24 February 2016 - 11:16
News ID: 9102
فونت
رسا نیوز ایجنسی - اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ نے شہر میں کبوتر اُڑانے پر دو ماہ کی پابندی عائد کر دی ہے۔ وفاقی دارالحکومت میں دفعہ 144 کے تحت ضلعی انتظامیہ نے کبوتر اور پتنگیں اڑانے پر پابندی اس لئے عائد کی ہے تاکہ 23 مارچ کے لئے جنگی طیاروں کی ریہرسل بغیر کسی رکاوٹ کے ہوسکے۔ انتظامیہ کے مطابق کبوتر اور پتنگوں کے جنگی جہازوں سے ٹکرانے سے نقصان ہوسکتا ہے۔
ثاقب اکبر


تحریر: ثاقب اکبر


اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ نے شہر میں کبوتر اُڑانے پر دو ماہ کی پابندی عائد کر دی ہے۔ وفاقی دارالحکومت میں دفعہ 144 کے تحت ضلعی انتظامیہ نے کبوتر اور پتنگیں اڑانے پر پابندی اس لئے عائد کی ہے تاکہ 23 مارچ کے لئے جنگی طیاروں کی ریہرسل بغیر کسی رکاوٹ کے ہوسکے۔ انتظامیہ کے مطابق کبوتر اور پتنگوں کے جنگی جہازوں سے ٹکرانے سے نقصان ہوسکتا ہے۔ حکام کی جانب سے یوم پاکستان کی پریڈ سے پہلے اور پریڈ کے دن ایئر شو کو محفوظ بنانے کے لUے یہ پابندی عائد کی گئی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ کبوتر طیاروں کی اڑان کے دوران میں ٹکرا کر طیارے کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ پابندی عائد کرتے ہوئے یہ بھی کہا جاسکتا تھا کہ طیاروں سے ٹکرا کر کبوتروں کو نقصان پہنچ سکتا ہے، لہٰذا کبوتروں کو اُڑان بھرنے سے روک دیا گیا ہے۔ پابندی تو پھر بھی نافذ ہو جاتی، لیکن کبوتروں کی خاصی حوصلہ افزائی ہوتی کیونکہ پاکستانی کبوتروں کو پہلے ہی بھارتی شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اگر انھیں پاکستانی بھی خطرناک سمجھنے لگ پڑے تو وہ بے چارے کہاں جائیں گے۔

 

ہمارے قارئین کو یاد ہوگا کہ گذشتہ برس مئی کے آخر میں بھارتی پولیس نے پاکستانی سرحد کے قریب ایک کبوتر کو گرفتار کر لیا تھا۔ پولیس کے مطابق اس کبوتر کو پاکستان کی طرف سے جاسوسی کے لئے استعمال کیا جا رہا تھا۔ اس کبوتر کو جیل میں بند کرکے تمام طرح کے ایکسرے لئے گئے اور اس کی پوری طرح جامہ تلاشی لی گئی، لیکن ملزم سے کوئی چیز برآمد نہ ہوسکی۔ پھر اس ملزم پر کیا گزری، ابھی تک اس سلسلے میں کوئی خبر بھارت سے موصول نہیں ہوئی۔ پوری دنیا نے اس خبر پر بہت دلچسپی کا اظہار کیا تھا۔ آسٹریلیا کے ایک نجی ٹی وی نے اس کبوتر کے بارے میں ایک ویڈیو بھی دکھائی اور بھارتی پولیس کی ذہانت کو بے پناہ داد دی۔ بھارت سے تو ایسی دلچسپ خبریں آتی ہی رہتی ہیں، گذشتہ برس اگست میں ایک میاں مٹھو کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ اس طوطے کو اوباش قرار دیا گیا جو ایک بزرگ خاتون پر آوازے کستا تھا۔ معلوم نہیں کہ اس اوباش کو یہ جملے سکھائے کس نے تھے۔ بہرحال میاں مٹھو ضلع چندری پور کے پولیس سٹیشن کی حوالات کی ہوا کھاتے ہوئے مختلف چینلوں پر نمودار ہوئے۔ افسوس ہمارے ہاں کے کسی اینکر پرسن کو انٹرویو کرنے کا موقع نہیں مل سکا، ورنہ کئی دن کا مواد میسر آسکتا تھا اور ریٹنگ کی دوڑ میں بعض چینلوں کو کئی اضافی نمبر مل سکتے تھے۔

 

اطلاعات کے مطابق نئے سال میں بھی بھارت میں ایسی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ بدتمیز میاں مٹھو کے بعد بکری کی بھی شامت آگئی، ریاست چھتیس گڑھ میں ایک جج کے گھر کے لان میں گھسنے پر بکری کو اس کے مالک سمیت گرفتار کر لیا گیا۔ بعید نہیں کہ ہمسایوں کا رنگ آہستہ آہستہ ہمارے ہاں بھی غالب آتا جا رہا ہو، فی الحال تو پالتو کبوتروں کو گھروں میں موجود پنجروں میں دو ماہ تک کے لئے نظر بند کر دیا گیا ہے۔ جنگلوں اور فضاؤں میں ان سے کہیں زیادہ پرندے ہر روز پرواز کرتے ہیں۔ آپ اسے آسمانی آوارہ گردی بھی کہہ سکتے ہیں اور بعض پرندے کبوتروں سے کہیں زیادہ بڑے بھی ہوتے ہیں، بلند پرواز بھی اور خاصے منہ زور بھی۔ دیکھیں ہماری انتظامیہ ان کے بارے میں کیا حکم صادر کرتی ہے۔ بکریاں تو اسلام آباد میں پائی نہیں جاتیں، البتہ بندر اور سور بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ ان کے لئے توقع ہے کہ مناسب چیک پوسٹیں قائم کرلی جائیں گی۔ البتہ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ اسلام آباد میں 23 مارچ کی تیاریوں کے سلسلے میں ایسی پابندی عائد کی گئی ہے۔ کبوتر بازوں کا کہنا ہے کہ 23 مارچ کے بعد کے لئے پابندیوں کا کیا جواز ہے، جب کہ پتنگ بازی اور کبوتر اڑانے کا یہی زمانہ ہے۔

 

حکمرانی کے اصول اور آداب تو حکمران ہی جانتے ہیں، لیکن ہماری حیرت یہ ہے کہ کبوتروں پر پابندی عائد کرنے والی انتظامیہ نے مولوی عبدالعزیز کو ابھی تک وفاقی دارالحکومت میں آزاد چھوڑ رکھا ہے۔ مولوی صاحب ایک سرکاری مسجد میں سرکاری تنخواہ پر ملازم رکھے گئے تھے، انھیں کئی برس پہلے اس ملازمت سے برخاست کیا جا چکا ہے، لیکن ان کا قبضہ لال مسجد پر ہنوز مستحکم ہے۔ ان کے افکار اور نظریات کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ان کا ماضی کھلی کتاب کی طرح موجود ہے۔ ابھی تک سوشل میڈیا پر ان کے انٹرویو اور بیانات ان کے انتہا پسندانہ بلکہ شدت پسندانہ نظریات عکس و صوت کے ساتھ موجود ہیں۔ داعش اور اس جیسی تنظیموں کے لئے مولوی عبدالعزیز کی ہمدردیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ دہشت گرد گروہ بھی انھیں اپنے ایک ہیرو کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

 

معاشرے میں اپنے تصور اسلام کے نفاذ کے لئے ان کی ڈنڈا بردار اور مار دھاڑ سے بھرپور کاوشیں سب کے سامنے ہیں۔ پاکستان کی فوج اور آئین کے خلاف ان کی تقریریں اور انٹرویو ریکارڈ پر موجود ہیں۔ ان کے خلاف متعدد ایف آئی آر اور دیگر جرائم کا تمام ریکارڈ سینیٹ اور اسمبلی میں پیش کیا جا چکا ہے۔ اس کے باوجود کبوتروں پر پابندی عائد کرنے والی انتظامیہ نے ان کے سامنے کبوتروں ہی کی طرح آنکھیں بند کر رکھی ہیں، جیسے وہ کسی خاص موقع پر بند کیا کرتے ہیں۔ لہٰذا اگر یہ کہا جائے کہ کبوتروں پر پابندی عائد کرنے والی انتظامیہ کے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے ہیں تو امید ہے کہ اسے طوطا کہانی قرار نہیں دیا جائے گا۔


کیا مولوی عبدالعزیز کا خطرہ کبوتروں سے بھی کم ہے۔ کبوتروں پر تو ابھی کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی اور مولوی صاحب پر کئی ایک مقدمات کا ریکارڈ موجود ہے۔
 

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬