06 November 2019 - 23:34
News ID: 441565
فونت
صدر بشار اسد:
شام کے صدر بشار اسد نے اعلان کیا ہے کہ ادلب سے دہشت گردوں کو نکالنے کے لئے سیاسی کوششیں کارگر نہ ہوئیں تو فوجی طاقت استعمال کی جائے گی ۔

رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، شام کے صدر بشار اسد نے اعلان کیا ہے کہ ادلب سے دہشت گردوں کو نکالنے کے لئے سیاسی کوششیں کارگر نہ ہوئیں تو فوجی طاقت استعمال کی جائے گی ۔ دوسری طرف شامی فوج نے اپنی پیش قدمی کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے، رمیلان آئل فیلڈ کو اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے۔ اس آئل فیلڈ پر شامی فوج کا کنٹرول کئی سال کے بعد قائم ہوا ہے۔

شام کے صدر بشار اسد نے ملک کے قومی ٹی وی سے گفتگو میں کہا ہے کہ ادلب میں شام کی فوج سے جنگ کرنے والے سبھی مسلح گروہوں کو ترکی کی حمایت حاصل ہے۔انھوں نے کہا کہ ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان جھوٹ بولتے ہیں اور غیر معقول پالیسیوں پر عمل کررہے ہیں۔

صدر بشار اسد نے شمالی شام میں فوج کی تعیناتی کے بارے میں دمشق اور کردوں کے درمیان سمجھوتے کے بارے میں کہا کہ اپنی ارضی سالمیت کا دفاع اور ملک کی تقسیم کی سازشوں کو ناکام بنانا ، دمشق حکومت اور فوج کا حق اور فرض ہے۔اس درمیان بعض ذرائع نے صوبہ حسکہ کے علاقے راس العین اور تل ابیض میں نہتے شہریوں پر ترکی سے وابستہ مسلح عناصر کے حملے کی خبر دی ہے۔

ایک اور رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شام کی فوج نے ترکی کی سرحد کےقریب قامشلی اور مالکیہ میں اپنے مورچے مضبوط کرنے کے بعد صوبہ لاذقیہ کے شمالی مضافات میں دہشت گردوں کے خلاف بھرپورآپریشن شروع کردیا ہے۔

اس علاقے میں شامی فوج اور دہشت گردوں کے درمیان گھمسان کی لڑائی کی خبریں ملی ہیں ۔شامی فوج اس سے پہلے لاذقیہ کے مشرقی مضافات کے علاقوں کو اپنے کنٹرول میں لے چکی تھی ۔

ایک اور رپورٹ میں بتایا گیا ہےکہ شامی فوج نے صوبہ حسکہ کے شمال مشرق میں واقع رمیلا ن آئل فیلڈ کو اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے۔

شامی ذرائع کے مطابق رمیلان آئل فیلڈ پر کئی سال کے بعد شامی فوج کا کنٹرول قائم ہوا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شام کے فوجی ملاعباس نامی گاؤں کے راستے رمیلان آئل فیلڈ میں داخل ہوئے ہیں ۔

شام کی سرکاری نیوز ایجنسی سانا نے بتایا ہے کہ شامی فوجیوں کے راس العین کے مشرقی مضافات میں داخل ہونے پر اس علاقے کے باشندوں نے ان کا گرمجوشی سے استقبال کیا۔

راس العین شام کے صوبہ حسکہ کے شمال مغرب میں ترکی کی سرحد کے قریب واقع ہے۔

یاد رہے کہ ترک فوج نے دہشت گردی کے مقابلے اور کرد جنگجوؤں کی سرکوبی کے بہانے، صدر رجب طیب اردوغان کے فرمان پر، رقہ اور حسکہ کی سرحدوں سے شام کے خلاف جارحیت کا آغاز کیا تھا۔بتایا جاتا ہے کہ ترکی نے یہ فوجی جارحیت امریکا کی ہری جھنڈی پر شروع کی تھی۔

ترک فوج گزشتہ تین سال کے دوران ، شام کے خلاف کئی بار جارحیت کرچکی ہے۔

شام کے حکام نے اعلان کیا ہے کہ اپنے ملک کی ارضی سالمیت اور اقتدار اعلی کا دفاع کریں گے۔/۹۸۸/ن

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬