20 May 2019 - 23:45
News ID: 440415
فونت
اگر مسلمان قرآن کریم کے آئین و قوانین پر عمل کریں تو ہرگز ذلیل و خوار نہیں ہوں گے ۔

رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق حضرت امیر المومنین حضرت علی  ـ نہج البلاغہ میں خطبہ١٥٧ کے شروع میں اسی بات کی طرف توجہ دلاتے ہیں اور فردی و اجتماعی مشکلات کے حل کا راستہ قرآن کی طرف رجوع اور اس کے احکام پر عمل کرنے کو بتاتے ہیں۔

حجت الاسلام سید تقی عباس رضوی

 

''ان ھذا القرآن یہدی للتی ھی اقوام و یبشّر المؤمنین الذین  یعلمون الصّٰلحت ان لہم اجراً کبیراً۔''

''بیشک قرآن اس راستہ کی ہدایت کرتا ہے جو بالکل سیدھا ہے اور ان صاحبانِ ایمان کو بشارت دیتا ہے جو نیک اعمال بجا لاتے ہیں کہ ان کے لیے بہت بڑا اجرہے۔'' (سورۂ مبارکہ اسراء آیت ٨)

 

آج ! اپنے ارد گرد نظر دوڑائیے ، دیکھئے، سمجھئیے اور محسوس کیجئے کہ دنیا کے ہر اس خطہ میں جہاں مسلمان آباد ہیں وہاں،طاغوتی و سامراجی قوتوں کے تسلط کی شکل میںمذہبی ، علاقائی اور فرقہ وارانہ کشیدگی ایک عذاب کی صورت ان پر مسلط ہے اور یہ ہو بھی کیوں نہ کہ جب ہم بحیثیت مسلمان قرآنی تعلیمات کو اپنا نصاب زندگی بنانے کے بجائے دوسروں کے طرز زندگی کو اپنانے کی دوڑ بھاگ میں اپناسرمایہ حیات ضائع کرنے میں لگے ہیں ۔۔ تو دوسری جانب ہمارا گھر ، خاندان اور سماج نے جہنم کدے کی صورت اختیار کر رکھی ہے ! نہ وہ ماضی ہے نہ وہ تہذیب ، نہ وہ اخلاق ہے نہ وہ کردار، نہ وہ عادات ہیں نہ وہ انداز و اطوار، نہ ہمارے اندربڑے ، بزرگوں کا احترام رہا، نہ احساس، شرافت و ایمانداری کا تو جیسے مفہوم ہی ناپید ہو گیا ہے حلال اور حرام میں فرق کرنا بھی اب یاد نہیں رہا ۔۔۔۔!ہر شخص خودغرضی کے خول میںبند نظر آ تا ہے۔ ہر شخص اپنے بارے میں سوچتا ہے۔

علم و دانش ، سمجھداری وبردباری  اور باہمی تعاون اور آپسی ایثار و ہمدردی کے لحاظ سے ہمارا پورا معاشرہ بے حسی اور لاپروائی کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے۔عقل حیران ہے کہ دنیا کہاں جا رہی ہے او رہم کس سمت جا رہے ہیں۔ ہمیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ ہماری منزل کہاں ہے! ہم خود کوتعلیم یافتہ سمجھنے کے باوجود تہذیب یافتہ کیوں نہیں ہیں ! کرپشن ، بدعنوانی ، بداخلاقی، بدعملی، بے دینی،بے حیائی ، بے شرمی اور بے پردگی جیسی اخلاقی برائیوں نے ہمیں موت سے ہمکنار کرنے والے بھیانک مرض میں مبتلا کر رکھا ہے۔۔۔

ہمیں موجودہ مادی دورمیں ہرمسلک و ملت اورہرشخص سے زیادہ قرآن اور اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات پر غور و فکر کرنے اور اسے فروغ دینے کی ضرورت تھی مگر!ہم ہی سب سے زیادہ دنیوی آسائشات کے حصول میں مگن؛قرآنی تعلیمات سے کنارہ کش ہیں ۔جس طرح ہمیں قرآن مجید سے بہرہ منداور طالبِ ضیا ہونا چاہئیے تھا اس سے اتنا ہی بے رغبت وبے نورنظر آتے ہیں۔۔۔ہمارے دینی مکاتب و مدارس ،اسکول ،کالج اور دیگر دینی اور دنیوی ادارے بالخصوص ہماری دینی محافل و مجالس میں ''کتاب اللہ'' کی جو صورتحال  ہے وہ ہر صاحب علم و فہم پر عیاں ہے کہ: ضبط کرتا ہوں تو ہر زخم لہو دیتا ہے         شکوہ کرتا ہوں تو اندیشہ رسوائی ہے

 آخرکیا وجہ ہے کہ ہمارے درمیان''قرآن '' جیسا ہادی و راہنما ، قرآن جیسا علم و دانش کا سرچشمہ اور قرآن جیسا '' صحیفہ ٔ انقلاب'' تو موجود ہے لیکن ہم میں کسی قسم کا انقلاب پیدا نہیں ہو تا ؟! اس کی خاصیت تو یہ ہے کہ اس پر غور و فکر کرنے ، اسے پڑھنے اور پڑھ کر اس پر عمل کرنے سے اس کا اثرروح و جان کے اندر داخل ہوتا ہے تو وہ جان بدل جاتی ہے(اس میں انقلاب آجاتا ہے) اور جان بدل جائے تو پھر جہان بد ل جاتا ہے مگر افسوس ! ہم میں کوئی جنبش نہیں ہوتی ! پھرہمیں ان افراد اور اس سماج سے تحفظ دین کی کیا توقع ہو سکتی ہے جہاں قرآن ہو انقلاب نہ ہو ،جہاں قرآن ہو اخلاق نہ ہو ،جہاں قرآن ہو تعلیماتِ قرآن نہ ہو ،جہاں قرآن ہو عدالت نہ ہو ،جہاں قرآن ہو جذبۂ ایثار و شہادت نہ ہو ،جہاں قرآن ہو شجاعت و صلابت نہ ہو ،جہاں قرآن ہو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نہ ہو! قرآن ہو لیکن دل سوز گداز سے خالی ہوں ،قرآن ہو خوف خدا نہ ہو ، قرآن ہو اور آنکھیں نم نہ ہو ،قرآن ہولیکن نیکی پر بدی کا غلبہ ہو ،قرآن سے محض عقیدت کے دعوے ہوں اور پیروی اور اتباع دشمنان قرآن و اہل بیت  کی ہو ، قرآن ہو اور معاشرہ میں سود و شراب خوری ، چوری ، زنا، بے حیائی ،بے پردگی ، بے شرمی ، کم فروشی اور بے راہ روی جیسی مہلک بیماری کا سد باب نہ ہو، معاشرہ میں تزکیۂ ٔ نفس اور حکمت کی باتیں نہ ہوں تو اس قرآن اور ایسے مسلمانوں کا کیا فائدہ !؟

یہ کہانا یقیناً حق بجانب ہے کہ اگرآج! مسلمانوں کے کسمپرسی، جہالت، بے دینی، ذلت و گمراہی جبرو تشدد اور دیگر مصائب و آلام میں مبتلا ہونے کی وجہ دیکھی جائے تو یہ قرآن کی تعلیمات سے دوری کا ہی نتیجہ ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ جن لوگوں نے اس مقدس و بابرکت دستور حیات کے بیان کردہ طرز زندگی کو اپنایا ، اس سے مستفید ہوئے ، اپنی زندگیوں کو اس کے سانچے میں ڈھالا وہ دنیا میں چھا گئے اور جن لوگوں نے اسے طاق نسیاں پر رکھ دیا تو ضلالت اور گمراہی ان کا مقدر بن گئی ۔

کیا آپ جانتے ہیں ؟!سامراج اور اسلام دشمن عناصر نے مسلمانوں کو قرآن مجید جیسی مقدس کتاب سے دور رکھنے کی نہ جانے کیسی کیسی چالیں چلیں ہیں ! اگر نہیں جانتے ہیں تو پھر اس پر غورکریں:ایک مدت سے اسلام دشمن عناصر کا منصوبہ یہی ہے کہ مسلمانوں پرپروپگینڈا ،تہذیبی یلغار اور ثقافتی جنگ کے علاوہ اگر غالب آیا جا سکتا ہے تو انہیں حقیقی اسلام اور صحیح قرآن کی تعلیمات سے دوررکھا جائے جیسا کہ برطانیہ کاوزیر خارجہ ایڈن برطانوی پارلیمنٹ میں یہ اعلان کرتا ہے کہ جب تک مسلمانوں کے درمیان یہ قرآن موجود ہے ہم ان پر غالب نہیں آسکتے ۔''(علل پیشرفت اسلام و انحطاط مسلمیں ، صفحہ٤٣٣)

''نپلون ''نے مصر کے کتاب خانے میں قرآن کی آیت ہذا''ان ھذا القرآن یہدی للتی ھی اقوام و یبشّر المؤمنین الذین  یعلمون الصّٰلحت ان لہم اجراً کبیراً۔''''بیشک قرآن اس راستہ کی ہدایت کرتا ہے جو بالکل سیدھا ہے اور ان صاحبانِ ایمان کو بشارت دیتا ہے جو نیک اعمال بجا لاتے ہیں کہ ان کے لیے بہت بڑا اجرہے۔'' کو دیکھنے کے بعد یہ بات کہی کہ : میں یہ سوچ رہا ہوں کہ اگر مسلمان اس کے آئین و قوانین پر عمل کریں تو ہرگز ذلیل و خوار نہیں ہوں گے کیونکہ یہ ان کے درمیان حاکم و ناظر ہے ،مگر یہ کہ ہم ان کے اور قرآن کے درمیان جدا ئی ڈال دیں ۔(علل پیشرفت اسلام و انحطاط مسلمیں ، ص٤٣٣)

آئیے!اس دنیا میں اپناکھویاہواوقارار لٹی ہوئی عظمت و ابوہت کی بحالی اور آخرت میں سرخ روئی اور کامیابی کے لئے بجائے گوگل ،سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ پر سرچ کرنے کے اپنے زندگی کے تمام مسائل کا حل کلام الہی میں تلاش کریں اسے پڑھیں اس پر عمل کریں اور اس میں غوطہ زن ہو کر اپنے کردار میں جت پیداکریں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اسلام دشمن عناصر کی اسلام دشمنی ، اپنے گھر و خاندان اور سماج کے بگڑتے ہوئے دینی ، ثقافتی ، اخلاقی سماجی اور سیاسی حالات کو مد نظر رکھ کرموڈرن ازم کے فرسودہ ''ماڈرنیٹی '' کے لپکتے شعلوں سے اپنے گھر ، خاندان اور سماج کو محفوظ بنانے کے لئے ہر چیز کو بالائے طاق رکھ کر بحثیت مسلمان، قرآن سیکھیں ، سیکھائیں اس کی تعلیمات اور اس کے حکم کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالیں ، اس کی معرفت کے سرچشمہ سے اپنی نسلِ نو کو سیراب کریں ، اس کے معانی و مقصود کو سمجھیں ،اس کی آیتوں پر غور و فکر کریں ! ترک قرآن دنیا و آخرت دونوں جہاں میں ناکامی خست و ذلت کا باعث ہے اوراس پر عمل پیرا ہونا اوراسے اپنا دستور حیات بنانا اور اس کے پیغام کو عام کرنا اور اس کو سیکھنے سمجھنے اور اس کو زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنا نادونوں جہاں میں چین و سکون اور راحت و آرام اور ہردو جہاں کی کامیابی و کامرانی نصیب ہوسکتی ہے ورنہ یہ یہاں بھی پریشانیوں کی آماجگاہ اور روز قیامت بھی سوائے افسوس، ناکامی اور نامرادی کے کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔

حضرت امیر المومنین حضرت علی  ـ نہج البلاغہ میں خطبہ١٥٧ کے شروع میں اسی بات کی طرف توجہ دلاتے ہیں اور فردی و اجتماعی مشکلات کے حل کا راستہ قرآن کی طرف رجوع اور اس کے احکام پر عمل کرنے کو بتاتے ہیں۔ نیزآپ فرماتے ہیں :تلاوت ِ قرآن سے غفلت نہ برتو کیونکہ قرآن کریم مردہ دلوں کو زندہ کرتا ہے ،برائیوں ،ناپسندیدہ باتوں اور گناہوں سے روکتاہے ۔(میزان الحکمة مادہ ''ق'')

آئیے ! خود سے یہ عہد کریں کہ ہم قرآن و اہل بیت علیہم السلام کے دامن سے متمسک ہو کر اپنے گھر ،خاندان ،محلہ ،شہر و ملک اور پورے سماج و معاشرہ میں قرآن و اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات کو فروغ دینے کی کوشش کریں گے اور آنے والی نئی نسلوں کو قرآن سیکھنے،سمجھنے،پڑھنے اور اس کے مفاہیم و مطالب سے انہیں آشنا کرنے کے ذرائع پیدا کریں گے تا کہ وہ قرآن و اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات سے مانوس رہیں ۔

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬