02 November 2019 - 22:46
News ID: 441541
فونت
نیاز نقوی:
علی مسجد میں خطاب کرتے ہوئے ممتاز عالم دین کا کہنا تھا کہ ان ممالک کے عوام کے معاشی مسائل حل ہونے چاہیں لیکن عراق میں احتجاج کا جو انداز اختیار کیا گیا ہے، اس کا مقصد عراقی حکومت کو غیر مستحکم کرنا خصوصاً ایران اورعراق کی حکومتوں میں اختلاف ڈالناہے۔

رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے نائب صدر علامہ سید نیاز حسین نقوی نے واضح کیا ہے کہ عراق ا ور لبنان میں احتجاجی مظاہروں اور بدامنی کے حالیہ واقعات امت مسلمہ میں اختلافات پیدا کرنے اور سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کی منظم سازش ہے، جس کے پیچھے استعماری قوتوں کے شیطانی مقاصد کار فرما ہیں۔ ان ممالک کے عوام کے معاشی مسائل حل ہونے چاہیں لیکن عراق میں احتجاج کا جو انداز اختیار کیا گیا ہے، اس کا مقصد عراقی حکومت کو غیر مستحکم کرنا خصوصاً ایران اورعراق کی حکومتوں میں اختلاف ڈالنا ہے کیونکہ عراق میں بھی 80 فیصد آبادی شیعہ ہے۔ امریکہ اور اِس خطہ کے بعض ممالک کو عراق اور ایران کی قربت برداشت نہیں ہو رہی۔ آج کی عزاداری امام رضا علیہ السلام کی مجالس و محافل کا تسلسل ہے، جس میں خواتین کیلئے علیحدہ انتظام ہوتا تھا۔

انہوں نے ماہ ِ ربیع الاول کے آغاز اور میلاد رسول اکرم کی مبارکباد بھی پیش کرتے ہوئے کہا کہ توحید کے بعد نبوت اور ولایت و امامت کا عقیدہ بھی لازم ہے، اس کے بغیر اسلام مکمل نہیں ہوتا۔ علی مسجد جامعتہ المنتظر لاہور میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے آٹھویں تاجدار امامت حضرت امام رضا علیہ السلام کی بیان کردہ حدیث کہ کلمہ لاالہٰ میرا قلعہ ہے اور جو میرے قلعہ میں آ گیا میرے عذاب سے بچ گیا لیکن شرائط کیساتھ اور ایک شرط میں بھی ہوں‘‘ بارے کہا کہ اسے سلسة الذھب یعنی سنہری سلسلہ بھی کہتے ہیں کیونکہ یہ امام معصوم ؑ سے خدا تک جاتا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے۔

ان کا کہنا تھا حضرت امام رضا ؑ کی جلا وطنی مامون الرشید کی حکومت کا ایک جبر تھا۔ مدینہ تا خراسان کا سفر معمول کے راستوں سے ہٹ کر طے کرایا گیا۔ امام رضاؑ جب مدینہ سے چلے تو خاندان والوں کو الوداع کرتے ہوئے بتا دیا تھا کہ اب واپسی نہ ہوگی اور (بعد شہادت ) گریہ کرنے کی تاکید کی۔ روزہ رسول پر جا کر کئی مرتبہ الوداع کیا۔ خراسان پہنچنے سے قبل نیشا پور پہنچے تو 20ہزار لوگوں نے استقبال کیا اور کچھ ارشاد کرنے کی درخواست کی تو امام رضا ؑ نے دیگر احکام ومعارف اسلامی بیان کرنے کی بجائے یہی حدیث بیان کی، جس میں توحید کا بیان ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ امام کے نزدیک عقیدہ توحید کی کس قدر اہمیت تھی۔

انہوں نے کہا کہ عقیدہ توحید کی تکمیل میں اپنی یعنی عقیدہ امامت کو بھی لازمی شرط قرار دیا۔ لہٰذا توحید کے بعد نبوت اور ولایت و امامت کا عقیدہ بھی لازم ہے اس کے بغیر اسلام مکمل نہیں ہوتا۔ علامہ نیاز نقوی نے کہا کہ امام رضا ؑ نے مجالس کے ذریعہ دینی معارف کے بیان کو رواج دیا کیونکہ حکومتی جبر کی وجہ سے بہت سارے اسلامی احکام اور مسائل ویسے بیان نہیں کیے جا سکتے تھے۔ اِن محافل و مجالس میں شاعری ایک اہم ذریعہ اظہار تھا اور شعر میں مختلف مطالب بیان کیے جاتے تھے۔ دعبل خزاعی کا قصیدہ سننے کیلئے امام رضا ؑ نے باقاعدہ مجلس کا اہتمام کیا جس میں خواتین کیلئے الگ انتظام کیا جاتا تھا۔ آج کی عزاداری بھی اُسی کا تسلسل ہے جو آئمہ اہلبیت ؑ نے جاری کی تھی۔ واقعہ کربلاء کے بعد ابتدائی صدیوں میں آئمہ معصومین ؑ کے گھر میں صفِ عزاء کے بچھنے سے لوگوں کو محرّم کے آغاز کا پتہ چلتا تھا۔ عزاداری کا یہ پس منظر نہایت معتبر ہے۔/۹۸۸/ن

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬