01 October 2014 - 14:37
News ID: 7324
فونت
رسا نیوز ایجنسی - اسرائیلی وزیراعظم ڈیوڈ بن گورین نے سفارتی تعلقات کے قیام کی خواہش پر مبنی ایک ٹیلی گرام قائداعظم کے نام بھجوایا تھا، جس کا جواب بانی پاکستان نے سرکاری طور پر ان الفاظ میں دیا: "دنیا کا ہر مسلمان مرد و زن بیت المقدس پر یہودی تسلط کو قبول کرنے کے بجائے جان دے دیگا۔
ثاقب اکبر فلسطين


 تحریر: ثاقب اکبر

 

بھارت اور اسرائیل کے مابین تعلقات اب محبت کی چڑھتی ہوئی پینگوں کی شکل اختیار کر گئے ہیں۔ اس کا تازہ ترین اظہار اتوار 29 ستمبر 2014ء کو نیویارک میں بھارتی اور صہیونی وزرائے اعظم کے مابین ہونے والی ملاقات کے موقع پر ہوا۔


اس ملاقات میں زراعت اور واٹرمینجیمنٹ سے لے کر دفاع اور سائبر سکیورٹی تک کے معاملات زیر بحث آئے۔ اسرائیلی اخبار یروشلم پوسٹ کے مطابق بینجمن نیتن یاہو نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے کہا کہ دونوں ممالک کے مابین تعلقات کی کوئی حد نہیں۔


نیتن یاہو نے مزید کہا کہ ہم دونوں قدیم لوگ ہیں، زمین پر موجود قدیم ترین تہذیبوں سے ہمارا تعلق ہے، ہم دو جمہورتیں بھی ہیں، جو اپنی روایات پر فخر کرتی ہیں، علاوہ ازیں ہم مستقبل کے مواقع کو بھی محفوظ رکھنے کے خواہش مند ہیں۔ اخبار کے مطابق نیتن یاہو نے مزید کہا کہ مجھے یقین ہے کہ اگر ہم مل کر کام کریں تو یہ دونوں ممالک کے مفاد میں ہوگا۔


یاد رہے کہ بھارت کے موجودہ وزیراعظم مودی کے اسرائیل کے ساتھ قدیمی تعلقات ہیں۔ وہ 2006ء میں اس وقت اسرائیل کے دورے پر گئے جب وہ گجرات کے وزیراعلٰی تھے۔ اس سے قبل 2003ء میں اس وقت کے صہیونی وزیراعظم ایریل شیرون نے بھارت کا دورہ کیا تھا۔


نیویارک میں ہونے والی بھارتی اور اسرائیلی وزرائے اعظم کی ملاقات اعلٰی ترین سطح پر ہونے والی دوسری اہم ملاقات تھی۔ بھارتی وزیراعظم اپنے دورِ حکومت کے آغاز ہی سے اسرائیل کے ساتھ نزدیکی روابط میں بہت واضح منصوبہ رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اگست میں غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے موقع پر جب اپوزیشن جماعتوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ پارلیمنٹ میں اسرائیل کی مذمت کرے تو مودی حکومت نے اسرائیل کی مذمت کرنے سے انکار کر دیا۔ ا سکے نتیجے میں کانگریس اور لوک سبھا کی دیگر اپوزیشن جماعتوں نے ایوان سے واک آؤٹ کر دیا اور اس طرح غزہ پر اسرائیلی حملے کے خلاف اپنے موقف کا اظہار کیا۔

 

دوسری طرف غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف پاکستان کی قومی اسمبلی نے اور پھر سینیٹ نے بھی ایک مشترکہ قرارداد مذمت منظور کی۔ 3 اگست 2014ء کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے فلسطین سے اظہار یکجہتی اور غزہ میں اسرائیلی بربریت کے خلاف قرارداد پیش کی، جسے ایوان نے متفقہ طور پر منظور کرلیا۔ قرارداد میں کہا گیا کہ پاکستان اسرائیل کے مظالم کی شدید مذمت کرتا ہے اور اسرائیلی مظالم فلسطینیوں کی نسل کشی کے مترادف ہیں۔ اس موقع پر سرتاج عزیز نے کہا کہ اسرائیل کے مظالم ناقابل برداشت اور کھلی جارحیت ہیں۔

 

غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف پاکستان کے وزیراعظم نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی وحشیانہ کارروائیاں جنگی جرائم ہیں۔ پاکستانی قوم غزہ کے عوام کے ساتھ ہے اور ہم آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کرتے ہیں۔


انھوں نے کہا کہ اسرائیل نے ہمیشہ نہتے فلسطینیوں کے خلاف بہیمانہ طاقت کا استعمال کیا ہے، جس کی ہم سخت مذمت کرتے ہیں۔ اسرائیل کے بارے میں بھارتی راہنماؤں کا ابتدا میں رویہ چھپی ہوئی دوستی اور محبت کا تھا۔ اب آہستہ آہستہ عرب حکمرانوں کے بزدلانہ طرز عمل کی وجہ سے یہ دوستی آشکار ہوتی چلی جا رہی ہے، جب کہ پاکستانی قیادت شروع ہی سے اسرائیل کی ریاست کو ایک ناجائز ریاست قرار دیتی چلی آرہی ہے۔


جب پاکستان قائم ہوا تو بھارت میں تقریباً 32 ہزار یہودی آباد تھے۔ اس زمانے میں اسرائیل کو اپنی قوت بڑھانے کے لیے دنیا بھر سے یہودیوں کو لاکر اپنے ہاں آباد کرنے کی ضرورت تھی۔ اس سلسلے میں بھارت نے بھی اپنا حصہ ادا کیا اور 25 ہزار یہودی رفتہ رفتہ اسرائیل پہنچ گئے، تاکہ فلسطین کے اصل باسیوں کو وہاں سے نکال کر ان کی زمینوں اور وسائل پر قبضہ کرسکیں۔ ان یہودیوں نے بھارت اور اسرائیل کے تعلقات کو قائم کرنے اور انھیں ترقی دینے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ اسرائیل نے 1948ء میں اپنے ناجائز قیام کے فوراً بعد بھارت میں اپنے وفود بھیجے اور تعلقات کے قیام کی خواہش کا ظہار کیا۔


بھارت نے دراصل 1950ء ہی میں اسرائیل کو تسلیم کر لیا تھا لیکن مسلمانوں اور خاص طور پر اس زمانے میں عربوں کے ڈر سے اپنے تعلقات کو خفیہ رکھا۔ اسی زمانے میں اسرائیل اور بھارت کے مابین انٹیلی جنس شیرینگ کا معاہدہ طے پا گیا تھا۔ 1992ء میں بھارت نے اسرائیل سے باقاعدہ اپنے سفارتی تعلقات کے قیام کا اعلان کیا اور پھر دونوں ملکوں کی انٹیلی جنس ایجنسیوں را اور موساد کے مابین مزید تعاون کا ایک اور معاہدہ ہوا۔ اسرائیل کے پہلے وزیراعظم ڈیوڈ بن گورین نے اپنی ابتدائی پالیسی تقریر میں اعلان کیا تھا کہ ہندومت اور صہیونیت دنیا کی دو قدیم ترین تہذیبیں ہیں۔ یہ ایک دوسرے کی فطری حلیف ہیں۔ انھوں نے کہا کہ پنڈت جواہر لال نہرو (بھارت کے پہلے وزیراعظم) موجودہ دور اور خصوصاً تیسری دنیا کے عظیم لیڈر ہیں، اس لیے ہمیں بھارت سے دوستی بڑھانی پڑے گی۔

 

ہندومت اور صہیونیت کو دنیا کی قدیم تہذیبیں قرار دینے کا ڈیوڈ بن گورین کا مذکورہ بیان اور آج کے اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کا نیویارک میں حالیہ بیان کہ دونوں ممالک کے مابین تعلقات کی کوئی حد نہیں۔ ہم دونوں قدیم لوگ ہیں اور زمین پر موجود قدیم ترین تہذیبوں سے ہمارا تعلق ہے، ایک ہی ذہنیت کے عکاس ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل اپنی قدیمی ذہنیت پر قائم ہے۔ جب کہ اسی زمانے میں پاکستان بننے کے بعد جب قائداعظم پاکستان کے گورنر جنرل تھے تو اسی اسرائیلی وزیراعظم ڈیوڈ بن گورین نے سفارتی تعلقات کے قیام کی خواہش پر مبنی ایک ٹیلی گرام قائداعظم کے نام بھجوایا تھا، جس کا جواب بانی پاکستان نے سرکاری طور پر ان الفاظ میں دیا: "دنیا کا ہر مسلمان مرد و زن بیت المقدس پر یہودی تسلط کو قبول کرنے کے بجائے جان دے دیگا۔


مجھے توقع ہے کہ یہودی ایسے شرمناک منصوبوں میں کامیاب نہیں ہوں گے۔ میری خواہش ہے کہ برطانیہ اور امریکہ اپنے ہاتھ اٹھا لیں اور پھر میں دیکھوں کہ یہودی بیت المقدس پر کیسے قبضہ کرتے ہیں۔ عوام کی آرزوؤں کے خلاف پہلے ہی 5 لاکھ یہودیوں کو بیت المقدس میں بسایا جا چکا ہے۔ میں جاننا چاہوں گا کہ کیا کسی اور ملک نے انھیں اپنے ہاں بسایا ہے؟ اگر تسلط قائم کرنے اور استحصال کا سلسلہ جاری رہا تو پھر نہ امن قائم ہوگا اور نہ جنگیں ختم ہوں گی۔‘‘

 

اگرچہ پاکستان کے مختلف ادوار میں بعض حکمران عالم اسٹیبلشمینٹ کے دباؤ میں اسرائیل کے ساتھ روابط کے قیام کے لیے راہ ہموار کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں، لیکن پاکستان کے عوام نے ایسی ہر کوشش کو زور دار اور واشگاف الفاظ میں مسترد کر دیا ہے اور یہ عوامی دباؤ ہی کا نتیجہ ہے کہ ابھی تک پاکستان سرکاری طور پر اسرائیل کو ایک ناجائز ریاست سمجھتا ہے۔ اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم نہ کرنے کا کوئی اور معنی نہیں لیا جاسکتا۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ پاکستان کے عوام کی بیداری اور آگاہی کے نتیجے میں یہ پالیسی قائم رہے گی، یہاں تک کہ ناجائز اسرائیلی ریاست اپنے منطقی انجام کو پہنچے اور فلسطین کے حقیقی وارثوں اور سرزمین فلسطین کے حقیقی فرزندوں کو ان کی سرزمین پر بحالی کا دن دیکھنانصیب ہو۔
 

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬