‫‫کیٹیگری‬ :
23 January 2019 - 12:18
News ID: 439590
فونت
حجت الاسلام والمسلمین نظری منفرد:
حوزہ علمیہ قم کے استاد نے امیرالمومنین علی علیہ السلام کے سلسلہ میں معاویہ کی زبانی بیان کردہ فضائل و حقائق کی جانب اشارہ کیا اور کہا: معاویہ کے خط کو پڑھنے کے بعد حضرت امام علی(ع) کے صبر کے اسباب کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے ۔

رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق، حوزہ علمیہ قم کے استاد حجت الاسلام والمسلمین علی نظری منفرد نے حضرت آیت الله علوی گرگانی کے دولت خانہ پر منعقد مجلس عزاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا: معاویہ نے محمد بن ابی بکر کو جو خط لکھا ہے جس کا کتاب شافی میں سید مرتضی علیہ الرحمہ نے تذکرہ کیا ہے یہ خط معاویہ کی زبانی کچھ حقائق سے پردہ اٹھاتا ہے ۔

انہوں نے بیان کیا: معاویہ نے ھمیشہ اس بات کی کوشش کی کہ لوگوں کو پیسہ ، دھمکی اور قتل کے ذریعہ اپنے ہمراہ کرسکے اسی بنیاد پر محمد بن ابی بکر کو بھی اپنے ساتھ کرنا چاہا اور جب انہیں اپنی طرف لانے میں کامیاب نہ ہوا تو ان کا بھی قتل کرادیا اور ان کے جسم کو جلا دیا ۔

حوزہ علمیہ قم کے استاد نے بیان کیا: محمد بن ابی بکر ، خلیفہ اول اور اسماء بنت عمیس کے بیٹے ہیں اور ایک روایت میں امام صادق(ع) نے فرمایا کہ « محمد بن ابی بکر نے اپنی شرافت اپنی ماں سے ورثہ میں پائی تھی » اسی بنیاد توجہ کرنی چاہئے کہ شیر مادر اور ماں کی تربیت باپ سے کہیں سے زیادہ اثرانداز ہے، آپ جب مصر میں شھید ہوئے تو امیرالمؤمنین علی (ع) بہت زیادہ کبیدہ خاطر ہوئے اور فرمایا کہ وہ صلب ابی بکر میں سے تھے مگر میرے بیٹے تھے ۔

حجت الاسلام والمسلمین نظری منفرد نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ معاویہ نے محمد بن ابی بکر کے نام خط میں حقائق سے پردہ اٹھایا ہے اور اس نے یہ خط انہیں اس لئے تحریر کیا تاکہ انہیں اپنی سمت کھنیچ سکے کہا: معاویہ نے تحریر کیا کہ رسول اسلام(ص) کے زمانے میں امام علی(ع) کے فضائل و کمالات اور آپ(ع) کے علم کے سلسلہ میں کوئی اختلاف نہ تھا مگر رسول اسلام(ص) کی وفات کے بعد سب کچھ  بدل گیا ، تمھارے باپ اور ان کے دوست نے علی(ع) کی مخالفت کی ۔

حوزہ علمیہ قم کے استاد نے یاد دہانی کی: معاویہ لکھتے ہیں کہ اگر ان کا کام غلط تھا تو در حقیقت تمھارے باپ غلط راستہ پر گئے اور اگر صحیح گئے تو تم علی(ع) سے الگ کیوں نہیں ہوتے اور ان کا ساتھ کیوں نہیں چھوڑتے ؟

 

 

حجت الاسلام والمسلمین نظری منفرد نے مزید کہا: معاویہ اپنے خط میں مزید لکھتے ہیں کہ وہ لوگ علی بن ابی طالب کو قتل کرنا چاہ رہے تھے اسی بنیاد پر علی(ع) نے اپنی تلوار نیام میں رکھ لی اور کھیتی میں مصروف ہوگے تاکہ خود اور اپنے اصحاب کو قتل ہونے سے بچا سکیں ۔

حوزہ علمیہ قم کے استاد نے کہا : ان تمام باتوں کے باوجود ہم یہ اعتراض کرتے ہیں کہ حضرت نے خروج کیوں نہیں کیا اور اپنے حق کے لئے قیام کیوں نہیں کیا ؟ جبکہ امیرالمؤمنین علی (ع) فرماتے ہیں کہ « میں دیکھا کہ اهل بیت(ع) کے سوا کوئی میرا یاور و مددگار نہیں ہے ، اگر جعفر و حمزه  زندہ ہوتے تو اچھا ہوتا ، مگر میرے اس مختصر سے یاور و مددگار کو بھی قتل کر ڈالا ، اسی بنیاد پر ہم نے صبر سے کام لیا اور غصہ کے جام کو پی لیا کہ جو ہر چیز سے زیادہ تلخ اور کڑوا تھا » ۔

حجت الاسلام والمسلمین نظری منفرد نے بیان کیا: حتی سلمان و ابوذر شمشیر کھینچنا چاہ رہے تھے مگر حضرت علی(ع) نے اپ دونوں سے فرمایا کہ آپ کھانے میں نمک کے مانند اور انکھ میں سرمہ جیسے ہیں ، آپ سے کچھ بھی نہیں ہونے والا ۔

حوزہ علمیہ قم کے استاد نے واضح طور سے کہا: ہمیں اس بات پر توجہ کرنی چاہئے کہ امیرالمؤمنین علی (ع) اور آپ کے اصحاب کے قیام نہ کرنے کی وجہ، دشمن کے مقابل ناصروں کی کمی اور % ۱۰۰ پرسنٹ شکست کا احتمال تھا ، دوسرے حضرت علیہ السلام نے اپنے صبرکے ذریعہ اسلام اور شیعت کا تحفظ کیا ۔/۹۸۸/ ن ۹۷۰

 

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬