھے بھی ہوتے ہیں کڑوے بھی۔ برٹش سامراج سے ہندوستان کی آزادی ہندو مسلم اتحاد کے ساتھ تحریک آزادی کا ایک انتہائی میٹھا پھل تھا۔ لیکن اس کا ہندو مسلم قوموں کے درمیان دوری کا پیدا ہوجانا نتیجہ میں تقسیم ملک کا انتہائی تکلیف دہ المیہ جس کی ذمہ داری مسلم لیگ اور کانگریس حکمرانوں دونوںکے کاندھوں پر آتی ہے۔ مسلم لیگ پہلے قیام پاکستان کی مخالف تھی۔ ۱۹۳۲ء؁ میں جب کیمبرج یونیورسٹی کے کچھ طلبا نے جن کے سرگروہ چودھری رحمت علی تھے اور جنہوں نے کیمبرج میں ’’پاکستان نیشنل مومنٹ کی بنیاد ڈالی تھی تقسیم ملک اور قیام پاکستان کی تجویز پیش کی تھی تو مسلم لیگ نے اسے نامنظور کردیا تھا ( بھارت کا مکتی سنگرام از ایودھیا سنگھ صفحہ ۶۵۔۱۶۴) بعد میںمسلم لیگ کے نظریہ میں تبدیلی آئی۔

کانگریسی رہنما بھی ابتدا میں تقسیم ملک کے سخت مخالف تھے تحریک آزادی ہند مہاتما گاندھی کی رہنمائی میں چلائی گئی تھی۔

تحریک آزادی کے تین کردار ایسے تھے جنہیں اس مصرعہ کا آئینہ کہا جاسکتا ہے : نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا

(۱) مہاتما گاندھی ، (۲) مولانا ابو الکلام آزاد، (۳) سرحدی گاندھی ، خان عبد الغفار خاں، مولانا ابو الکلام آزاد نے مہاتما گاندھی سے کہا تھا :

 ’’ اگر آپ تقسیم کے خلاف کھڑے ہوجائیں ہم اب بھی صورت حال کو سنبھال سکتے ہیں لیکن اگر آپ نے بھی چپ چاپ مان لیا تو ہمیں ڈر ہے کہ ہندوستان برباد ہوجائے گا۔ گاندھی جی بولے یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے، اگر کانگریس تقسیم کو منظور کرنا چاہتی ہے تو ایسا میری لاش ہی پر ہوسکے گا۔ میں جب تک زندہ ہوں ہندوستان کی تقسیم کو کبھی بھی تسلیم نہیںکروں گا ۔

 ( آزادیٔ ہند ۔ انڈیا ونس فریڈم مولانا ابو الکلام آزاد کا اردو ترجمہ مرتبہ ہمایوں کبیر ناشر ایم آر پبلی کیشنز نئی دہلی ص ۲۴۸)

تقسیم ملک کے اسباب میں دوسروں کے حقوق کی پامالی اقتدار کی چاہت اور سب سے بڑھ کر ’’ تعصب کی گرم بازاری ہے ۔ جناح کے دو قومی نظریہ کے سب سے زیادہ تائیدی تھے سردار ولبھ بھائی پٹیل ورنہ مہاتماگاندھی قوموں کی بنیاد پر تقسیم ملک کے بنیادی مخالف تھے۔ انہیں اندازہ تھا کہ اگر مسلمانوں نے تحریک آزادی میںسرگرم حصہ نہ لیا ہوتا تو ۱۵؍ اگست ۱۹۴۷ ء؁ کو ملک آزاد نہ ہوتا۔

وہ حکومت میں مسلمانوں کو مناسب نمائندگی دینے کے قائل تھے بلکہ حکومت سازی کا اختیار مسلم لیگ کے جناح کو دینے تک آمادہ تھے تاکہ ملک متحد رہے تقسیم نہ ہو۔

(سلسلہ جاری ہے)

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬