تحریر: سید نجیب الحسن زیدی
تاریخ ائمہ طاہرین علیھم السلام یوں تو ہدایتِ امت کے سلسلے سے انکی جدوجہد کے ساتھ مظلومیت کی ایک ایسی کتاب ہے جس کے ورق ورق پر ہمارے آئمہ طاہرین (ع) پر ہونے والے مظالم کی داستان رقم ہے، لیکن ان میں سے بعض وہ شخصتیں ہیں جنہیں تمام تر مظلومیت کے باجود طول عمر کے علاوہ، مختصر عرصے ہی کے لئے سہی لیکن مناسب اور سازگار ماحول مل گیا جبکہ بعض وہ شخصتیں ہیں جنہیں نہ ہی ماحول سازگار مل سکا اور نہ ہی ان کی عمر مبارک اتنی رہی کہ وہ زیادہ کچھ کر پاتے، اسکے باوجود مختصر سی عمر میں تمام تر قید و بند کی مشکلوں کے باوجود انہوں نے ہدایتِ امت اور خاص کر اپنے شیعوں کی راہنمائی میں کوئی دقیقہ فروگزار نہ کیا، ہمارے سامنے ایک ایسی ہی شخصیت امام حسن عسکری علیہ السلام کی ہے۔ ۸ ربیع الاول ہمارے اس امام کی شہادت ہے جنہیں تاریخ میں عسکری کے نام سے جانا جاتا ہے۔ امام حسن عسکری سن ۲۶۰ھ. ربیع الاول کے مہینے میں بیمار ہوئے اور اسی مہینے کی آٹھ تاریخ کو ۲۸سال کی عمر میں شہید ہوئے۔(1)
ہم اگر امام حسن عسکری علیہ السلام کے دور امامت کو دیکھیں تو چھ سال کا مختصر عرصہ ہے اور آپکی پوری زندگی ۲۸ سال میں سمٹی نظر آتی ہے لیکن اس مختصر سی زندگی میں آپ نے اپنے بہت ہی مختصر دور امامت میں اس طرح شیعت کی فکری بنیادوں کو بلند کیا کہ آج تک عصر غیبت کے طولانی عرصہ میں ہمیں کسی بھی مقام پر ہمیں اپنے دینی متون میں فکری ہلکے پن کا احساس نہیں ہوتا یہ اور بات ہے کہ ہم بھی اپنی بےبضاعتی کی بنیاد پر اس عظیم سرمایہ سے واقف نہیں، جو امام حسن عسکری علیہ السلام نے ہمارے لئے چھوڑا ہے۔ ۲۸ سال کی مختصر زندگی اس میں بھی زندان، قید و مشقت، ان سب کے باوجود جہاں جہاں پر بھی آپ نے شیعوں کے درمیان فکری خلا کا مشاہدہ کیا اسے پر کیا۔ آپ اپنے والد محترم ہی کی طرح حکومت کی چھاؤنی میں قید رہے، جسے سامراء کے نام سے جانا جاتا تھا۔ حکومت وقت کی کڑی اور شدید نگرانی میں زندگی گزارنا ہی خود ایک سخت منزل تھی، اس کے ساتھ ساتھ شیعوں کی رہنمائی کا بھی دشوار ترین مرحلہ تھا۔ آپ کی نگرانی اس قدر سخت تھی کہ راوی کہتا ہے، ایک دن جب امام علیہ السلام کو دارالخلافہ جانا تھا ہم "عسکر " کے مقام پر آپ کو دیکھنے کے لئے جمع ہوئے تاکہ آپ کی زیارت کر سکیں اسی دوران کسی نے ہمیں ایک پرچی لا کر دی جس میں تحریر تھا کوئی مجھ کو سلام اور حتٰی میری جانب اشارہ بھی نہ کرے، چونکہ مجھے امان نہیں ہے(2)۔
اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امام پر کتنی پابندیاں تھیں لیکن اتنی پابندیوں کے باجود آپ کو اپنے شیعوں کی کس قدر فکر تھی کہ آپ نے انہیں دشمنوں کی نظروں میں آنے سے بچا لیا۔ جہاں حکومت وقت کی نظریں آپ پر ہر وقت تھیں وہیں شیعوں کے حالات بھی کچھ اچھے نہ تھے۔ کچھ لوگ بعض اعتقادی و کلامی مسائل میں آپس میں الجھے ہوئے تھے تو کچھ آپسی انتشار کا شکار تھے آپ کو انکے عقائد کے سلسلہ میں بھی رہنمائی کرنا تھی چونکہ طولانی غیبت کا مرحلہ آپ کے سامنے تھا اور اپنے شیعوں کو تحمل و بردباری کے ساتھ ایک دوسرے کے دکھ درد کو سمجھتے ہوئے متحد ہو کر جینے کی سفارش بھی کرنا تھی جبکہ حکومت کی مستقل نگرانی تھی۔ آپ نے دشوار ترین حالات کے باجود دونوں ہی کاموں کو مکاتبات کے ذریعہ بحسن خوبی انجام دیا۔ جہاں آپ نے ہشام بن سالم و ہشام بن حکم کے درمیان توحید کے مسئلہ کو حل کیا اور ایک خط کے ذریعہ خدائے واحد کو ترکیب، جسم اور تشبیہ سے مبرہ قرار دیتے ہوئے توحید کو واضح کیا (3)۔ تو وہیں آپ نے بعض فقہی مباحث میں بھی اپنے ارشادات کے ذریعہ مسائل کو حل کیا، چنانچہ ماہ مبارک رمضان کے آغاز اور خمس کے بعض مسائل میں (4)، مراجع کرام آج بھی آپ کی روایات سے استفادہ کرتے ہیں، باب توحید میں آپکی روایات ہوں یا فقہ و دیگر اخلاقی مسائل کے سلسلہ میں آپکے رہنما اصول، ہم تک آپ کا بیانات کا ذخیرہ پہنچ جانا ہی خود میں ایک معجزہ سے کم نہیں ہے، چنانچہ آپ کے اوپر جب چو طرفہ نظر رکھی جا رہی تھی تو آپ خاموش نہیں بیٹھے بلکہ شیعوں کی رہنمائی کے لئے آپ نے مختلف شہروں میں نمائندے مقرر کئے، چنانچہ انہی نمائندوں میں ایک عثمان بن سعید تھے جو آپکی شہادت کے بعد غیبت صغریٰ کی ابتداء میں بھی امام زمانہ (عج) کے پہلے نائب خاص بھی رہے ہیں۔
غیر از این امام علیہ السلام مختلف ذریعوں سے مسلسل اپنے شیعوں سے رابطہ میں رہتے تھے، مثلا قُم کے شیعوں سے آپ کا رابطہ تھا اور علی بن حسین بن بابویہ کے ذریعہ دینی احکامات لوگوں تک منتقل پہنوچتے تھے جبکہ خطوط کے ذریعہ آپ سے جس قدر ممکن ہوتا آپ اپنے شیعوں کی رہنمائی فرماتے تھے۔ (5) آپکے بہت ہی خاص خادم جو شہادت کے وقت تک آپ کے ہمراہ رہے اور آپ کے خطوط کو شیعوں تک پہچانے کا ذریعہ تھے، جنہیں تاریخ عقید کے نام سے جانتی ہے۔ (6) اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ آپکا دور کتنا گھٹن کا دور تھا اور انہیں کسی شیعہ کے سوال کے جواب کے لئے کتنے جتن کرنا پڑتے تھے اسی طرح آپکے ایک اور خادم تھے جن کی کنیت "ابو الادیان "تھی ان کے ذمہ میں بھی خطوط آپ تک منتقل کرنا اور جوابات کو پہنچانا تھا۔ (7) آپ کے دور کے حالات اتنے سخت تھے کہ مسلسل حکومتیں تبدیل ہو رہی تھی اور جو آرہا تھا جو پچھلے سے زیادہ ظالم و خونخوار تھا، اقتدار کی رسی کشی کے دور میں یوں بھی حالات کا انصرام و انتظام بہتر نہیں ہوتا اور پتہ نہیں چلتا کون کس کے خلاف کب علم بغاوت بلند کر دے اسی دور میں با ایںکہ ظالم حکام جور آپس میں دست بہ گریباں تھے، مستعین کا قتل، معتز کی تخت نشینی انہی حالات کی عکاس ہے جو اس دور میں آپ کو درپیش تھے، خلفاء اور سلاطین زمانہ اپنی درونی تمام تر رسہ کشیوں کے باجود آپ سے غافل نہ تھے، چنانچہ ملتا ہے کہ بسا اوقات انہیں سفر درپیش ہوتا تو آپ کو بھی ہمراہ لے جاتے۔(8)
یہ اور بات ہے کہ اس طرح امام علیہ السلام کے شیعوں کو آپ کی زیارت کا موقع نصیب ہو جاتا، اور آپ نہ صرف انکے فکری مسائل حل کرتے انکے دینی اور شرعی سوالوں کے جواب دیتے بلکہ انکے مادی اور دنیوی مسائل سے بھی آپ غافل نہیں رہتے تھے چنانچہ آپ سے سفر کے دوران شیعوں سے ملاقات کے بعض عجیب و غریب مناظر تاریخ میں دکھتے ہیں، چنانچہ ایک مقام پر ملتا ہے کہ ایک اسماعیل بن محمد نقل کرتا ہے کہ "جہاں سے آپ کا گزر ہوتا تھا میں وہاں کچھ رقم مانگنے کے لئے بیٹھا اور جب امام علیہ السلام کا گزر وہاں سے ہوا تو میں نے کچھ مالی مدد آپ سے مانگی،(9) جسے امام نے پورا کیا "امام علیہ السلام کا اتنے دشوار ترین حالات میں بھی اپنے شیعہ اور چاہنے والے کی مشکل کا حل کرنا ہمیں بتاتا ہے کہ ہمیں کسی بھی حال میں شیعوں کے حالات سے بےخبر نہیں رہنا ہے اور جیسے بھی حالات ہوں اپنے دینی بھائیوں کے لئے جو بن پڑے کرنا ہے۔ جب ہر طرف سے آپ کی نگرانی ہو رہی تھی تو آپ نے مکاتبات اور خطوط کے ذریعہ دور دراز کے علاقوں میں رہنے والے شیعوں کے مسائل کو حل کر کے بتایا کہ اگر انسان واقعا درد رکھتا ہو تو کوئی چیز عوام کی رسیدگی میں مانع نہیں ہو سکتی چنانچہ آپ نے ایمان کے بعد سب سے زیادہ جس چیز پر تاکید کی ہے وہ لوگوں کی مشکلات کا حل اور انہیں فائدہ پہنچانا ہے۔ (10) نہ صرف آپ نے اپنے بھائیوں کو فائدہ پہنچانے کو نیکی کا سبب جانا ہے بلکہ لوگوں سے انکساری و تواضع سے ملنے کو شیعہ علی ابن ابی طالب کی فہرست میں قرار پانے والا قرار دیا ہے۔ (11)
اپنے برادران دینی سے جھک کر ملنا اس دور میں جس میں رعونت و تکبر کو شان سمجھا جاتا تھا۔ یقینا اس لحاظ سے قابل غور ہے کہ آپ نے اس حقیقی اسلام کی تصویر کو پیش کرنے کی کوشش کی، جس پر شاہان وقت کے ناپاک کرداروں کی گرد پڑ گئی تھی اور اقدار اسلامی تبدیل ہو رہی تھی، انسانی اقدار کی پامالی کو بادشاہ وقت کی دیدہ دلیری و جرات سے تعبیر کیا جاتا تھا، لیکن آپ نے اس دور میں بھی لوگوں کی مشکلات کو فراموش نہ کیا، آج بھی آپکے وہ خطوط تاریخ کے دامن میں محفوظ ہیں جنہیں آپ نے لوگوں کی مشکلات کے حل کے لئے مرقوم فرمایا تھا۔(12) صرف خطوط ہی نہیں آپ نے اس دور میں شیعوں کی مشکلات اور گھٹن کے پیش نظر جب یہ دیکھا کہ مسلسل شیعوں پر اکثریتی فرقے کا دباؤ بڑھ رہا ہے تو آپ نے ان کے امور کی رسیدگی اور وجوہات شرعی کی جمع آوری کیلئے مختلف علاقوں میں اپنے وکیلوں کو روانہ کرنا شروع کیا جو قریوں قریوں جاتے، شیعوں کے حالات کو دیکھتے شرعی رقوم کو اکٹھا کرتے اور امام کی خدمت میں پیش کرتے پھر امام کے حکم کے مطابق اسے تقسیم کرتے (13) امام علیہ السلام نے جہاں عملی طور پر شیعوں کے امور کی رسیدگی فرمائی، وہیں ذہنی طور پر انکو مشکلات سے نبرد آزما ہونے کے لئے بھی تیار کیا، لہٰذا آپکی احادیث میں اس دور کی سختیوں اور پریشانیوں کے باوجود، صبر کی تلقین، تحمل اور بردباری کے ساتھ مسائل کو حل کرنے کی سفارش نظر آتی ہے۔ (14) 8 ربیع الاول اس لحاظ سے ہمارے لئے ایک بڑے ہی غم کا دن ہے کہ اس دن امام عسکری علیہ السلام جیسے اس امام کی شہادت ہے کہ جس نے بہت ہی مختصر زندگی گزاری لیکن اپنی مختصر سی زندگی میں اتنا بڑا سرمایہ اپنے ماننے والوں کے حوالے کر دیا کہ آج تک عصر غیبت میں ہم امام عسکری علیہ السلام ہی کے دسترخوان کرم کی نعمتوں سے استفادہ کرتے ہوئے موجودہ سخت ترین دور میں بھی سلسلہ حیات کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حواشی:
1۔ مسعودی، اثبات الوصیہ، ص۲۵۸
2۔ راوندی، الخرائج و الجرائح، ج ۱، ص ۴۳
3۔کلینی، محمد بن یعقوب، اصول کافی، تحقیق علی اکبر غفاری، ج۱، ص۱۰۳۔ تہران، دارالکنب الاسلامیہ، ۱۳۸۸ق
4۔ رک : کاظم موسوی بجنوردی ، دائرة المعارف بزرگ اسلامی، ج۲۰، ص۶۳۰
5۔ روضات الجنان، ج۴، ص۲۷۳ و ۲۷۴۔ابن شہرآشوب، المناقب، ج۴، ص۴۲۵
6۔ شیخ طوسی، الغیبہ، ص۲۷۲، ، «حسن عسکری(ع)، امام»، ص۶۲۶.
7۔ ایضا
8۔ شیخ مفید، الارشاد، ص۳۸۷
9 ۔ اربلی، کشف الغمہ فی معرفہ الائمہ، ج۲، ص ۴۱۳.
10۔ خصلتان لیس فوقهما شیء: الایمان باللّه و نفع الأخوان، (تحف العقول، حرّانی، ص 363)
11۔ من تواضع فی الدّنیا لإخوانه فهو عنداللّه من الصّدّیقین و من شیعة علیّ بن ابیطالب علیه السلام حقّاً(احتجاج، طبرسی، ج 2، ص 267)
12۔ ابن شہر آشوب، مناقب، ج۴، ص۴۲۵؛ شیخ طوسی، الغیبہ، ص ۲۱۴.
13۔ مسعودی، اثبات الوصیہ، ص۲۷۰؛ رجال کشی، ص۵۶۰
14۔ مناقب ابن شہرآشوب، ج۳، ص۵۲۷
/۹۸۸/ ن۹۴۰
منبع: اسلام ٹائمز