28 October 2016 - 09:43
News ID: 424106
فونت
مدارس امامیہ بلتستان نے نواز حکومت کی جانب سے گلگت بلتستان اور پاکستان کے پرامن، محب وطن علمائے کرام اور شہریوں کو بلاجواز فورتھ شیڈول میں ڈالنے کے خلاف میدان میں آگئے۔
نواز پالیسی

رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق مدارس امامیہ بلتستان نے نواز حکومت کی جانب سے گلگت بلتستان اور پاکستان کے پرامن، محب وطن علمائے کرام اور شہریوں کو بلاجواز فورتھ شیڈول میں ڈالنے کے خلاف میدان میں آگئے۔

مدارس امامیہ بلتستان کے مسئولین و اساتذہ نے اسکردو پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا : ایک طرف اس ملک میں وہ لوگ ہیں جو جی ایچ کیو سے لے کر کالجوں، یونیورسٹیوں، وکیلوں، علماء، سیاستدانوں، ہسپتالوں، قبرستانوں، جنازوں، مسجدوں، مزاروں اور امام بارگاہوں پر حملہ آور ہیں۔

ایسے دہشت گرد جو القاعدہ، طالبان اور داعش جیسی انسانیت دشمن تنظیموں سے وابستہ ہیں، ایسی تنظیمیں جو سپاہ، جیش اور لشکر جیسے ناموں سے سرگرم عمل ہیں، ایسے گروہ جو تکفیر، دہشت گردی اور انتہاء پسندی کے فروغ میں اپنا منفی کردار کئی دہائیوں سے ادا کر رہے ہیں۔

جبکہ دوسری طرف ایسے لوگ ہیں جو شب و روز اس ملک اور انسانیت کی خدمت میں مصروف ہیں۔ یوں وہ خدمت خلق کے ساتھ ساتھ رواداری، ہم آہنگی، یکجہتی، محبت اور اخوت کے جذبوں کو عام کرنے کے لئے سرگرم عمل ہیں۔ ان میں کئی جماعتیں، ادارے اور افراد موثر طور پر وہ کردار ادا کر رہے ہیں جو حکومتوں کو ادا کرنا چاہیے۔

پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے علماء نے کہا : گذشتہ دنوں جب فورتھ شیڈول کے نام پر دو ہزار سے زیادہ افراد کے بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے کا اعلان ہوا تو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ اس فہرست میں جہاں ایک طرف شدت پسند اور تکفیری عناصر کے نام موجود ہیں، وہاں اس ملک کے معتبر، محب وطن، مثبت شناخت رکھنے والے، یتیم پروری، غریب نوازی اور ترویج علم وآگہی کے حوالے سے خدمات کا روشن ماضی رکھنے والے افراد کے نام بھی شامل ہیں۔

ہمارا یہ خیال تھا کہ شاید کسی دفتری غلطی، کسی بابو کی غلط فہمی کی وجہ سے یا شاید اداروں میں گھسی ہوئی بعض کالی بھیڑوں کے ایماء پر ایسا ہوا ہے اور جونہی ذمہ دار حکام کی نظر اس فہرست پر پڑے گی تو حق و باطل میں اختلاط اور اچھے اور برے کو ایک ہی آنکھ سے دیکھے جانے کا تاثر ختم ہو جائے گا۔ اور جن بے گناہوں کا نام اس فہرست میں شامل ہوا ہے، انھیں یقینی طور پر نکال دیا جائے گا، لیکن افسوس ایسا نہ ہو سکا بلکہ اگلا مرحلہ بھی آگیا اور ان تمام افراد کی قومی شناخت کو بھی معطل کر دیا گیا۔

انہوں نے کہا : آپ کے علم میں ہے کہ وطن عزیز پاکستان میں 30 سال سے جاری دہشتگردی کا سب سے زیادہ شکار اہل تشیع ہوئے ہیں، جن میں ڈاکٹرز، انجینئرز، وکلاء، صحافی، علماء، عزادار، زائرین سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے تقریباً 24 ہزار افراد شہید کئے گئے۔ ان کا جرم صرف محب وطن پاکستانی ہونا تھا۔ ہم اس عرصے میں کمالِ صبر کیساتھ جنازوں پر جنازے اٹھاتے رہے مگر افسوس کہ یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔

جب آرمی پبلک سکول پشاور کے دلخراش سانحے کے بعد نیشنل ایکشن پلان کے تحت ہماری بہادر افواج نے دہشتگردوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا عزم کیا تو سب سے پہلے ہم (اہل تشیع) نے اس کی بھرپور حمایت اور تائید کی۔ ہماری بدقسمتی سے حکومت نے نیشنل ایکشن پلان صرف دہشتگردوں کیخلاف استعمال کرنے کی بجائے ظالمانہ بیلنس پالیسی کے تحت دہشتگردوں کیساتھ کچھ پُرامن شہریوں اور علماء کو بھی شامل کر لیا، جن کا دہشتگردی سے دُور کا بھی تعلق نہیں، بلکہ ان کی علمی اور سماجی خدمات سب کے سامنے ہیں۔

فخر ملت حجت الاسلام حجت الاسلام امین شہیدی، حجت الاسلام سید سبطین شیرازی، حجت الاسلام شیخ مقصود علی ڈومکی، حجت الاسلام شیخ مرزا علی نگری، حجت الاسلام شیخ نیر عباس مصطفوی، حجت الاسلام شیخ فدا حسین عابدی اور خصوصا مفسر قرآن، محسن ملت، حجت الاسلام شیخ محسن علی نجفی کی عظیم علمی، تعلیمی، سماجی، فلاحی اور ملی اور اتحاد بین المسلمین کے لئے ان کی خدمات کے صلے میں انہیں قومی ایوارڈ دینے کی بجائے حکومت وقت کی جانب سے ظالمانہ اور غیر منصفانہ پالیسی کے تحت بدنیتی کی بنیاد پر دہشت گردوں کے ساتھ انہیں شیڈول فورتھ میں شامل کرکے ان کی بنیادی شہریت معطل کردی۔

پریس کانفرس سے خطاب میں مقررین نے کہا : آپ کو بخوبی علم ہے کہ مفسر قرآن، اتحاد بین المسلمین کے داعی، امن کے علمبردار، استادِالعلماء، غریبوں، یتیموں، طلباء اور بے سہارا لوگوں کے مددگار حجت الاسلام شیخ محسن علی نجفی کو بیلنس پالیسی کا شکار کیا گیا اور ان کے نام کو بھی فورتھ شیڈول میں شامل کیا گیا ہے، جو قابل مذمت اور عدل و انصاف کے قتل کے مترادف اقدام ہے۔ حجت الاسلام شیخ محسن علی نجفی کی علمی و تعلیمی خدمات میں البلاغ القرآن کے نام سے ترجمہ قرآن کریم، دس جلدوں پر مشتمل تفسیر الکوثر، حوزہ علمیہ جامعۃالکوثر سمیت حفظ القرآن اور خالص دینی علوم کے متعدد مدارس و جامعات قائم ہیں۔

اس کے علاوہ نظریہ پاکستان کی روح کے مطابق عصری تعلیم کے دسیوں سکولز اور کالجز، مساجد، یتیم خانے، غریبوں کے لیے فلاحی رہائشی کالونیاں، سیلاب و زلزلہ سے متاثر ین کے لئے جامع تریں بحالی کے منصوبے، متعدد ڈسپنسریز، ہسپتال، پسماندہ علاقوں کے لیے واٹرسپلائی جیسے خالص فلاحی منصوبے شامل ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس طرح کے محب وطن، علم پرور، قرآنی، علمی، فلاحی شخصیت کے خلاف حکومت کا مذکورہ بالا اقدام علم، قرآن، اتحاد امت، رواداری، یتیموں اور غریبوں کے خلاف کھلی جارحیت اور ظلم ہے۔

مدارس امامیہ کے مسئولین نے کہا حکومت سے ہمارا مطالبہ ہے کہ اس فہرست پر نظر ثانی کرے اور تمام مسالک سے تعلق رکھنے والے ان تمام افراد کا نام فورتھ شیڈول سے خارج کرے جو غلط طور پر یا غلط فہمی سے اس فہرست میں شامل کرلیا گیا ہے اور ان سے اس سلسلے میں معذرت بھی کرے۔

یہی کافی نہیں اگر بعض کالی بھیڑوں نے جان بوجھ کر نیک نام اور بے گناہ افراد کو اس فہرست میں شامل کیا ہے تو ان کے خلاف بھی تادیبی کارروائی کرے تاکہ ایسے افراد کو عبرت کا نشان بنایا جائے جو اپنی غلط کاریوں کی وجہ سے یا اپنے فرقہ وارانہ مقاصد کے پیش نظر یا زیر زمین دہشت گرد تنظیموں سے اپنے روابط کی بنا پر حکومت اور ریاستی اداروں کو بدنام اور ریاستی طاقت کا غلط استعمال کرنا چاہتے ہیں۔

ہم حکومت سے پر زور مطالبہ کرتے ہیں کہ ان علمائے کرام پر عائد پابندیوں کو فی الفور اٹھایا جائے بصورت دیگر پورے گلگت بلتستان میں احتجاجات کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔/۹۸۹/ف۹۴۰/

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬