28 October 2016 - 22:39
News ID: 424114
فونت
سعودی عرب جو خطے میں امریکی مفادات کے تحفظ کا منشی تھا، پاکستان جیسے ایٹمی طاقت اور اسٹرٹیجک مقام رکھنے والے ملک کی بڑی پارٹیوں کے سربراہان اس امریکی منشی کے بھی منشی بن گئے۔ نون لیگ تو سب جانتے ہیں کہ ضیاءالحق کی سیاسی میراث ہے اور تکفیریوں کے مرکز سے لیکر پاکستان میں موجود تکفیری قوتوں کے پہلے ہی قریب تھی، لیکن پیپلز پارٹی جو کہ ایک سیکولر جماعت تھی، اس سعودی قربت سے اس میں تکفیری اثر و رسوخ بڑھا، جس کا عملی مظاہرہ کالعدم سپاہ صحابہ کے سیاسی چہرے پاکستان راہ حق پارٹی اور پی پی پی کے کراچی اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے مشترکہ الائنس بننے کے موقع پر ہوا۔
حجت الاسلام سید شفقت شیرازی


 
تحریر: ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی

جب امریکہ نے 9/11 کے بعد افغانستان پر حملہ کیا، دنیا بھر کے وہابی اور تکفیری جو جہاد افغانستان کے لئے جمع ہوئے تھے، انکی مرکزیت توڑ کر، حکومت ختم کرکے انہیں جہاں اسلام میں بکھیر دیا گیا، اگلے مرحلے میں انہیں لیبیا، تیونس، مصر، عراق، شام اور یمن میں اپنے مفادات کے لئے استعمال کیا اور جنرل پرویز مشرف نے بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شریک ہو کر پاکستان میں انکے خلاف آپریشن کا آغاز کیا۔ "سنٹرل ایشیاء انسٹیٹیوٹ اینڈ سلک روڈ سٹڈیز پروگرام" کی تحقیقاتی رپورٹ میں بیان ہوا ہے کہ "طالبان کے وجود کو بچانے، انکی مالی امداد، افرادی قوت کی فراہمی اور لوجسٹک خدمات کیلئے متحدہ مجلس عمل کا پلیٹ قائم کیا گیا۔" جس نے مشرف دور میں مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کیا۔ دوسری طرف عدلیہ کے سربراہ افتخار چودھری کے ذریعے حکومتی گاڑی کے پہیوں میں لکڑیاں ڈالی جاتی رہیں اور ان دونوں کی پشت پر تکفیریت اور وہابیت کے مرکز سعودی عرب کا ہاتھ تھا۔ افتخار چودھری کی سعودی سفیر سے ملاقاتیں اور ایم ایم اے کے بعض مرکزی قائدین کے سعودیہ سے رابطے کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ سعودیہ نے لمبا عرصہ پاکستان میں سرمایہ کاری کی۔ خطے پر تسلط اور اپنی طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے لئے اب اسے پہلے سے زیادہ ان تکفیری دہشتگردوں کی  ضرورت تھی۔ اسی اثناء میں دارالحکومت اسلام آباد میں میں قائم دہشتگردی اور تکفیریت کے سب سے بڑے مرکز  لال مسجد پر ملک میں امن کی بحالی کی بنیاد پر آپریشن کیا گیا۔ اس مرکز کے فقط پاکستان کے اندر ہی نہیں بلکہ عراق و شام اور دیگر ممالک تک مسلح تکفیری گروہوں سے روابط تھے۔

اب ایک طرف سعودیہ پاکستان کے بشری اور ایٹمی بموں پر کنٹرول چاہتا تھا، دوسری طرف پاکستان کی دو بڑی سیاسی پارٹیاں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نوں بھی ملٹری انقلابوں سے جان چھڑوانا اور سول ڈکٹیٹرشپ کو لانا چاہتی تھیں۔ ادھر امریکہ، اسرائیل اور انڈیا کو بھی مضبوط آرمی اور طاقتور پاکستان قابل قبول نہ تھا، اس لئے مشترکہ مفادات کی بنیاد پر ان سب کی آپس میں قربتیں بڑھیں۔ ایک طرف امریکہ اور مغرب نے جمہوریت، ڈیموکریسی اور آزادی کا نعرہ لگا کر خطے میں قائم حکومتیں گرانا شروع کر دیں، سعودی عرب اور قطر جیسی وہ پولیس اسٹیٹس اور بادشاہتیں جنکے اپنے ممالک میں نہ عوام آزاد ہیں اور نہ وہاں الیکشن ہوتے ہیں، نے بھی خطے میں نام نہاد جمہوری حکومتیں قائم کرنے کی خاطر امریکی اور صہیونی جنگ میں بڑھ چڑھ کر ساتھ دیا۔ پاکستان میں بھی مذکورہ دونوں بڑی پارٹیوں نے بھی میثاق جمہوریت پر دستخط کئے اور اپنے اقتدار کی خاطر جمہوریت کا ڈھول پیٹنا شروع کیا۔

سعودی عرب جو خطے میں امریکی مفادات کے تحفظ  کا منشی تھا، پاکستان جیسے ایٹمی طاقت اور اسٹرٹیجک مقام رکھنے والے ملک کی بڑی پارٹیوں کے سربراہان اس امریکی منشی کے بھی منشی بن گئے۔ نون لیگ تو سب جانتے ہیں کہ ضیاءالحق کی سیاسی میراث ہے اور تکفیریوں کے مرکز سے لیکر پاکستان میں موجود تکفیری قوتوں کے پہلے ہی قریب تھی، لیکن پیپلز پارٹی جو کہ ایک سیکولر جماعت تھی، اس سعودی قربت سے اس میں تکفیری اثر و رسوخ بڑھا، جس کا عملی مظاہرہ کالعدم سپاہ صحابہ کے سیاسی چہرے پاکستان راہ حق پارٹی اور پی پی پی کے کراچی اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے مشترکہ الائنس بننے کے موقع پر ہوا۔ اب جب نیشنل ایکشن پلان بنتا ہے یا دہشتگردی اور تنگ نظری کے خاتمے کے لئے قانون سازی ہوتی ہے یا آئین و قانون پر عمل درآمد کا مرحلہ آتا ہے تو دہشتگردی اور تکفیریت کے مراکز سے منسلک یہ لوگ فقط اپنے عوام کو دھوکہ دیتے ہیں، کیونکہ اگر وطن کے وسیع تر مفادات اور نیشنل انٹرسٹ کی بنیاد پر پھانسی کے پھندے لگائے جائیں تو بہت سارے حکمرانوں، جرنیلوں، مذھبی و سیاسی لیڈروں اور دیگر با اثر افراد کی گردنیں ان پھندوں میں آتی ہیں اور یہ لوگ جب تک اقتدار میں رہیں گے، اس وقت تک دہشتگردی، تنگ نظری اور تکفیریت باقی رہے گی۔

پاکستان جیسے ملک میں خلیجی ممالک جیسی ایک خاندان کی بادشاہت لانا ممکن نہیں، البتہ خطے میں بغیر داڑھی والا سلطان اور خلیفہ موجود ہے کہ جس کا نعرہ جمہوریت ہے، جو ایک طرف تو امت مسلمہ کا درد مند اور جہان اسلام کا ہیرو ہے، دوسری طرف اسرائیل سے تعلقات استوار رکھتا ہے اور داعش کو وجود میں لانے اور انکے ساتھ ملکر عراق و شام کے پٹرول کا کاروبار کرنے کا تجربہ رکھتا ہے۔ خطے میں امریکی اور مغربی مفادات اور نیٹو اتحاد کے تباہ کن حملوں میں بھی شریک ہے اور ساتھ ساتھ جمہوریت کا علمبردار بھی ہے، جس کا نام رجب طیب اردوغان ہے۔ جب سے اسکا اسرائیل اور امریکا سے گٹھ جوڑ ہوا ہے اور طے ہوا ہے کہ وہ وفاداری کرے گا، اس وقت سے ترکی کی آرمی جو کئی ایک فوجی انقلابات لا چکی تھی، اسکے سامنے رام ہوچکی ہے اور جو عناصر ممکنہ خطرہ بن سکتے تھے، کچھ عرصہ پہلے فوجی انقلاب کا ڈھونگ رچا کر ان کا صفایا کر دیا گیا ہے، جن میں ہزاروں فوجی جوان، اعلٰی افسران، ججز اور سیاستدان شامل ہیں۔ اردگان کی حمایت میں ترکی کی عوام نہیں بلکہ داعشی و تکفیری گروہ نکلے تھے، جنھوں نے بیدردی سے فوجی جوانوں اور افسران کے گلے کاٹے، جسے انٹرنیشنل میڈیا نے ایک حد تک دکھایا تھا۔

آج یوں لگتا ہے جیسے پاکستان میں نواز شریف صاحب بھی بغیر داڑھی کے خلیفہ اور سلطان بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ اخباری رپورٹ کے مطابق انکے پرامن کہلانے والے حامیوں کو اسلحہ کے ٹرک وصول ہوچکے ہیں، حالانکہ ان کے پاس پہلے بھی اسلحہ کی کوئی کمی نہیں تھی۔ دو سال سے جاری آپریشن ضرب عضب جنھیں ختم نہ کرسکا، وہ آج بھی پاکستانی عوام اور حکومتی مراکز پر حملے کر رہے ہیں اور وہ اس ملک کے با اثر بزرگ سیاسی و مذہبی راہنمائوں اور افسران کے زیر سایہ محفوظ ہیں۔ ملک ایک بار پھر مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور ضیاءالحق کے فوجی انقلاب جیسی نازک صورتحال سے گزر رہا ہے اور اس کے اثرات بیس پچیس سال تک قائم رہ سکتے ہیں۔ اس لئے اس مادر وطن کے وفادارں کو ذمہ داری کا ثبوت دینا ہوگا، وگرنہ ایک عرصہ تک پوری قوم پچھتائے گی اور  ملک میں لاقانونیت، ظلم و نانصافی و عدم احتساب اور آئین کی پامالی سے مزید بحران جنم لیں گے۔/۹۸۸/ن۹۴۰

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬