14 July 2009 - 16:56
News ID: 24
فونت
رسا نیوز ایجنسی - حضرت عبدالعظیم حسنی رحمه اللہ علیہ جلیل القدر عالم دین ، محدث ، محب اھل بیت اور حقیقی معنوں میں محمد و آل محمد کے مطیع و فرمانردار تھے، اپ نے شھر ری میں وفات پائی اور شھر ری تہران ہی میں اپ کا مرقد شریف ہے ، اپ کی زیارت کی کا ثواب امام حسین علیہ السلام کی زیارت کا ثواب ہے ۔
شاہ عبد العظيم حسني

 

سید مہدی رجائی، ترجمہ سید اشھد حسین نقوی

 
امام زادہ حضرت عبدالعظیم حسنی رحمۃ اللہ علیہ جلیل القدر عالم ، محدث ، محب اھل بیت اور حقیق معنوں محمد و آل محمد کے مطیع تھے ان کی عظمت کے لئے معصوم کا یہ فرمان کافی ہے کہ جس نے حضرت عبدالعظیم حسنی کی شهرری (تہران) میں زیارت کی اسے امام حسین علیہ السلام کی زیارت کا ثواب نصیب ہوگا۔


جناب عبدالعظیم حسنی امام جواد علیہ السلام سے حدیث نقل کرتے ہیں کہ آپ اپنے پاکیزہ آباء و واجداد کے سلسلہ سے امیرالمومنین سے نقل کرتے ہیں: للقائم منا غیبۃ امدھا طویل، کانی بالشعیۃ یجولون جولان النعم فی غیبۃ یطلبون المرعی فلا یجدون الا فمن ثبت منھم علی دینہ لم یقس قلبہ لطول امد غیبۃ امامہ فھو معی فی درجتی یوم القیامۃ، یعنی امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ہمارے قائم کی غیبت طولانی ہوگی گویا کہ میں شیعوں کو دیکھ رہا ہوں اس کی غیبت کے دوران یوں ادھر ادھر پھریں گے جس طرح چوپائے چراگاہ کی تلاش میں ادھر ادھر پھرتے ہیں اور اسے نہیں پاتے ،جان لو کہ شیعوں میں سے وہ کہ جو دین پر ثابت قدم رہے اور غیبت کے طولانی ہونے کی وجہ سے اس کا دل سخت نہ ہو وہ روز قیامت میرے مرتبہ میں میرے ساتھ ہوگا۔ ۱

اس حدیث شریف سے بہت سے مندرجہ ذیل نکات سامنے آتے ہیں:


(۱)حضرت امام مہدی(عج) پیغبر اسلام کی اھل بیت میں سے ہیں جیسا کہ امام موسی کاظم علیہ السلام سے روایت نقل ہوئی ہے کہ آپ نے فرمایا لایکون القائم الا امام ابن امام و وصی کہ جناب قائم نہیں ہوں گے مگر یہ کہ امام اور فرزند امام اور وصی ہوں گے ۔۲


ایک روایت میں آیا ہے اللہ لایکون المھدی ابدا الا من ولد الحسین علیہ السلام خدا کی قسم امام مہدی فقط حسین علیہ السلام کی نسل سے ہیں ۔۳


پھر ایک روایت میں آیا ہےالمنتظر من ولد الحسین بن علی علیھما السلام فی ذریۃ الحسین و فی عقب الحسین علیہ السلام، حضرت مہدی منتظر امام حسین بن علی علیھما السلام کی اولاد میں سے اور امام حسین علیہ السلام کی ذریت میں سے اور امام حسین کی نسل مبارک میں سے ہیں ۔۴


امام رضا علیہ السلام سے منقول روایت میں آیا ہے: الخلف الصالح من ولد ابی محمد الحسن بن علی علیھما السلام وھو صاحب الزمان و ھو المہدی خلف صالح امام حسن عسکری کی اولاد میں سے ہیں اور وہ صاحب الزمان ہیں اور وہ مہدی آل محمد سلام اللہ علیہ ہیں۔۵


(۲)یہ کہ حضرت آنکھوں سے غائب ہوجائیں گے اور ان کی غیبت طولانی ہوجائے گی اس حوالے سے بے شمار روایات پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ اور ائمہ اطہار سے نقل ہوئیں تمام انبیاء رسل، پیغمبر اسلام، اور ائمہ ھدی علیھم السلام نے امام مہدی کی طولانی غیبت کے بعد ان کے ظہور کی خوشخبری دی اب امام زمان (عج) کی بارہ سو سال سے زیادہ عمر مبارک ان روایات میں پہلے سے بیان ہوچکی ہے۔


(۳)ضعیف عقیدہ شیعہ حضرات آپ کی طولانی غیبت کی بنا پر سرگران ہوجائیں گے یہ طولانی غیبت جو کہ ایک الھی امتحان ہے، اس سے ایک گروہ گمراہ ہوجائے گا اور ایک گروہ بابیت کے نام سے امام زمانہ کی نیابت کا اعلان کرکے نیا مذہب بنائے گا اور گمراہ ہوگا۔


(۴)وہ شیعہ جو صراط مستقیم پر رہیں اور صحیح معنوں میں انسان ساز مکتب اھل بیت عصمت و طہارت پر عمل پیرا رہیں، اس زمانہ میں ثابت قدم رہیں تو ایسے شیعہ دنیا و آخرت میں اھل بیت کے ساتھ ہوں گے اور یہ سب سے بڑا سرمایہ ہوگا کہ جسے وہ اپنے ساتھ لے جائیں گے ،اس حوالے سے بہت سی احادیث اور روایات ہیں مرحوم علامہ مجلسی قدس سرہ نے بحارالانوار میں ایک باب بنام'' فرج کے انتظار کی فضیلت اور زمانہ غیبت میں مدح شیعہ" لکھا ہے ہم یہاں وہاں سے چند احادیث نقل کرتے ہیں :


جناب ابوحمزہ ثمالی امام زین العابدین علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا : اللہ تعالی کے بارہویں ولی کی غیبت جو کہ رسول اللہ اور ان کے بعد تمام ائمہ کے وصی ہوں گے طولانی ہوگی، اے ابوخالد یقینا زمانہ غیبت میں وہ لوگ جو اس کی امامت کے قائل ہوں گے اور اس کے ظہور کا انتظار کررہے ہوں گے وہ تمام زمانے والوں سے افضل ہوں گے ،کیونکہ اللہ تعالی نے انہیں اتنی عقل ، فہم اور معرفت عطا کی ہوگی کہ ان کے نزدیک یہ زمانہ غیبت ظہور امام کی مانند ہوگا، تو اس زمانہ میں ان کے انتظار میں دن گزارنے والوں کا مقام ان لوگوں کی مانند ہوگا کہ جنہوں نے رسول اللہ کے ساتھ تلوار کے ساتھ جہاد کیا اور ہمارے مخلص اور حقیقی شیعہ ہوں گے ،کہ وہ سچائی اور محبت کے ساتھ پیروکار ہوں گے اور یہ وہ لوگ ہیں کہ جو پروردگار کی مخلوقات کو ظاھراور پوشیدہ حالت میں دین خدا کی طرف دعوت دیں گے اور خود فرج کا انتظار بہت بڑی فرج (وسعت) ہے۔۶


شیخ صدوق اپنی سند کے ساتھ عمرو بن ثابت سے اور وہ امام زین العابدین علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : کہ جو بھی ہمارے قائم کی غیبت کے زمانہ میں ہماری ولایت اور محبت پر ثابت قدم رہے تو اللہ اسے شہداء بدر و احد کی مانند ہر آن ہزار شھداء کا اجر عطا کرے گا ۔۷


اسی طرح مرحوم صدوق اپنی سند کے ساتھ ابوبصیر سے روایت کرتے ہیں کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : جوہمارے قائم کے زمانہ غیبت میں ہمارے ساتھ تمسک رکھے اور اس کا دل ہدایت قبول کرنے کے بعد حق سے نہ پلٹ جائے اس کے لئے طوبی ہے ،تو راوی نے عرض کیا : آپ پر فدا ہوجاؤں طوبی کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا: طوبی بہشت میں ایک درخت ہے جس کی جڑیں حضرت علی علیہ السلام کے گھر میں سے ہیں کوئی ایسا مومن نہ ہوگا کہ جنت میں اس کے محل میں اس درخت کی ایک شاخ نہ ہو اور یہ ہے اللہ تعالی کی اس کلام کا معنی کہ فرماتا ہے طوبی لھم و حسن ماب ۔ ۸


ایک اور مقام پر شیخ صدوق اپنی سند کے ساتھ حضرت علی علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: فرج کا انتظار کریں اور رحمت خدا سے مایوس نہ ہوں ،یقینا اللہ تعالی کے نزدیک پسندیدہ ترین عمل فرج کا انتظار ہے، پھر اس کے بعد فرمایا: پہاڑوں کو میخ سے کھودنا اس کی نسبت آسان ہے کہ انسان ایسے بادشاہ کے ساتھ گزارہ کرے کہ جس کی حکومت کی مدت طولانی ہوگی، پس اللہ سے مدد چاہیں اور صبر کریں یقینا زمین اللہ تعالی کی ملکیت ہے وہ جسے چاہے دے گا ،اچھا انجام متقیوں کے ساتھ ہے اس مسئلہ میں وقت کے آنے سے پہلے جلدی نہ کرو ورنہ پچھتاؤ گے اور اس مدت کو طویل شمار نہ کرو ورنہ یہ چیز تمہارے دلوں کی سختی کا موجب بنے گی، جو ہمارے دامن سے تمسک کرے گا مقام قدس میں ہمارے ساتھ ہوگا اور جو ہمارے امر کے ظہور کا منتظر ہو وہ اس شخص کی مانند کہ اللہ کی راہ میں اپنے خون میں غلطان ہوا ہے۔ ۹


شیخ صفار کتاب بصائر الدرجات میں اپنی سند کے ساتھ امام باقر علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا ایک دن حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ نے اپنے اصحاب کے ایک گروہ کی موجودگی میں فرمایا پروردگار میرے بھائیوں کو مجھ تک پہنچا پھر دو دفعہ اس کلام کی تکرار کی، تو اصحاب نے آپ کی خدمت میں عرض کیا : یارسول اللہ کیا ہم آپ کے بھائی نہیں؟ آنحضرت نے فرمایا: نہیں کیونکہ تم میرے اصحاب ہو میرے بھائی وہ ہیں کہ جو آخر الزمان میں ہوں گے یہ وہ ہوں گے کہ جو بن دیکھے مجھ پر ایمان لائیں گے یقینا اللہ تعالی انہیں ان کے ناموں کے ساتھ اور ان کے والدین کے ناموں کے ساتھ والدوں کی پشت سے ماؤں کے رحموں سے نکالے گا اور میری پہچان کروائے گا ان میں سے ہر ایک کا اپنے دین پر باقی رہنا اس سے مشکل ہوگا کہ رات کی تاریکی میں کوئی کانٹوں والے درخت سے اپنے ہاتھ زخمی کرے یاجلتی ہوئی لکڑی کو اپنے ہاتھ میں رکھے یہ لوگ تاریک راتوں میں نورانی چراغوں کی مانند ہوں گے اللہ تعالی انہیں تمام فتنوں سے نجات دے گا اور محفوظ فرمائے گا ۔۱۰


برقی کتاب محاسن میں اپنی سند کے ساتھ مالک بن اعین سے اور وہ امام صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جو اس بات پر عقیدہ رکھے اور قیام قائم سے پہلے فوت ہوجائے وہ ہر آن اس شخص کی مانند ہے جو راہ خدا میں تلوار کھینچے ۔۱۱


صدوق جابر جعفی سے اور وہ امام باقر علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: لوگوں پرایسا زمانہ آئے گا کہ ان کا امام پوشیدہ ہوجائے گا مبارک ہو ان لوگوں کو کہ جو اس زمانہ میں اپنے دین پر ثابت قدم رہیں یقینا کم ترین ثواب جو انہیں دیا جائے گا یہ ہے کہ اللہ تعالی انہیں آواز دے گا تم میرے صاحب راز ہو اور میرے پوشیدہ یعنی امام غائب کی تصدیق کی پس تمہیں یہ بشارت ہو کہ تم میرے حقیقی غلام اور کنیزیں ہو تم سے اپنی اطاعت کو قبول کرتا ہوں اور تمہاری کوتاہیوں کو بخش دیتا ہوں اور تمہارے گناہوں کو معاف کردیتا ہوں تمہاری وجہ سے اپنے بندوں کو بارش سے سیراب کرتا ہوں اور مصیبتوں کو ان سے دور کرتاہوں اگر تم نہ ہوتے تو ان پر عذاب نازل کرتا ،تو جابر جعفی کہتے ہیں کہ میں نے ان کی خدمت میں عرض کیا اے فرزند رسول اس زمانہ میں کون سا عمل سب اعمال سے افضل ہے فرمایا: اپنی زبان کو سنبھالنا اور گھروں میں گوشہ نشین ہونا ۔۱۲

 

البتہ یہ گھروں میں گوشہ نشین ہونے والی تعبیر سے مراد ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنا نہیں ہے بلکہ غیبت کے دوران فتنوں سے بچنا ہے ورنہ وہ روایات جو منتظرین کے فرایض بتارہی ہیں وہ واضح کر رہی ہیں کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور انفرادی و اجتماعی سطح پر اصلاح کی کوشش کرنا وغیرہ سب پر ضروری ہے تاکہ امام کے ظہور کے اسباب فراہم ہوں) اس موضوع پر پیغمبر اسلام اور ائمہ اھل بیت علیھم السلام سے فراوان احادیث نقل ہوئی ہیں ہم امید رکھتے ہیں کہ اللہ تعالی ہمیں حقیقی معنوں میں امام زمانہ کے منتظرین میں سے قرار دے اور خاندان عصمت و طہارت کی محبت و ولایت جیسی عظیم نعمت ہماری زندگی کے آخری دن تک ہم سے اور مخلص شیعوں سے سلب نہ ہو۔


(۵)یہ کہ ان کے ظہور کے وقت ان پر کسی کی بیعت نہ ہوگی جبکہ ان کی امامت و ولایت کا اعتقاد تو ان کے ظہور سے پہلے اور بعد میں ضروری اور مسلم ہے۔
غیبت نعمانی میں ابراھیم بن عمر یمانی امام صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: لیقوم القائم و لیس فی عنقہ بیعتہ لا حد قائم جب قیام فرمائیں گے تو ان کی گردن پر کسی کی بیعت نہ ہوگی۔


(۶)آپ کی ولادت مبارک پوشیدہ ہوگی مرحوم صدوق کتاب کمال الدین میں اپنی سند کے ساتھ محمد بن عبداللہ مطہری سے روایت کرتے ہیں کہ اس نے بیان کیا کہ میں امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت کے بعد حکیمہ خاتون جو کہ امام جواد علیہ السلام کی بیٹی تھیں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور حجت خدا کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا بیٹھو، میں بیٹھ گیا پھر فرمایا اے محمد اللہ تعالی زمین کو حجت ناطق اور ساکت سے خالی نہیں رکھتا اور امامت کو دو بھائیوں حسن اور حسین علیھما السلام سے باہر نہیں قرار دیا اور یہ بھی ان کی دوسروں پر فضیلت ہے، اسی طرح اللہ تعالی نے حسین علیہ السلام کی اولاد کو حسن علیہ السلام کی اولاد پر فضیلت بخشی ہے ،ضروری ہے اس امت کے لئے امام حسن عسکری علیہ السلام کے بعد امتحان ہو کہ جس میں اھل حق اھل باطل سے جدا ہوجائیں اور خلق حجت خدا (کی زیارت سے)محروم ہو، راوی کہتا ہے میں نے عرض کی اے میری سیدہ کیا امام حسن عسکری کا فرزند ہے ؟ تو حکیمہ خاتون مسکرائیں اور کہا اگر ان کا بیٹا نہ ہو تو پھر ان کے بعد اللہ تعالی کی حجت بالغہ کون ہوگی، جبکہ میں نے تمہیں کہا ہے کہ حسن و حسین علیھما السلام کے بعد امامت دو بھائیوں میں نہیں ہوگی۔

 

تو میں نے عرض کی مجھے قائم علیہ السلام کی ولادت و غیبت کے بارے میں بتائیں؟


تو حکیمہ خاتون فرماتی ہیں کہ میری ایک کنیز تھی جس کا نام نرجس تھا ،ایک دن میرے بھتیجے حسن عسکری علیہ السلام نے اسے تعجب سے دیکھا تو میں نے کہا اے میرے سردار میرا خیال ہے آپ کنیز کو پسند کرتے ہیں، تو میں اسے آپ کو بخش دوں؟ تو انہوں نے فرمایا: میں نے اسے تعجب سے دیکھا ہے ،تو میں نے پوچھا کس بات پر آپ نے تعجب کیا؟ فرمایا جلد ہی اس کنیز سے ایسا کریم فرزند پیدا ہوگا کہ جو زمین کو عدل و انصاف سے پر کردے گا جبکہ وہ ظلم و ستم سے پر ہوچکی ہوگی، تو میں نے کہا اے میرے سردار تو میں اسے آپ کی خدمت میں(نکاح کے لیے) روانہ کرتی ہوں تو انہوں نے فرمایا: میرے والد محترم سے اجازت لیں تو حکیمہ کہتی ہے کہ میں اپنے بھائی امام ھادی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئی اور سلام عرض کیا اور بیٹھی ہی تھی تو انہوں نے میری بات شروع کرنے سے پہلے ہی فرمایا اے حکیمہ آپ نرجس کو میرے فرزند حسن کی طرف (نکاح کے لیے)روانہ کردیں تو میں نے عرض کی میں بھی اسی حوالے سے حاضر ہوئی تھی تو انہوں نے فرمایا اے مبارکہ اللہ تعالی آپ کو بھی اس اجر میں شریک کرنا چاہتا ہے حکیمہ خاتون فرماتی ہیں کہ میں نے توقف نہیں کیا اور اپنے گھر واپس آگئی ۔ ۔ ۔ ان دونوں کی شادی کی کچھ عرصہ کے بعد امام ھادی علیہ السلام شہادت پاگئے اور امام حسن عسکری ان کے مقام ولایت وامامت پر فائز ہوئے تو میں اسی طرح ان کی خدمت میں حاضر تھی تو نرجس میرے پاس آئی تاکہ جوتی میرے پاؤں سے نکالے (احترام کی خاطر) اور کہا اے میری سردار میری طرف اپنی پاؤں کریں تاکہ میں جوتی نکالوں تو میں نے کہا نہ تو میری سردار ہے خدا کی قسم میں تمہیں ایسا نہیں کرنے دوں گی میں تمہاری خدمت کروں گی ادھر امام حسن عسکری علیہ السلام نے ہماری گفتگو سنی اور فرمایا: اے پھوپھی جان اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر دے، میں غروب آفتاب تک ان کے پاس تھی پھر میں نے جانا چاہا تو امام نے فرمایا: اے پھوپھی جان آج کی رات ہمارے گھر میں رہیں کہ اللہ تعالی نے اس رات وہ مولود کریم عطا کرنا ہے کہ جس نے زمین کو مردہ ہونے کے بعد زندہ کرنا ہے ،تو میں نے عرض کیا یہ مولود کب دنیا میں آئے گا کیونکہ میں نے تو نرجس میں حمل وغیرہ کے آثار نہیں دیکھے فرمایا: وہ مولود فقط نرجس سے پیدا ہوگا نہ کسی اورسے تو ،حکیمہ کہتی ہے کہ میں اٹھ کر نرجس کے پاس آئی اسے بغور دیکھا مجھے آثار حمل نظر نہ آئے تو میں نے جاکر امام کی خدمت میں عرض کیا تو وہ مسکرائے اور فرمایا: آج رات فجر کے وقت معلوم ہوجائے گا، اے پھوپھی جان نرجس موسی علیہ السلام کی والدہ کی مانند ہے کہ کسی کو ان کے حمل کا علم نہ ہوا، چونکہ فرعون اس وقت حاملہ عورتوں کے شکم کو پارہ پارہ کردیتا تھا اور یہ مولود موسی کی مانند ہے، حکیمہ کہتی ہے میں اس رات صبح تک نرجس کے خیال میں رہی وہ یوں سوئی ہوئی تھی کہ حرکت بھی نہیں کرتی تھی اور نہ کروٹ لیتی تھی جب رات کے آخری لمحات تھے وہ جلدی سے مضطرب ہوکر اٹھی میں نے اسے اپنے سینہ کے ساتھ چمٹایا کہ اچانک امام حسن عسکری علیہ السلام ک،ی آواز آئی اے پھوپھی جان سورہ اناانزلناہ کی تلاوت کریں تو میں اس سورہ مبارکہ کی تلاوت میں مشغول ہو گئی اور نرجس سے پوچھا کہ تمہارا کیا حال ہو تو اس نے کہا وہ ظاھر ہوگیا ہے کہ جس کی آپ کے مولی نے خبر دی تھی میں دوبارہ سورہ کی تلاوت میں مشغول ہوگئی میں نے شکم مادر سے بچے کی آواز سنی کہ میرے ساتھ تلاوت کررہا تھا پھر اچانک اس نے مجھے سلام کیا میں یہ عجیب و غریب امور دیکھ کر پریشان و مضطرب ہورہی تھی ،کہ امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا اے پھوپھی جان اللہ تعالی کے کاموں میں تعجب نہ کریں آیا آپ نہیں جانتی کہ اللہ تعالی ہمیں چھوٹی عمر میں حکمت نطق سے آشنا فرماتا ہے اور بڑے ہونے کے بعد ہمیں اپنی حجت بناتا ہے، ابھی ان کی بات ختم نہیں ہوئی تھی کہ نرجس میری آنکھوں سے اوجھل ہوگئی گویا اس کے اور میرے درمیان کوئی پردہ حائل ہوگیا، تو میں امام حسن عسکری کی طرف دوڑی تو انہوں نے فرمایا واپس جاؤ اسے اسی جگہ پاؤ گی جب میں واپس آئی تو وہ وہیں موجود تھی اس کی پیشانی پر ایسا نور دیکھا کہ میری آنکھیں اس نور سے خیرہ ہوگئیں اچانک میں نے اس کے دامن میں ایک نوزاد دیکھا اور دیکھا کہ وہ دو زانو ہوکر سجدہ کررہا ہے اور اپنی شہادت کی انگلیوں کو آسمان کی طرف بلند کیا اور فرمایا اشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک اللہ و اشھد ان جدی رسول اللہ و اشھد ان ابی امیرالمومنین اس کے بعد انہوں نے ہر امام کا نام لیا یہاں تک کہ جب اپنے نام تک پہنچے تو فرمایا: الھم انجزلی وعدک و اتمم لی امری۔ ۔ ۔حدیث بہت طولانی ہے ۔۱۳


(۷)اگرچہ آپ نگاہوں سے غائب ہیں لیکن یہ بات طے ہے کہ آپ کا وجود مبارک ۲۶۰ھجری سے اب تک روئے زمین پر ہے اور جب تک پروردگار چاہے گا پردہ غیبت میں رہیں گے، یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ کیوں اتنی طولانی مدت آنکھوں سے پنہاں ہیں ؟ کیا راز ہے؟ اس بات کے کئی جواب ہوسکتے ہیں مثلا اھل بیت کے دشمنوں کا خوف، چونکہ ممکن تھا دوسرے ائمہ اطھار کی مانند آپ کو بھی شہید کیا جاتا، اس حوالے سے روایات موجود ہیں مثلا جناب صدوق علیہ الرحمہ امام صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: قال رسول اللہ لابد للغلام من غیبۃ فقیل لہ و لم یارسول اللہ قال یخاف القتل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: نوجوان (مہدی) کے لئے ضرور غیبت ہوگی عرض کیا گیا ہے اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ کیوں؟فرمایا قتل کے خوف کی بناء پر ۔۱۴


دوسرا جواب یہ ہے کہ آپ کی غیبت کی حکمت وہی ہے جو گذشتہ انبیاء کی غیبت کی حکمت ہے ، عبداللہ بن فضل نے امام صادق علیہ السلام سے نقل کیا کہ آپ نے فرمایا: ضرور صاحب امر کے لئے غیبت ہوگی تاکہ ضعیف ایمان لوگ شک میں پڑیں، تو میں نے عرض کیا کیوں فرمایا ہمیں اجازت نہیں ہے کہ اس کا سبب بیان کریں تو میں نے عرض کی اس غیبت میں حکمت کیا ہے انہوں نے فرمایا وہ حکمت جو کہ گذشتہ پیغمبروں اور اوصیاء کی غیبت میں حکمت تھی اور وہ حکمت جب تک انہوں نے ظہور نہیں کیا معلوم نہ ہوئی کہ جس طرح خضر علیہ السلام کشتی میں سوراخ کرنے ، بچے کو قتل کرنے اور دیوار کھڑا کرنے کی حکمت اس وقت تک بیان نہ کی جب تک وقت جدائی نہ آپہنچا اے ابن فضل یہ اللہ کے امور غیبی میں سے ہے اور اللہ کے اسرار میں سے ہے پس چونکہ ہم جانتے ہیں اللہ عالم و حکیم ہے تو اس کے تمام افعال پر مطمئن رہیں کہ حکمت کے مطابق ہیں اگرچہ ہم پر ظاھر نہ بھی ہو ۔ ۱۵


اس طرح اور بہت حکمتیں اور اسباب غیبت روایات میں ذکر ہوئے ہیں اس طرح یہ بھی نقل ہوا ہے کہ آپ لوگوں میں ہوتے ہیں لوگ آپ کو دیکھتے ہیں آپ بھی لوگوں کو دیکھتے ہیں مگر وہ آپ کو نہیں پہچانتے ،جیسا کہ عبید بن زرارہ امام صادق سے روایت کرتا ہے کہ واللہ ان صاحب ھذا الامر یحضر الموسم کل سنۃ فیری الناس و یعرفھم و یرونہ و یعرفونہ یعنی اللہ تعالی کی قسم صاحب الزمان موسم حج میں ہر سال حاضر ہوں گے لوگوں کو دیکھتے ہوں گے اور انہیں پہچانتے بھی ہوں گے مگر وہ آپ کو دیکھیں گے لیکن پہچانیں گے نہیں۔۱۶


اس طرح کی اور بھی روایات ہیں کہ آپ اگرچہ لوگوں سے دور ہوں گے لیکن ان کے دلوں میں رہیں گے کوئی مصیبت زدہ کرہ ارض کے جس گوشے میں بھی آپ کو آواز دے گا اپنی مشکل کا اظھار کرے گا اور آپ سے توسل کرے گا اس کی مصیبت دور فرمائیں گے جیسا کہ کتابیں واقعات سے پر ہیں کہ کس طرح صحراؤں جنگلوں، اورمختلف مناطق جہاں میں رہنےوالے مصیبتوں کے ماروں نے آپ سے توسل کیا اور آپ نے ان کی نصرت فرمائی اور بہت سے نیک متقی لوگوں ، علماء باعمل اور اولیاء خدا نے آپ کی خدمت میں حاضری دی اور جمال مبارک سے اپنی آنکھوں کی پیاس بجھائی ، دعا ہے کہ اللہ تعالی ہماری آنکھوں کو بھی آپ کے جمال سے منور فرمائے اور ہمیں ان کے حقیقی انصار سے قرار دے اور ان کی رکاب میں جہاد و شہادت کی سعادت عطا فرمائے۔

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ :

۱ - بحارالانوار،ج۵۱،ص۱۰۹،ح۱۱۰

۲- بحارالانوار،ج۵۱،ص۳۴
۳ - بحارالانوار، ج۵۱ ،ص۳۵ ،ح۲
۴ - بحارالانوار، ج۵۱،ص۳۵، ح۳ 
 ۵ - بحارالانوار، ج۵۱،ص۴۳،ح۳۱ 
 ۶ - بحارالانوار، ج۵۲،ص۱۲۲،ح۴
۷ - بحارالانوار، ج۵۲،ص۱۲۵،ح۱۳
۸ - بحارالانوار، ج۵۲،ص۱۲۳،ح۶
۹ - بحارالانوار، ج۵۲،ص۱۱۳، ح۷
۱۰ - بحارالانوار، ج۵۲، ص۱۲۳ ،۱۲۴ ، ح۸ 
 ۱۱ - بحارالانوار، ج۵۲،ص۱۲۶،ح۱۷
۱۲ - بحارالانوار، ج۵۲، ص۱۴۵،ح۶۶

۱۳ - بحارالانوار، ج۵۱،ص۱۱ الی ۱۳،ح۱۴

۱۴ - بحار الانوار ج۵۲،ص۹۰ 
۱۵ - بحارالانوار، ج۵۲،ص۱۹،ح۴
۱۶- وہی

 ختم خبر

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬