27 March 2014 - 21:07
News ID: 6558
فونت
رسا نیوز ایجنسی ـ " وقف بچاﺅ تحریک " کے بینر پر مسلسل دہلی اور اترپردیش کے علاوہ ہندوستان بھر میں اوقاف کی بازیابی کے لئے مہم چلائی جارہی ہے، یوپی پریس کلب میں اوقاف کے معاملات کو لیکر مولانا کلب جواد نقوی کی جانب سے ایک پریس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں انہوں نے صحافیوں کو خطاب کیا ۔
عاليشان پيمانے پر احتجاج


رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق " وقف بچاﺅ تحریک " کے بینر پر مسلسل دہلی اور اترپردیش کے علاوہ ہندوستان بھر میں اوقاف کی بازیابی کے لئے مہم چلائی جارہی ہے، یوپی پریس کلب میں اوقاف کے معاملات کو لیکر مولانا کلب جواد نقوی کی جانب سے ایک پریس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں انہوں نے صحافیوں کو خطاب کیا ۔

اس موقع پر " وقف بچاﺅ تحریک " کے سربراہ مولانا کلب جواد نقوی نے صحافیوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا : :اوقاف کی بازیابی کی تحریک ہم مسلسل 13 سال کے عرصہ سے چلارہے ہیں، اس تحریک میں ہمیں کامیابی بھی ملی ہے، وہ اوقاف جو مافیاﺅں کے قبضے میں تھے ہم نے خالی کرائے مگر جن اوقاف پر حکومتِ ہند کے قبضے ہیں وہ ابھی تک خالی نہیں ہوسکے، حکومت کے اوقاف کی زمینوں پر پورے ہندوستان میں قبضے ہیں، یوپی، بہار، بنگال اور دوسری ریاستوں میں بھی اوقاف کی زمینیں ابھی تک حکومت کے قبضوں سے واگزار نہیں کرائی جاسکی ہیں، اب ہماری تحریک ہندوستان بھر کے اوقاف کی بازیابی کے لئے ہے جن پر سرکار کے قبضے ہیں۔

مولانا کلب جواد نے کانگریس کے ذریعہ 123 اوقاف کے کلیم واپس کئے جانے کے معاملے پر بولتے ہوئے کہا : " ابھی کانگریس نے 123 اوقاف کی زمینوں کے کلیم واپس کئے ہیں مگر حکومت کے ساتھ اسکے ہم زبان اور زرخرید مسلمان رہنماﺅں نے بھی یہ شور مچا دیا ۔

مولانا کلب جواد نقوی نے کہا : 78 زمینوں کے لئے خود بھارتی حکومت نے اقرار کیا ہے کہ ان پر سرکاری قبضے ہیں مگر ابھی تک حکومت کے بقول ان زمینوں کو ٹریس نہیں کیا جاسکا۔

انہوں نے حکومت کے اس بیان کو سراسر جھوٹ بتاتے ہوئے کہا : یہ سب جھوٹ ہے کیونکہ جن زمینوں پر سرکار کے قبضے ہیں ان سے سبھی واقف ہیں اگر وہ نہیں جانتی تو قانونی طور پر ہم تمام اوقاف کی نشاندہی کراسکتے ہیں۔ حکومت صرف مسلمانوں کو بیوقوف بنارہی ہے اور وہ مسلمان لیڈر جو کانگریس کے اشاروں پر زبان کھولتے ہیں وہ کانگریس کی ہمت بڑھا رہے ہیں۔

مولانا کلب جواد نے لکھنؤ کے اوقاف کے متعلق بیان دیتے ہوئے کہا : "یہی حال لکھنؤکا ہے یہاں بھی کانگریس کے دور حکومت میں زیادہ تر اوقاف کی زمینوں پر قبضے کئے گئے، اندرا بھون، نہرو بھون اور خاص کر ایک قبرستان کی پوری زمین پر رانی لکشمی بائی پارک کی تعمیر حکومت نے کی، کہیں بی جے پی کے دور اقتدار میں قبضے ہوئے ہیں تو کہیں کانگریس کے عہد حکومت میں۔

وقف بچاؤ تحریک کے سربراہ نے کہا : اگر یہ اوقاف کی زمینیں ہمیں مل جائیں تو ہماری قوم کے نوجوانوں کے اقتصادی مسائل حل ہوجائیں گے اور انہیں کہیں باہر جانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوگی۔

مولانا کلب جواد نے دہلی کربلا شاہ مردان معاملہ پر گفتگو کرتے ہوئے کہا : مرکزی حکومت کربلا شاہ مردان معاملے کو شیعہ سنی کا رخ دینے کی کوشش میں تھی مگر وہاں کے اہل سنت علماء و رہنماﺅں نے ہمارا ساتھ دیکر حکومت کی اس سازش کو ناکام کردیا، کربلا کی زمین اور قبرستان پر کہیں نرسری ہے تو کہیں بیت الخلاء تعمیر کردیے گئے ہیں، جہاں شیعہ و سنی دونوں کے تعزیہ دفن ہوتے ہیں وہاں گندی نالیوں کا پانی ہوکر جاتا ہے اور ایک نرسری والے مالی کی حفاظت کے لئے ہمارے احتجاج کے موقع پر 500 پولس والے تعینات کئے جاتے ہیں جبکہ ہمارا احتجاج پرامن ہوتا ہے۔

ہندوستان کے بزرگ عالم دین نے کہا : اب ہم 31 مارچ کو دہلی میں اور بھی عالیشان پیمانے پر احتجاج کریں گے اور ہمارے علماء کے ڈیلیگیشن بھی سونیا گاندھی سے ملاقات کریں گے تاکہ مسائل کا حل نکل سکے۔

انہوں نے وقف بچاﺅ تحریک کے پروگرام کے بارے میں کہا : 24 مارچ سے ہمارا احتجاج لکھنوسے شروع ہوا، ہم 24 مارچ سے رائے بریلی، امیٹھی ،مرادآباد نوگاواں سادت اور میرٹھ ہوتے ہوئے 31 مارچ کو دہلی پہونچیں گے، اس احتجاج میں علماء اہل سنت کے علاوہ ہندو دھرم گرو بھی شامل ہوں گے اور بڑے پیمانے پر شیعہ علماء بھی ہندوستان کے مختلف علاقوں سے شریک ہوں گے۔

انہوں نے کہا : کانگریس کرائم پر کرائم کرتی جارہی ہے مگر مسلمان رہنما خاموش ہیں، بابری مسجد جو 500 سال پرانی تھی اسے شہید کیا گیا لیکن غوثیہ مسجد 700 سال پرانی ہے جس پر کانگریس حکومت کے اشاروں پر بلڈوزر چلوا دیے گئے، 5 مسجدیں ایسی ہیں جنکا نشان بھی اب باقی نہیں ہے مگر مسلمان رہنما کچھ نہیں بولتے آخر کیوں؟ ۔

مولانا کلب جواد نقوی نے کہا : دراصل جس پارٹی میں جو مسلمان رہنما اپنی قوم کو جتنا بڑا نقصان پہونچاتا ہے اسے پارٹی میں اتنا ہی بڑا عہدہ دیا جاتا ہے۔
 

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬