‫‫کیٹیگری‬ :
05 November 2018 - 16:29
News ID: 437577
فونت
اللہ تعالی نے لوگوں کے دلوں کو امام حسین علیہ السلام کے عشق سے مالا مال کیا ہے، اور عشق بہرصورت عاشق کو دوست کی منزل تک پہنچا ہی دیتا ہے۔ لہٰذا اموی ظلم و ستم کی حکمرانی اور ہر گونہ خفیہ اور اعلانیہ دباؤ کے باوجود، عاشقان حسینی نے پہل اربعین سے کی، اور زیارت سیدالشہداء علیہ السلام کی راہ پر گامزن ہوئے۔
اربعین

تحریر: سیدہ ایمن نقوی

مؤمن کی پانچ نشانیاں ہیں اور ان میں سے ایک زیارت اربعین کی تلاوت ہے۔ امام صادق علیہ السلام نے صفوان بن مہران جمّال کو زیارت اربعین، سکهائی ہے جس میں اربعین کی تکریم و تعظیم پر تأکید فرمائی ہے۔ (1) قدیم شیعہ منابع کے مطابق "اربعین" کی اہمیت دو وجوہات کی بنا پر قابل توجہ ہے:
1۔ اس روز فرزندان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ، شام میں یزید بن معاویہ بن ابی سفیان کی اسارت سے آزاد ہوکر مدینہ کی طرف لوٹے تھے۔
 2۔ اسی روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ اور امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے مشہور و معروف صحابی حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضوان اللہ تعالی علیہ نے کربلا میں حاضر ہوکر قبر سید الشہداء علیہ السلام کی زیارت کی تھی۔

اربعین کے بارے میں علماء کی رائے:
شیخ مفید، شیخ طوسی اور علامہ حلّی (قدس سرہ) اس سلسلے میں رقمطراز ہیں،کہ 20 صفر کا دن، وہ دن ہے کہ حرم امام حسین علیہ السلام شام سے مدینہ منورہ کی طرف لوٹے، اور اسی روز رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کے صحابی حضرت جابر بن عبداللہ انصاری (رض) سید الشہداء علیہ السلام کی زیارت کی نیت سے مدینہ سے کربلائے معلٰی مشرف ہوئے اور جابر وہ پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے قبر امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی۔ (2) اور سید ابن ‏طاؤس نے "اقبال الاعمال" میں، علامہ حلی کتاب "المنتہی" میں، علامہ مجلسی نے کتاب "بحارالانوار" کے باب "مزار" میں، شیخ یوسف بحرانی نے کتاب "حدائق"، حاجی نوری نے کتاب "تحیة الزائر" میں اور شیخ عباس قمی نے اپنی کتاب "مفاتیح الجنان" میں، سب نے شیخ طوسی کے حوالے سے نقل کیا ہے، اربعين اور زيارت امام حسين عليہ‏ السلام کا دو ناموں کے ساتھ قریبی تعلق ہے۔ ان میں سے ایک نام "عطية بن عوف کوفی" کا ہے جو امام حسین علیہ السلام کے پہلے چالیسویں پر کربلا مشرف ہوئے اور امام علیہ السلام کے مرقد منور کی زیارت سے مستفیض ہوئے۔

جس وقت امام حسین علیہ السلام کا سر مبارک نیزے پر اور اہل بیت علیہم السلام کو اسیر کرکے شام لے جایا گیا؛ اسی وقت سے کربلا میں حاضری کا شوق اور امام حسین علیہ السلام کی قبر مطہر کی زیارت کا عشق دسترس سے بالکل باہر سمجها جاتا تها، کیونکہ اموی ستم کی حاکمیت نے عالم اسلام کے سر پر ایسا دبیز سیاہ پردہ بچها رکھا تها کہ کسی کو یقین نہیں آ سکتا تها کہ ظلم کا یہ پردہ آخر کب چاک کیا جا سکے گا اور کوئی نفاق کے اس پردے سے گذر کر سید الشہداء علیہ السلام کی زیارت کے لئے کربلا میں حاضری دے سکے گا۔ مگر امام حسین علیہ السلام کی محبت کی آگ اس طرح سے ان کے عاشقوں کے قلب میں روشن تھی کہ اموی اور عباسی طاغوتوں کی پوری طاقت بھی اسی گل نہ کرسکی۔ جی ہاں! یہی محبت ہی تو تھی جو عاشق اور دلباختہ حسینیوں کو کربلا تک لی گئی اور امام شہداء علیہ السلام کی شہادت کے چالیس روز نہیں گذرے تھے کہ عشق حسینی جابر بن عبداللہ انصاری کو کربلا کی طرف لے گیا۔ جابر جب کربلا پہنچے تو سب سے پہلے دریائے فرات کے کنارے چلے گئے اور غسل کیا اور پاک و مطہر ہوکر ابا عبداللہ الحسین علیہ السلام کی قبر منور کی طرف روانہ ہوئے اور جب پہنچے تو اپنا ہاتھ قبر شریف پر رکھا اور اچانک اپنے وجود کی اتھاہ سے چِلّائے اور بے ہوش ہوگئے اور جب ہوش میں آئے تو تین بار کہا، يا حسين! یاحسین! یا حسین اور اس کے بعد زیارت پڑھنا شروع کی۔
 
اربعین کے روز زیارت امام حسین علیہ السلام پر تأکید:
اسلام کی روائی اور حدیثی تعلیمات میں جن اعمال کو مقدس ترین عبادات میں شمار کیا گیا ہے اور ان کی بجا آوری کی تلقین کی گئی ہے ان میں اولیائے الٰہی اور آئمۂ معصومین علیہم السلام کی زیارت بھی شامل ہے۔ معصومین علیہم السلام کی زیارات میں امام حسین علیہ السلام کی زیارت کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے؛ چنانچہ کسی بھی امام معصوم (ع) کی زیارت پر اتنی تأکید نہیں ہوئی جتنی کہ سیدالشہداء علیہ السلام کی زیارت پر ہوئی ہے۔ امام صادق علیہ السلام نے ابن بُکَير سے جو امام حسین علیہ السلام کی راہ میں خوف و ہراس کے بارے میں بتا رہے تھے، سے ارشاد فرمایا:  "اما تحب ان یراک اللہ فینا خائفا؟ اما تعلم انہ من خاف لخوفنا اظلہ اللہ فی عرشہ"؛ کیا تم پسند نہیں کرتے ہو کہ خداوند متعال تمہیں ہماری راہ میں خوف و ہراس کی حالت میں دیکھے؟ کیا تم نہیں جانتے ہو کہ جو ہمارے خوف کی بنا پر خائف ہوا اللہ تعالی اپنے عرش میں اس کے سر پر سایہ ڈالے گا؟

چونکہ اللہ تعالی نے لوگوں کے دلوں کو امام حسین علیہ السلام کے عشق سے مالا مال کیا ہے، اور عشق بہرصورت عاشق کو دوست کی منزل تک پہنچا ہی دیتا ہے۔ لہٰذا اموی ظلم و ستم کی حکمرانی اور ہر گونہ خفیہ اور اعلانیہ دباؤ کے باوجود، عاشقان حسینی نے پہل اربعین سے کی، اور زیارت سیدالشہداء علیہ السلام کی راہ پر گامزن ہوئے۔ آج تک ہر مسلمان مرد اور عورت کی دلی آرزو امام حسین علیہ السلام کی زیارت ہوتی ہے۔ اربعین حسینی مسلمانوں کے دلوں میں انقلاب بپا کر دیتی ہے اور آج مغربی دنیا کے اخلاقی اور سیاسی انحطاط کے آگے اخلاق و روحانیت پر مبنی ایک اجتماعی جذبے کا اظہار کرتی ہے، جس میں دنیا مکتب حسینی کے ایثار و فداکاری پر مبنی فطری جذبات سے آگاہی حاصل کرتی ہے۔ اربعین، عزت اور آزادی کے تسلسل میں عاشورا کا وہ لہراتا ہوا پرچم ہے، جو ان حالیہ سالوں کے دوران یہ واقعہ کفر و شرک کے محاذ کے خلاف ایک عالمی قیام میں تبدیل ہوگیا ہوا ہے۔ اور کوئی بھی دشمن طاقت اسے کمزور کرنے یا اسے بند کروانے کی طاقت نہیں رکھتی ہے کیونکہ یہ واقعہ عاشورا کے بابرکت اور ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندرسے متصل ہے۔

اربعین کو زندہ رکھنا، موجودہ پرتلاطم دور میں اپنا کردار ادا کرنے کے لئے شیعہ کی استقامت کی تمرین ہے۔ لہٰذا جہاں تک ممکن ہے اس عاشورائی واقعہ کے استحکام اور اس کی سلامتی کے لئے کوشش کرنی چاہیئے اور ہمیں معلوم ہونا چاہیئے کہ دشمن اربعین کے واقعہ میں خلل ایجاد کرنے اور اسے کمزور کرنے کے درپے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے سائبر سپیس اور سیٹلائٹ چینلز مختلف پروگراموں کے ڈھانچے میں اپنے دین مخالف اور اہانت آمیز اقدامات میں اضافہ کر رکھا ہے۔ یاد رہے کہ امر بالمعروف کی ترویج کا ایک اہم ترین مصداق اس عالمی واقعہ یعنی اربعین کو مضبوط کرنا ہے اور اس اربعین کو اسی طرح جاری و ساری رہنا چاہیئے کیونکہ اللہ تعالی نے سید الشہداء علیہ السلام کے خون کے ذریعے اپنے دین کی ترویج کا ارادہ کیا ہوا ہے۔ خلقت کی ابتداء سے ہی حق اور باطل ایک دوسرے کے مقابلے میں آ رہے ہیں۔ اس وقت دشمن، مسلمانوں کے مذاہب اور نظریاتی اختلافات کو ایک دوسرے کےخلاف استفادہ کر رہا ہے۔ طریقہ کار اورسلیقوں کا اختلاف، مسلمانوں کو ایک دوسرے کے مقابلے میں کھڑا کرنے کے لئے دشمن کو بہانہ فراہم کرنے کا سبب نہیں بننا چاہیئے۔ تمام مسلمانوں کا قرآن کریم، پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور کعبہ ایک ہے، لہٰذا ہمیں مشترکہ نکات پر توجہ دینی چاہیئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 منبع و مآخذ:
1۔ شیخ طوسی، مصباح المتہجد، ص 788- 789
2۔ رضی الدین علی بن یوسف مطہر حلی، العدد القویہ، ص 219

/۹۸۸/ ن ۹۴۰

منبع: اسلام ٹائمز

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬