22 October 2014 - 14:05
News ID: 7395
فونت
رسا نیوز ایجنسی - اسلام آباد میں دھرنوں کا سلسلہ جو اگست 2014 کے وسط میں شروع ہوا آج ( 20اکتوبر 2014) تک جاری و ساری ہی۔ ان دھرنوں کے حوالے سے دو کلی نظریات ہیں ۔ ایک ان لوگوں کا نظریہ جو انھیں سرے سے ہی منفی سیاست کا شاخصانہ قرار دیتے ہیں اور دوسرا ان لوگوں کا نظریہ جوانھیں منفی سیاست کا ردعمل سمجھتے ہیں ۔
ثاقب اکبر پاکستان مظاھرہ

 

ثاقب اکبر


ہمارا نقطہ نظر دوسرے گروہ سے قریب تر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم پاکستان میں نظام حاضرو موجود کے بارے میں یقین رکھتے ہیں کہ وہ نہ فقط عوام کی حالت کو سدھارنے کی اہلیت نہیں رکھتا بلکہ اسے مزید تنزل کی طرف لے جانے کے لیے اپنا کردار ادا کر رہا ہے اور پھر اس کا نتیجہ خود پاکستان کے حق میں نکلتا ہو دکھائی نہیں دیتا ۔


ہم سمجھتے ہیں کہ ان دھرنوں نے مندرجہ ذیل مثبت نتائج حاصل کئے ہیں ۔


1۔ عوام پہلے کی نسبت بہتر طور پر آگاہ ہو چکے ہیں کہ ان کی اصل مشکلات کیا ہیں اور ان مشکلات کے ذمہ دار کون ہیں ۔


2۔ پاکستان کے عوام پہلے کی نسبت اس امر سے بھی بہتر طور پر آگاہ ہوگئے ہیں کہ ان کی مشکلات کو حل کرنے کے راستے کیا ہیں ۔


3۔ پاکستان کے عوام زیادہ بہتر طور پر جان گئے ہیں کہ پاکستان میں نہ فقط باقی رہنے کی صلاحیت موجود ہے بلکہ دنیا میں ایک مثالی ریاست بننے کی بھی صلاحیت سے بہرہ ور ہے ۔یہ گویا مایوسی سے امید کی طرف ایک سفر ہے ۔


4۔ پاکستان کے لوگوں کو یہ بات بھی بہتر طور پر سمجھ آگئی ہے کہ ان کے پاس متبادل تنظیمیں ، پارٹیاں اور شخصیات موجود ہیں جو پاکستان کے حالات کو بہتر بنانے کا شعور بھی رکھتی ہیں اور عزم و ارادہ بھی ۔


5۔ تاریخی طور پر پاکستان میں یہ ہوتا آیا ہے کہ اگر سیاستدان ناکام ہوتے ہوئے نظر آئے توانھیں فوج سے امید پیدا ہوئی کہ شاید وہ ان کے حالات کو بہتر بنا سکتی ہے اور جب فوجی آمریت سے شکایات پیدا ہوئیں تو انھوں نے پھر انہی پہلے سیاستدانوں کی طرف اپنے درد کے مداوا کے لیے نظر اٹھائی لیکن اب کے دھرنوں کو منظم کرنے والی قیادت نے فوجی متبادل کے نظریے کے بجائے بہتر سیاسی متبادل کے نظریے کو فروغ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب عوام کی بہت بھاری اکثریت فوج کو سیاسی مسائل حل کرنے کے لیے نجات دہندہ کے طور پر نہیں دیکھتی ۔ اگرچہ ان دھرنوں نے فوج کا احترام بھی اس کے اپنے محدودہ کار میں بڑھایا ہے ۔


6۔عام طور پر انتخابات کے انعقاد کے بعد سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے مسائل میں مگن ہو جاتی ہیں اور خاص طور پر گذشتہ حکومت کے اپنی آئینی مدت مکمل کرنے کے بعد انتخابات میں دھاندلی کی شکایت کے باوجود یہ سمجھا جارہا تھا کہ اب آئندہ انتخابات تک سامنے آجانے والی صورتحال کو طوعایا کرھا برداشت کرنا ہے لیکن دھرنوں نے جو صورتحال پیدا کی اس کی وجہ سے مختلف سیاسی پارٹیاں اپنے وجود کے اظہار کے لیے مجبور ہو گئیں اور انھیں بھی بیدار ہوتے ہوئے عوام کے سامنے آکر پیش آمدہ مسائل کے بارے میں اپنا موقف ظاہر کرنا پڑا ۔


7۔ صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو بھی دھرنوں کے پیدا کیے ہوئے سیاسی ارتعاش یا بیداری نے مجبور کیا ہے کہ وہ اپنی کارکردگی اور رفتار پر نظر ثانی کریں ۔ بعید نہیں کہ اس کی وجہ سے وہ پہلے سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے قابل ہو جائیں ۔


8۔ پاکستان میں یوں محسوس ہوتا تھا جیسے انتہا پسند گروہ پاکستانی معاشرے پر غالب آتے چلے جارہے ہیں ۔ خیابانوں اور شاہراہوں پر جیسے ان کا قبضہ ہو گیا ہے اور اعتدال پسند عوام، دبک کر گویا اپنے گھروں میں بیٹھ گئے تھے لیکن موجودہ دھرنوں نے اس کیفیت کو یکسر تبدیل کردیا ہے ۔ پاکستان کے عام لوگ ان کی وجہ سے باہر نکلے ہیں ۔ ان کی ہر بات اورانداز اظہار کی تائید نہ بھی کی جائے تو بھی یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ ان دھرنوں نے ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان کی بھاری اکثریت آج بھی انتہا پسندی کے نظریات سے دور ہے اور وہ اس ملک میں مختلف نظریات ، ثقافتوں اور اعتقادات کے ساتھ مل جل کر رہنے کا حوصلہ ہی نہیں رکھتی بلکہ اس پر راضی اور خوشنود بھی ہے ۔


9۔ دھرنوں کے قائدین نے نہ جغرافیائی تفریق کو ابھارا ، نہ لسانی اختلاف کو چھیڑا ، نہ مذہبی فرق کے جھمیلوں میں پڑے بلکہ انھوں نے پاکستان کی بات کی ، عوام کے مسائل کی بات کی اور معاشرے میں قانون اور عدل کی حکمرانی کے بارے میں اپنے ہمہ گیر تصور کو پیش کیا ، جس کے نتیجے میں ان کی آواز پاکستان کے تمام خطوں ،علاقوں ، مذاہب کے پیروکاروں اور مختلف زبانوں کے بولنے والوں نے سنی اور اس کا اثر قبول کیا ۔ یہ طرز عمل ایک متحدہ اور مستحکم پاکستان بنانے اور متحد و منظم قوم بنانے کے لیے نہایت مفید ہے اور دوسری تمام جماعتوں کے لیے سبق آموز بھی ۔


10 - دھرنے کے قائدین نے اگرچہ پاکستان کے مسائل پر بات کی لیکن انھوں نے پاکستان کو بیرونی طاقتوں کے اثرات سے پاک کرنے کا نعرہ بھی بلند کیا انھوں نے کہا کہ پاکستان کو مقروض اور مجبور ریاست کی کیفیت سے نکال کر اسے ایک آزاد اور خودمختار ریاست بنانے کے عزم کا اظہار کیا ۔اس سے ان کی خارجہ پالیسی کا تصور بھی ظاہر ہوتا ہے ۔


اس میں کوئی شک نہیں کہ ان دھرنوں کے بارے میں ہمارے بعض سنجیدہ مذہبی حلقوں کو کچھ اعتراضات ہیں ان کے ان اعتراضات پر دھرنے کے قائدین کو غور و فکر بھی کرنا چاہیی۔دھرنے کے قائدین کے بعض اظہارات پر بھی اعتراضات کیے جاتے ہیں ان کا بھی جائزہ لینا ضروری ہے تاہم اس وقت ہم جس موضوع پر اظہار خیال کر رہے ہیں وہ فقط دھرنوں کے ثمرات اور مستقبل تک محدود ہے۔


یہ دھرنے دو ماہ کے بعد اب اپنی صورت تبدیل کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔ دھرنے کے قائدین نے ملک کے مختلف شہروں میں بڑے بڑے جلسوں اور اجتماعات کا باقاعدہ سلسلہ شروع کر دیا ہے ۔ یہ جلسے اب پنجاب سے نکل کر دیگر صوبوں کا رخ بھی کرنے لگے ہیں ۔ دھرنے کے قائدین کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پاکستان کے تمام علاقوں کے لوگوں سے بالمشافہ ملاقات کرکے اپنا سیاسی پروگرام اور نقطہ نظر ان تک پہنچائیں گے ۔


تازہ ترین صورتحال میں یہ سوال سامنے آتا ہے کہ اسلام آباد میں دھرنوں کا مستقبل کیا ہے ؟ اس سلسلے میں چونکہ دو مختلف دھرنے ایک دوسرے کی ہمسائیگی میں قائم ہیں اس لیے دونوں کا مستقبل ہمیں ایک دکھائی نہیں دیتا ۔یوں معلوم ہوتا ہے کہ عوامی تحریک اور ان کے ساتھ اشتراک عمل کرنے والی جماعتوں کا دھرنا چند دنوں تک لپیٹ لیا جائے گا اور پھر پاکستان تحریک انصاف کا ڈی چوک میں دھرنا باقی رہ جائے گا ۔ عوامی تحریک اور ان کے ساتھی نئی حکمت عملی کے تحت ملک کے مختلف حصوں میںاجتماعات کے ذریعے اپنا پیغام پہنچاتے رہیں گے لیکن پی ٹی آئی کا دھرنا آئندہ کیا رخ اختیار کرتا ہے سوال کا یہ حصہ بہت اہم بھی ہے اور اس کے جواب پر بہت سی سیاسی جدو جہد کے نتائج کا انحصار بھی ۔


ہم نہیں سمجھتے کہ یہ دھرنا طویل مدت تک باقی رہ سکتا ہے کیونکہ پھر یہ سیاسی تدبر اور حکمت کے زوال کی شکایت کرنے لگے گاجبکہ تحریک انصاف کی قیادت سے یہ توقع نہیں کرنا چاہیی۔ ممکن ہے کہ یہ بھی کوئی نئی حکمت عملی طے کرکے ملک میں کسی نئی صورتحال کو وجود میں لے آئے ۔ ہو سکتا ہے سرگودھا کے پی ٹی آئی کے جلسے میں عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے جو اعلان کیا تھا وہ واقعی پی ٹی آئی کے پیش نظر ہو ۔ تحریک انصاف کو جس پیمانے پر عوامی حمایت کے مظاہرے ہو رہے ہیں انھیں سامنے رکھا جائے تو پھر شاید اس کے لیے یہ مشکل نہ ہو کہ وہ ملک گیر پہیہ جام کی موثر کال کا اہتمام کرسکے ۔ اگر ایسا ہو گیا تو پھر وفاقی حکومت جو آج یہ سمجھ رہی ہے کہ دھرنے آہستہ آہستہ اسلام آباد سے سمٹ کر واپس جارہے ہیں، اسے پھر سے نئی پیشکشوں کے ساتھ دھرنے کے قائدین کی طرف رجوع کرنا پڑے گا ۔اس کے نتیجے میں نئی اور بڑی تبدیلیوں کا انتظار کیا جاسکتا ہے ۔


وفاقی حکومت کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ وسیع عوامی رابطوں اور ملک گیر کامیاب جلسوں کے بعد جب اس کی حقیقی اپوزیشن اسلام آباد میں مظاہروں کی نئی کال دے گی تو پھر کیا ہوگا؟


ہماری مخلصانہ رائے اب بھی یہی ہے کہ دھرنے کے قائدین سے سنجیدہ مذاکرات کرکے ان کے بنیادی اور جائز مطالبات کو تسلیم کیا جائے جن میں خاص طور پر دھاندلی کے الزامات کی قابل اعتماد طریقے سے تحقیقات ، دھاندلی میں ملوث افراد کو قرار واقعی سزا ، دھاندلی کے امکانات کو کم کرنے والا نیا انتخابی نظام ،الیکشن کمیشن کی ایسی تشکیل نو جس پر کوئی انگشت نمائی نہ کی جاسکے ، دھاندلی سے پاک اور قابل اعتماد بلدیاتی انتخابات کا انعقاد اور ماڈل ٹائون کے واقعے میں ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی وغیرہ شامل ہیں ۔


کیا کوئی سننے والا ہے؟
 

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬