‫‫کیٹیگری‬ :
03 October 2019 - 12:52
News ID: 441424
فونت
آستان قدس رضوی کے متولی نے کہا کہ رضوی علوم اسلامی یونیورسٹی کو دانشوروں اور علمی شخصیات کا مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ معاشرے کے روز مرہ کے مسائل اور شکو ک شبہات کا جواب دینے والا بھی مرکز ہونا چاہئے ۔

رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق آستان قدس رضوی کے متولی حجت الاسلام والمسلمین احمد مروی نے رضوی علوم اسلامی یونیورسٹی کے نئے تعلیمی سال کے آغاز کی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ہر حال میں اپنی دینی و شرعی ذمہ داری کو پوری کرنا چاہئے ۔ ہم نے حضرت امام خمینی(رہ) سے سیکھا ہے کہ ہمیں کام اور فرائض کی ذمہ داری سونپی گئی ہے جسے ہم انجام دیں اور نتیجہ کی فکر ہمیں نہیں کرنا ہے ، فقط اور فقط صحیح اور احسن طریقے سے ذمہ داری کو انجام دینا بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے اور کام کے نتیجہ کو خداوند متعال پر چھوڑ دینا چاہئے ۔

انہوں نے کامیابی اور توفیق کو خود پسندی اور انانیت سے دور ی اور خدا کی بندگی میں مضمر قراردیتے ہوئے کہا کہ جتنے بھی افراد اب تک اپنی زندگی میں کامیاب ہوئے یا ایمان کے مختلف درجات اور معنویت و روحانیت کے کمالات تک پہنچنے کے ساتھ ساتھ دین کی صحیح معنوں میں خدمت کرنے میں کامیاب ہوئے ہيں انہوں نے سب سے پہلے اپنی خواہشات نفسانی پر غلبہ حاصل کیا اور تہذیب نفس کو انجام دیا ۔

آستان قدس رضوی کے متولی نے اپنے خطاب میں اس بات کا ذکرکرتے ہوئے کہ انیس سو ساٹھ کے عشرےمیں سیکولرزم یہ دعوی کرتا تھا کہ دین رفتہ رفتہ ختم ہوتا جارہا ہے کہا کہ اس دور میں مغرب یہ نعرہ لگارہا تھا کہ معاشرے کو دین سے الگ ہونا چاہئے او روہ معاشرے کو دین سے دور اور سماج میں دین کا کردار ختم کرنے پر اپنی کوششیں صرف کررہا تھا اور دین کو صرف ایک ذاتی معاملہ تک محدود کررہا تھا
۱۹۶۰کی دہائی میں سکولرزم سے متعلق چھپنے والی کتابوں پر اور مقالوں کا حوالہ دیتے ہوئے حجت الاسلام مروی نے کہا کہ ان دنوں ایک مغربی دانشور اور اہل قلم نے "بے گھر کی روح یا ‘‘ ‎homeless mind نام کی ایک کتاب لکھی جس میں باقاعدہ اس بات کی پیشین گوئي کی گئی تھی کہ مستقبل قریب میں انسان کی سماجی زندگی سے دین کا کردار ختم ہوجائے گا

حجت الاسلام مروی نے کہا کہ انیس سو اناسی میں ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد اسی شخص نے متعدد مقالے تحریر کئے اور ان میں اس بات کا اعتراف کیا کہ انسانی زندگی میں دین کا کردار ختم ہونے کے بارےمیں میرا دعوی غلط تھا بلکہ معاشروں میں دینی عقائد بہت تیزی کے ساتھ پروان چڑھ رہے ہيں اور مختلف سیاسی و سماجی میدانوں میں مؤثر واقع ہو رہے ہیں اور انہی اثرات میں ایک اثر ایران کا اسلامی انقلاب ہے
آستان قدس رضوی کے متولی کا کہنا تھا کہ آج اسلامی انقلاب کی برکت سے دین معاشرے میں پوری طرح دخیل ہوچکا ہے لیکن دوسری جانب اسلام دشمن طاقتیں بھی دین کو پھیلنے سے روکنے کے لئے بے کار نہیں بیٹھی ہيں اسی لئے پچھلے چند برسوں کے دوران دین، خدا کے وجود اور وحی سے متعلق جو شکوک وشبہات پیدا کئے گئے ہیں وہ بہت زیادہ ہیں اور ان شکوک و شبہات کے جوابات دینے کی ذمہ داری دینی مدارس اور حوزہ علمیہ پر عائد ہوتی ہے ۔

آستان قدس رضوی کے متولی کا کہنا تھا کہ موجودہ دور میں سوشل میڈیا اور اینٹرنیٹ کی وجہ سے ارتباطات بہت وسیع ہو چکے ہیں اب آپ ایک ٹیلی فون سے پوری دنیا کے ساتھ رابطہ برقرار کر سکتے ہیں اب ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ گمراہ کرنے والی کتابوں یا کتب ضالہ کی روک تھام کی جائے کیونکہ ہزاروں کی تعداد میں صفحات انٹرنیٹ کے ذریعہ دینی اقدار کے خلاف شائع ہورہے ہیں جن کے ذریعہ ذہنوں میں مسلسل شکو ک و شبہات پیدا کئے جارہےہيں
انہوں نے رضوی علوم اسلامی یونیورسٹی کے طلباء کی ذمہ داریوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ملک میں بہت ساری یونیورسٹیاں اور ادارے پائے جاتے ہیں جیسے عدلیہ، ریڈیو ٹیلی ویژن، وزارت پٹرولیم اور مختلف یونیورسٹیاں جو اپنی ضرورت کے اعتبار سے طلبا کی تربیت کرتی ہیں لیکن رضوی علوم اسلامی یونیورسٹی حضرت امام علی رضا علیہ السلام سے منسوب ہے اس لئے ہمیں چاہئے کہ حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے لئے افراد کی تربیت کریں اور جو چیز امام علی رضا علیہ السلام چاہتے ہیں وہ ’’ رحم اللہ عبداً احیا امرنا‘‘ ( خدا رحمت کرے اس شخص پر جو ہمارے امر کو زندہ کرے) ہے۔

آستان قدس رضوی کے متولی کا کہنا تھا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ رضوی علوم اسلامی یونیورسٹی میں ایسے مجتہدین کی تربیت کی جائے جو ایسے تمام دینی اور سماجی مسائل پر مکمل عبور رکھتے ہوں جو معاشرے کو درپیش ہيں ۔ انہوں نے کہا کہ آستان قدس کے متولی کی حیثیت سے میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اس یونیورسٹی میں ملک کے لائق اور قابل ترین افراد کو داخلہ دیا جائے اور ایسے مجتہدین کی تربیت کی جائے جو صرف فقہ و اصول پر عبور نہ رکھتے ہوں بلکہ ہر علمی میدان میں جو عبور رکھتے ہوں اور تمام مسائل پر جن کا احاطہ ہو ۔

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬