21 March 2010 - 11:34
News ID: 1108
فونت
قائد انقلاب اسلامی کے پیغام میں ؛
رسا نیوز ایجنسی ـ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے نئے ہجری شمسی سال تیرہ سو نواسی کے آغاز پر قوم کے نام مبارکباد کے اپنے پیغام میں نئے سال کو "بلند ہمتی اور کثرت عمل کے سال" سے موسوم کیا ۔
قائد انقلاب اسلامي

 

رسا نیوز ایجنسی کا قائد انقلاب اسلامی خبر رساں سائٹ سے منقول رپورٹ کے مطابق قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے نئے ہجری شمسی سال تیرہ سو نواسی کے آغاز پر قوم کے نام مبارکباد کے اپنے پیغام میں نئے سال کو "بلند ہمتی اور کثرت عمل کے سال" سے موسوم کیا۔ آپ نے بیتے سال میں قوم کی کارکردگی کو درخشاں اور تابناک قرار دیتے ہوئے قوم کی بصیرت و دور اندیشی کی قدردانی کی۔


 پیغام کا متن مندرجہ ذیل ہے؛


بسم‏ اللَّه‏ الرّحمن‏ الرّحیم‏


"یا مقلّب القلوب و الأبصار. یا مدبّر اللّیل و النّهار" اے دلوں اور نگاہوں کو دگرگوں کر دینے والے، اے نظام شب و روز کو چلانے والے! " یا محول الحول و الاحوال" اے سالوں، دلوں اور حالات کو بدلنے والے! " حول حالنا الی احسن الحال" ہماری حالت کو بہترین حالت میں تبدیل کر دے۔

عید سعید نوروز اور نئے سال کے آغاز کی مبارکباد پیش کرتا ہوں، جو آغاز بہار اور قدرت کی حیات نو کی شروعات بھی ہے، تمام عزیز ہم وطنوں کو جو ہمارے وطن میں زندگی بسر کر رہے ہیں، اسی طرح ان تمام ایرانیوں کو بھی جو دنیا کے دیگر گوشوں میں مقیم امید و انتظار کی نگاہیں اپنے وطن عزیز پر مرکوز کئے ہوئے ہیں، بالخصوص اپنی جان کی پروا نہ کرنے والے نوجوانوں، مردوں اور عورتوں کو جنہوں نے ملک اور انقلاب کے اعلی اہداف کے لئے عظیم قربانیاں دیں، اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا اور اپنے جوانوں کو انقلاب اور ملک کی سربلندی کی راہ میں قربان کر دیا، شہداء کے عزیز خاندانوں، (اپنے جسمانی اعضاء کا نذرانہ پیش کرنے والے معذور ) جانبازوں، ان کے فداکار خاندانوں، تمام ایثار پیشہ افراد اور ان لوگوں کو جو ملک کی سرفرازی کے لئے سعی و کوشش کر رہے ہیں اور خدمات انجام دے رہے ہیں۔ درود و سلام بھیجتا ہوں قوم کے عظیم امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی روح پر جو اس عظیم عوامی تحریک کے بانی اور عظیم اسلامی مملکت ایران کی پیشرفت و ترقی کی بنیاد ہیں۔

عید نوروز نشو و نما کی شروعات ہے۔ یہ نشو نما جس طرح قدرت میں نمایاں ہے اسی طرح ہمارے دلوں، ہماری جانوں، ہماری ترقی پذیر حرکت میں بھی مجسم اور نمایاں ہو سکتا ہے۔ ایک نگاہ ڈالنا چاہوں گا سن اٹھاسی (ہجری شمس) پر کہ ہم جس کے اختتام پر پہنچے۔ اگر سن اٹھاسی (ہجری شمسی) کی ایک جملے میں تعریف کرنی ہو تو میری نظر میں یہ عبارت ہے ملت ایران کے سال سے، اس عظیم قوم کی عظمت و کامرانی کے سال سے، ان تمام میدانوں مین اس قوم کی موثر اور تاریخی موجودگی کے سال سے جن کا تعلق ہمارے عظیم انقلاب اور ہمارے ملک کی تقدیر اور مستقبل سے تھا۔

سن اٹھاسی (ہجری شمسی) کے آغاز میں عوام نے اپنی بے مثال شراکت کے ذریعے ایسے انتخابات کا انعقاد کیا کہ ہمارے انقلاب کی تاریخ میں، بلکہ ہمارے ملک کی پوری تاریخ میں جس کی کوئی مثال نہیں تھی اور جو ایک نمایاں باب اور باعث سربلندی و افتخار شمار کیا گیا۔

انتخابات کے بعد کے مہینوں میں بھی عوام نے بڑے سخت امتحان کے دوران عظیم اور تقدیر ساز عمل کے ذریعے اپنی موجودگی، اپنے ارادے، اپنی استقامت، اپنے قومی عزم و ارادے اور بصیرت و دور اندیشی کا منظر پیش کیا۔

انتخابات کے بعد چند مہینوں کے دوران رونما ہونے والے واقعات کے مختصر تجزئے کے طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ملک اور اسلامی جمہوری نظام کے دشمنوں نے تیس سال گزر جانے کے بعد اپنی تمام تر توانائیوں، اپنی پوری طاقت اور اپنی جملہ مساعی کو اس انقلاب کو اندر سے شکست دینے پر مرکوز کر دیا ہے۔ اس گہری سازش اور اس معاندانہ اقدام کے جواب میں قوم نے عدیم المثال آگاہی و بصیرت اور عزم و استقامت کے ذریعے دشمن کو شکست سے دوچار کر دیا۔ انتخابات کے بعد آٹھ مہینوں کے دوران اور بائیس بہمن (گیارہ فروری) تک اس قوم اور اس ملک کو جو تجربہ ہوا وہ سبق آموز اور عبرت آموز تجربہ اور در حقیقت ملت ایران کی سربلندی و سرخروئی کا باعث ہے۔

سن اٹھاسی ( ہجری شمسی) میں قوم نے بڑی دلکش ضوفشانی کی۔ حکام نے بھی بڑی عظیم اور با ارزش کوششیں انجام دیں۔ یہ کوششیں اپنے آپ میں بہت قیمتی، با ارزش اور قابل قدر ہیں۔ تمام انصاف پسند نگاہوں کے لئے لازم ہے کہ ان مساعی، ان خدمات اور ان کوششوں اور مساعی کی جو مختلف شعبوں میں ملک کی تعمیر و ترقی و پیشرفت کے لئے انجام پائیں قدردانی کریں۔ علمی میدان میں، صنعتی شعبے میں، سماجی سرگرمیوں کے سلسلے میں، خارجہ پالیسی کی سطح پر اور محتلف شعبوں میں ملک کے عہدہ داروں نے کارہائے نمایاں انجام دئے ہیں۔ اللہ تعالی ان سب کو اجر عطا کرے اور ترقی کی توفیق مرحمت فرمائے۔ ملک کی موجودہ صورت حال اور اس ملک اور عظیم قوم کے اندر نہفتہ عظیم صلاحیتوں کو دیکھ کر جو نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے، یہ ہے کہ جو کچھ ہم نے انجام دیا ہے، جو کچھ حکام اور عوام نے پائے تکمیل تک پہنچایا ہے وہ ترقی اور انصاف و مساوات تک رسائی کے لئے ملک کے اندر پائی جانے والی عظیم توانائیوں اور صلاحیتوں کے مقابلے میں کوئی بڑا کام نہیں ہے۔ ہم نے ماضی میں جو محنت کی ہے، ہم سب کو اس سے زیادہ محنت کرنے اور اس فریضے کو اپنے دوش پر محسوس کرنے کی ضرورت ہے۔

ہر دفعہ سال نو کے آغاز پر جو دعا ہم سب پڑھتے ہیں اس میں یہ فقرہ بڑا قابل توجہ ہے کہ ارشاد ہوتا ہے کہ" حول حالنا الی احسن الحال" یہ نہیں کہا کہ ہمیں اچھے دن اور اچی حالت میں پہنچا دے۔ اللہ تعالی سے التجا کی جاتی ہے کہ ہمیں بہترین حالت اور بہترین وقت اور بہترین صورت حال مین پہنچا دے۔ مسلمان انسان کی بلند ہمتی کا تقاضا یہی ہے کہ تمام میدانوں میں بہترین نقطے تک رسائی حاصل کرے۔ اس لئے کہ اس دعا میں جو تعلیم ہمیں دی گئی ہے اور جو ہمارا فریضہ بھی ہے اس کی انجام دہی میں ہم کامیاب ہوں، اس لئے کہ ہم ملک کی احتیاج اور ملک کی صلاحیتوں کے شایان شان عمل کر سکیں، ہمیں اپنی ہمت اور اپنے حوصلے کو بدرجہا بلند کرنا ہوگا۔ کام اور عمل کو زیادہ وسعت اور زیادہ محنت کے ساتھ انجام دینا ہوگا۔ میں اس سال کو "بلند ہمتی اور کثرت عمل" کے سال سے موسوم کرتا ہوں۔ یہ امید کرتا ہوں کہ مختلف شعبوں میں، اقتصادی شعبوں میں، ثقافتی شعبوں میں، سیاسی شعبوں میں، تعمیراتی شعبوں میں، سماجی شعبوں میں جملہ شعبوں میں حکام عوام کی معیت میں بلند تر اقدامات کے ذریعے، بلند ہمتی کے ساتھ اور کثرت عمل اور شدت عمل کے ساتھ نئی راہیں کھولیں اور اپنے بلند اہداف کے نزدیک تر پہنچ جائیں۔ ہمیں اس بلند ہمتی کی ضرورت ہے، ملک کو اس کثرت عمل کی ضرورت ہے۔

ہمیں اللہ تعالی پر توکل کرنا چاہئے، اللہ تعالی سے طلب نصرت کرنا چاہئے اور یہ یاد رکھنا چاہئے کہ کام اور عمل کے لئے میدان بہت وسیع ہے۔ دشمن ہمارے معاشرے کے علم و ایمان کے مخالف ہیں۔ ہمیں اپنے اندر علم و ایمان کی خاص طور پر تقویت کرنی چاہئے۔ انشاء اللہ راہیں ہموار ہو جائیں گی، رکاوٹوں کا قد چھوٹا ہو جائے گا اور نصرت و تائید الہی ہماری قوم، ہمارے ملک اور ہمارے حکام کے ہمراہ اور ان پر سایہ فگن ہوگی۔

 

والسّلام علیكم و رحمةاللَّه و بركاته‏

 

 

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬