29 July 2019 - 12:30
News ID: 440928
فونت
تین طلاق کی روایت کو غیر قانونی قرار دینے والا مسلم خواتین (شادی کے حق تحفظ) بل 2019 اپوزیشن کے احتجاج کے درمیان جمعرات کے روز لوک سبھا میں منظور ہو گیا۔

رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، بل پر ایوان میں پانچ گھنٹے بحث ہوئی اور قانون و انصاف کے وزیر روی شنکر پرساد کی بحث کے جواب کے بعد جب وزیر نے بل کو غور و خوض کے لئے رکھنے کی تجویز پیش کی تو اپوزیشن نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے ووٹنگ کا مطالبہ کیا۔ اگرچہ 82 کے مقابلے 303 ووٹوں سے بل کو غور و خوض کے لئے منظور کرلیا گیا۔

اپوزیشن کی سبھی ترامیم خارج ہوگئیں جن میں کچھ پر ووٹنگ بھی ہوئی۔ اس بل کے تحت تین طلاق کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے اور تین طلاق دینے والوں تین سال تک قید اور جرمانے کی سزا ہو گی۔ ساتھ ہی جس خاتون کو تین طلاق دی گئی ہے اس کی اور اس کے بچوں کی پرورش کے لئے سابقہ شوہر کو ماہانہ گزارا الاؤنس بھی دینا ہوگا۔ زبانی، الیکٹرانک یا کسی بھی ذریعے سے طلاق بدعت یعنی تین طلاق کو اس میں غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔

لوک سبھا میں اپوزیشن پارٹیوں کے رہنماوں ریولیوشنری سوشلسٹ پارٹی کے این کے پریم چندرن ، کانگریس کے ادھیر رنجن چودھری اور ششی تھرور، ترونمول کانگریس کے سوگت رائے، اے آئی ایم آئی ایم کے صدر اسدالدین اویسی اور آئی یو ایم ایل کے پی کے کنہلی کُٹی نے تین طلاق بل کی سخت مخالفت کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ حکومت یہ بل جلد بازی میں لائی ہے اور یہ قدم سپریم کورٹ کے اصولوں کے خلاف، سیاسی مقاصد سے متاثر اور ایک مخصوص فرقے کو نشانہ بنانے والا ہے۔

انہوں نے مسلم خاتون(میرج رائٹس پروٹیکشن)بل 2019 کو رد کرنے کی تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اس بل کے ذریعےسے ایک مخصوص فرقے کو نشانہ بنانا چاہتی ہے۔ اس بل کے ذریعے اس کاارادہ سیاسی فائدہ اٹھانا اور سماج کے ایک فرقے کے لوگوں کو ہدف بناکر کام کرناہے۔ بل کو رد کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو اگر خواتین کی اتنی ہی فکر ہے تو اسے دیگر مذاہب کی خواتین کے مفاد کے لیے بھی اسی طرح کا قدم اٹھانا چاہیے لیکن وہ ایسا کرنے کے بجائے دوہرا رویہ اختیار کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں گھریلو تشدد کے لیے قانون ہے اور اس کے ذریعے بھی خواتین کو تحفظ فراہم کیاجا سکتا ہے لیکن اس کے استعمال سے سیاسی فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا اس لیے یہ بل لایا گیا ہے۔

واضح رہے کہ یہ بل مسلم خواتین (شادی کے حق تحفظ) دوسرا آرڈیننس، 2019 کا مقام لے گا جو اس سال 21 فروری کو عمل میں آیا تھا۔ اس بل کو ایوان میں پیش کرتے وقت 21 جون کو بھی ووٹنگ ہوئی تھی جس میں 186 ارکان نے اسے پیش کرنے کی حمایت میں اور 74 ارکان نے مخالفت میں ووٹ دیا تھا۔ /۹۸۸/ ن

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬