15 May 2018 - 19:34
News ID: 435942
فونت
پہلی قسط:
انسان کی خلقت کا مقصد، انسانی وجود کے جوھر اور انسانیت کو منزل کمال عطا کرنا ہے جیسا کہ سورہ ذاریات ۵۶ ویں آیت «وَ ما خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْإِنْسَ إِلاَّ لِیَعْبُدُونِ» [۱] ھم نے جن و انس کی خلقت نہیں کی مگر یہ کہ وہ میری عبادت کریں ۔
 دعا

تحریر:‌ سید افسر حسین

وَ لَهُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ وَ مَنْ عِنْدَهُ لا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبادَتِهِ وَ لا يَسْتَحْسِرُونَ ۔ سورہ انبیاء ایت (19) 

زمین و آسمان کی کل چیزیں اس خداوند متعال کے لئے ہیں، اور اس کے نزدیک «اس کی بارگاہ میں حاضر لوگ» اپنی عبادتوں پر غرور نہیں کرتے اور نہ ہی تھکتے ہیں ۔ (19)

بندگی  انسان کی خلقت کے مقصد پورا کرتی ہے  اور انسانی وجود کے جوھر اور انسانیت کو منزل کمال عطا کرنے کا وسیلہ ہے جیسا کہ سورہ ذاریات 56 ویں آیت «وَ ما خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْإِنْسَ إِلاَّ لِیَعْبُدُونِ» [1] ھم نے جن و انس کی خلقت نہیں کی مگر یہ کہ وہ میری عبادت کریں ۔ مقصد خلقت حیات کے سلسلہ سے پورے قران کریم میں شاید اس سے زیادہ روشن اور واضح ایت نہیں مل سکتی جس میں اتنا واضح مقصد خلقت انسان بیان گیا ہو ۔

عبادت کے ظاھری اور لغوی معنی تو جیسا کہ راغب اصفھانی مفردات الفاظ قرآن کریم میں تحریر فرماتے ہیں : العُبُودِیَۃُ ؛ اِظّْھَارُ التّذَلُّلِ ، و العِبَادَۃُ ، اَبْلَغُ مِنْھَا لِاَنّھَا غَایَۃُ التّذَلّلِ ۔ عبودت انکساری اور خاکساری ہے اور عبادت اس بھی بالاتر ہے کیوں کہ عبادت انکساری اور خاکساری کی آخری حد ہے ۔  

اصطلاحی دنیا میں «عبودیت» کا مفهوم خود کو الھی کمالات سے مزین اور آراستہ کرنا، اپنے کردار کو کردار پروردگار کا ائینہ قرار دینا اور خداوند متعال کی ولایت اور سرپرستی کے سوا کسی کو تمام ولایتوں‌ کا انکار ہے ۔

خدا کی وحدانیت اور ولایت و سرپرستی ایک ہی سکہ کے دو رخ ہیں ، اپنے پورے  وجود کے ساتھ الھی کمالات سے خود کو مزین کرنے کا والا بندہ ، جو کوئی بھی عمل ، صفت اور ذات میں خدا ملحوظ نظر رکھے ،خداوند متعال تمام مراحل میں اس کا سرپرست اور اس کا ذمہ یدار ہوتا ہے  یعنی خداوند متعال اس کا «ولیّ» اور وہ «ولیّ الله» ہوگا ۔

آداب بندگی :

راوی نے جب امام جعفر صادق علیه السلام سے حقیقت عبودیت کے بار میں معلوم کرنا چاھا تو آپ نے فرمایا:

«قُلتُ: یا أَبا عَبْدِاللهِ؛ ما حَقِیقَةُ الْعُبُودِیَّةِ؟ قالَ: ثَلاَثَةُ أَشْیاءٍ: أَنْ لا یَرَی الْعَبْدُ لِنَفْسِهِ فِیما خَوَّلَهُ اللهُ مِلْکاً، لأنَّ الْعَبِیدَ لا یَکُونُ لَهُمْ مِلْکٌ، یَرَوْنَ الْمالَ مالَ اللهِ، یَضَعُونَهُ حَیْثُ أَمَرَهُمُ اللهُ بِهِ؛ وَ لاَ یُدَبِّرُ الْعَبْدُ لِنَفْسِهِ تَدْبِیراً؛ وَ جُمْلَةُ اشْتِغالِهِ فِیما أَمَرَهُ تَعالی بِهِ وَ نَهاهُ عَنْهُ...»[2]

میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ حقیقت عبودیت کیا ہے تو اپ نے فرمایا کہ تین چیز ہے : ایک یہ کہ خداوند متعال نے چو کچھ بھی اسے دیا ہے خود کو اس کا مالک نہ سمجھے کیوں کہ غلام کا اپنا کچھ بھی نہیں ہوتا بلکہ اسے مال خدا جانے اور اسے خدا کے بتائے ہوئے راستوں پر خرچ کرے ، دوسرے یہ کہ بندہ خود کے لئے  کوئی تدبیر نہ کرے ، تیسرے یہ کہ بندہ تمام وہ کام انجام دے جس کا پروردگار نے حکم دیا ہے اور ھر اس کام سے پرھیز کرے جس سے اس نے منع کیا ہے ۔

۱ -  خداوند متعال کی ولایت پر ایمان: یعنی خداوند متعال نے چو کچھ بھی اسے دیا ہے خود کو اس کا مالک نہ سمجھے کیوں کہ غلام کا اپنا کچھ بھی نہیں ہوتا ۔

۲ - اظھار عاجزی: بندہ خود کے لئے  کوئی تدبیر نہ کرے

۳ - ھر حال میں رضای پروردگار ملحوظ نظر رکھنا : بندہ تمام وہ کام انجام دے جس کا پروردگار نے حکم دیا اور ھر اس کام سے پرھیز کرے جس سے اس نے منع کیا ہے ۔

بندگی اور عبادت ، امتیاز کا وہ مقام ہے جو انسانوں کو دیگر مخلوقات سے الگ کردیتا ہے ، اگر انسانوں کی حیات میں عبادت و بندگی نہ ہو پھر حیوانوں کے مانند اس سرزمین پر چند دنوں کے بعد چلتی پھرتی زندگی پر موت کی چادر ڈال دی جائے گی اور اس بدبودار جسم سے نجات پانے کے لئے لوگ اسے منو مٹی میں دفنا دیں گے ۔

لیکن اگر یہی حیات اطاعت الھی میں گذرے تو  برسوں بعد بھی جسم میں تروتازگی موجود رہتی ہے جس کا ایک چھوٹا سا نمونہ صحابی رسول اسلام حجر ابن عدی کا جسم ہے ، جو برسوں بعد قبر سے نکالا گیا مگر کفن تک میلا نہیں ہوا  ۔

قران کریم اور احادیث میں لفظ عبادت کے متعدد اور مختلف معنی ہیں جو انسانی زندگی کے تمام گوشہ میں شامل ہے ، مگر اس کا ایک عبادت کا خاص مفھوم بھی ہے اور انسانوں کا خداوند متعال سے دعا، نماز، ذکر اور قران کریم کے وسیلہ رابطہ قائم کرنا ہے ، جو بہت ہی زیادہ انبیاء اور اولیاء الھی کے مورد تاکید رہا ہے ، اس حد تک کہ امام صادق علیه السلام نے رسول اکرم ـ صلّى الله علیه وآله وسلّم – منقول حدیث میں فرمایا:

«أَفْضَلُ النّاسِ مَنْ عَشِقَ الْعِبادَةَ، فَعانَقَها بِنَفْسِهِ وَ باشَرَها بِجَسَدِهِ، وَ تَفَرَّغَ لَها، فَهُوَ لایُبالِی عَلی ما أَصْبَحَ مِنَ الدُّنْیا، عَلی عُسْرٍ أَمْ عَلی یُسْرٍ.»[3]

لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہے جس کے دل میں عبادت کا اشتیاق ہو، اپنے پورے وجود کے ساتھ عبادت سے مانوس ہو ، اپنا پورا وقت عبادت الھی میں گذارے اور دنیا کی آسانیوں اور پریشانیوں میں ھرگز اس کے قدم نہ ڈگمگائیں ۔

جارہی ہے ۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالے :

۱: سورہ انبیاء ایت (19) 

۲: سورہ ذاریات 56

۳: کافى، ج2، ص83؛

۴: وسائل الشیعة، ج1، ص83؛ مجموعه ى ورّام، ج2، ص37 و...

۵: کتاب آداب المریدین سے اقتباس 

/۹۸۸/ن ۷۰۱

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬