04 January 2017 - 14:24
News ID: 425491
فونت
حکومتی خزانے سے تنگ نظری، تکفیریت اور دہشتگردی پھیلانے والے مدارس کی کروڑوں روپے کی مدد کی جا رہی ہے۔ خیبر پختونخوا حکومت نے کئی ایک دیوبندی مدارس کو بھاری رقوم کی گرانٹ دی ہے۔ حکمرانوں کو جان لینا چاہئے کہ جب ان گروہوں کے عروج کا زمانہ تھا اور وہ فتوحات حاصل کر رہے تھے، جب اس وقت وہ کرم ایجنسی کے طوری و بنگش قبائل کو جھکنے پر مجبور نہیں کر سکے تو آج وہ انہیں کبھی نہیں جھکا سکتے۔ وہ آج تو زوال کی طرف بڑھ رھے ہیں، وہ معنوی طور پر شکست خوردہ ہیں۔ آج محب وطن عوام کی حمایت سے انہیں راہ راست پر لانا آسان ہے، لیکن اگر وہ مخلص عوام سے ہماری فوج کو تنھا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو پاکستان ایک نئے بحران میں داخل ہو جائے گا، جس کا خمیازہ ہماری آنے والی نسلیں بھگتیں گی۔
حجت الاسلام سید شفقت شیرازی


 تحریر: ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی

کرم ایجنسی:

کرم ایجنسی پاکستان کی تمام ایجنسیز میں سے خوبصورت ترین اور اہم ایجنسی ہے۔ یہاں پر اکثریت طورى قبائل آباد ہیں۔ ارض پاکستان کی جنت نظیر وادی اور اسٹرٹیجک و جغرافیائی اہمیت کا حامل انتہائی اہم علاقہ پاراچنار افغانستان کے تین صوبوں (ننگر ہار، خوست اور پکتیا) کے علاوہ دیگر تین قبائلی علاقوں خیبر، اورکزئی اور شمالی وزیرستان کے ساتھ ساتھ ضلع ہنگو سے بھی متصل ہے۔ کئی دہائیوں سے یہ علاقہ اپنی جغرافیائی اہمیت و اسٹرٹیجک خدوخال اور اکثریتی شیعہ  آبادی ہونے کی وجہ سے تکفیری، وہابی و دیوبندی عسکری گروہوں، سیاسی قوتوں اور انکے بانیان و سہولتکار مقامی و بین الاقوامی طاقتوں کی آنکھوں کا کانٹا بنا ہوا ہے، جنہوں نے پے در پے حملوں اور مسلسل سازشوں سے اسے میدان جنگ بنا رکھا ہے، یہ علاقہ باقی تمام قبائلی علاقوں کی نسبت افغان دارالحکومت کابل سے نزدیک اور کم ترین فاصلے پر واقع ہے، اس علاقے کا دارالخلافہ اور صدر مقام پارا چنار ہے۔

پارہ چنار:

پارا چنار افغانستان کے تین صوبوں (ننگرہار، خوست اور پکتیا) کے علاوہ دیگر تین قبائلی علاقوں خیبر، اورکزئی اور شمالی وزیرستان کے ساتھ ساتھ ضلع ہنگو سے بھی متصل ہے۔ پارا چنار پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے مغرب کی طرف 574 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ کرم ایجنسی کا ایک خوبصورت اور اہم شہر ہے، جو افغانستان کے بارڈر کے ساتھ واقع ہے۔ یہ ایک تاریخی اہمیت کا حامل شہر ہے۔ جو تمام قبائل و ایجنسیوں کے شہروں سے بڑا اور دلکش اور خوبصورت شہر ہے۔ اس ایجنسی کے لوگ پشتو، اردو، فارسی اور انگریزی زبان بولتے ہیں۔ اسکا کل رقبہ  3,310 کلو میٹر ہے اور آبادی تقریباً ساڑھے چھ لاکھ افراد پر مشتمل ہے۔

طوری و بنگش قبائل کی وطن دوستی:

پارہ چنار کے محب وطن طوری و بنگش قبائل پاکستان سے محبت کرتے ہیں۔

1۔ پارہ چنار کے سرکاری و غیر سرکاری اسکولوں میں پاکستان کے ترانے پڑھے جاتے ہیں۔
2۔ فوج و ایف سی پارہ چنار کے محب وطن طوری و بنگش قبائل کی وجہ سے محفوظ ہے، جن پر کوئی خودکش حملہ تو دور کی بات حتٰی کہ فوج و ایف سی کے اہلکار پارہ چنار بازار میں بغیر ہتھیار کے گھوم پھر سکتے ہیں۔
3۔ جب پاکستان آرمی کو ملک میں قیام امن کیلئے آپریشنز اور قربانیوں کے لئے افرادی قوت کی ضرورت ہوتی ہے، اسی علاقے کے بہادر سپاہی و آفیسرز پر ہی اعتماد کیا جاتا ہے۔
4۔ طوری و بنگش قبائل کسی ملک دشمن قوت کے آلہ کار نہیں اور نہ انکے کسی سے روابط ہیں۔ انہوں نے ملک میں نہ کبھی خودکش حملے کئے اور نہ ہی جی ایچ کیو و پی این ایس مہران پر حملوں جیسی دہشتگردی میں حصہ  لیا۔
5۔ انھوں نے کبھی افواج پاکستان کے ساتھ لڑائی کو جہاد قرار نہیں دیا اور نہ ہی انکے ہاں بغاوت پر مبنی آزادی کے ترانے گائے جاتے ہیں۔
6۔ اسے علاقے کے لوگ معاہدوں کی پاسداری کرتے ہیں، ماضی میں مری معاہدہ ہو یا حکومتی سرپرستی میں ہونے والے دیگر معاہدے، انہیں تکفیری دہشتگردوں نے ہی ہمیشہ توڑا ہے۔

حکمرانوں کا رویہ:
1۔ تاریخ گواہ ہے کہ پارہ چنار کے محب وطن طوری و بنگش قبائل کے ساتھ حکمرانوں نے سوتیلی ماں جیسا سلوک اور ریاستی دہشت گردی جیسا انداز اپنا رکھا ہے۔ ارباب اختیار کی طرف سے تکفیری دہشتگردوں کے لئے ہی صرف ترقیاتی پیکیج دیئے جاتے ہیں، انھیں عدالتوں کے ذریعے عبرت ناک سزا دینے کی بجائے  VIP پروٹوکول دیا جاتا ہے۔ اس طرح کے رویے سے ملک میں دہشت گردی کبھی ختم نہیں ہوگی۔
2۔ یہ لوگ اس ملک کے محب وطن شہری ہیں اور انکے جان و مال اور ناموس کی حفاظت حکمرانوں کی ذمہ داری ہے، یہ باقی شہریوں کی طرح ٹیکس دیتے ہیں اور شمال مغربی سرحد کے محافظ بھی ہیں۔ انکی وجہ سے کوئی وطن دشمن قوت خواہ اندرونی ہو یا بیرونی، پاکستان کے پہلو کو زخمی یا داغدار نہیں کر سکتی۔
3۔ گذشتہ تین دھائیوں یعنی جب سے پاکستان میں سعودی اور امریکی نفوذ میں اضافہ ہوا، انھوں نے وہابیت، تکفیریت اور نفرتوں کی ترویج شروع کی، انکے جوار میں مخصوص وہابی تکفیری سوچ کے حامل افراد کی مسلح تنظیمیں اور گروہ بنے، اس وقت سے اس علاقے کے عوام اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں، کیونکہ انکے خلاف لشکر کشیاں، دھماکے، قتل و غارت اور حملے معمول بن چکے ہیں، ہماری حکومت اور مسلح افواج نے ہمیشہ تماشائی کا رول ادا کیا ہے اور ہمیشہ حملہ آوروں کو روکنے کی بجائے سبز جھنڈیاں دکھائی گئیں۔
4۔ حکمرانوں کی طرف سے پریشر ڈالا جاتا رہا کہ لوگ پہاں سے ہجرت کر جائیں، تاکہ یہ علاقے دہشگردوں کے پاس چلے جائیں۔ ضیاء الحق  کے دور میں (1984-1987) تو اس علاقے کے مہاجرین کے لئے بھکر اور میانوالی کے علاقوں میں کیمپ بھی بنائے گئے۔ دوسری طرف طالبان اور دیگر جھادی تکفیری گروہوں کے عروج کا زمانہ تھا، انہوں نے بھی طوری و بنگش قبائل کی عوام کا گھیرا تنگ کیا اور ظلم کی داستانیں رقم کیں، لیکن غیرتمند اور بہادر طوری و بنگش عوام نے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔

جنرل ضیاء دور سے ابتک تکفیری دہشتگردوں کے حملے:
1۔ 1981ء و 1982ء میں کرم ایجنسی کے تمام متعصب سنی قبائل نے افغان مہاجرین کے ساتھ مل کر صدہ قصبہ میں شیعہ آبادی پر ہلہ بول کر دادو حاجی کے سارے خاندان قتل کر دیئے اور صده قصبے سے شیعہ آبادی کو مکمل طور پر بے دخل کر دیا گیا، جو آج تک آباد نہیں ہوسکے۔
2۔ 1987/88ء ضیاءالحق کے دور میں پاکستان میں وحدت اسلامی کے علمبردار اور شیعہ مسلک کے قائد علامہ سید عارف حسین الحسینی کو شہید کیا گیا اور علاقے کے سنی متعصب قبائل نے افغان مہاجرین کیساتھ ملکر مقامی شیعہ آبادی پر حملہ کر دیا، جو صده قصبے سے ہوتے ہوئے بالش خیل و ابراہیم زئی جیسے بڑے گاؤں کو روندتے اور جلاتے ہوئے سمیر گاؤں تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے، بعد میں طوری لشکر نے انہیں پسپا کرکے واپس صده کی طرف دھکیل دیا، لیکن دسیوں گاؤں جلائے اور لوٹے گئے، امام بارگاہیں اور مساجد مسمار کر دی گئیں۔ 17 دن پر محیط لڑائی میں ہزاروں لوگ لقمہ اجل بنے۔ اس لڑائی میں انتظامیہ نے مداخلت نہیں کی۔
3۔ 1996ء میں رسول اللہ (ص) کے چچا اور حضرت علی کے والد حضرت ابو طالب علیہما السلام کی توہین کی گئی اور مقامی شیعہ آبادی کو اشتعال دلا کر خونریز جنگ کا آغاز کیا گیا، جو کئی ہفتے تک جاری رہی۔ پارا چنار ہائی سکول میں اسکے پرنسپل اسرار حسین کو قتل کیا گیا، جسے بعد میں صدارتی تمغہ دیا گیا۔

4۔ 2001ء میں فرقہ وارانہ فسادات شروع ہوئے اور پیواڑ پر لشکر کشی کی گئی، پیواڑ کے مختلف گاؤں سمیت مرکزی امام بارگاه پر بمباری کی گئی، جس میں درجنوں لوگ قتل کئے گئے۔
5۔ 2007ء میں طالبان نے انجمن سپاه صحابہ پاراچنار کے سیکرٹری جنرل کیساتھ ملکر 12 ربیع الاول کے عید میلاد النبی کے جلوس میں حسین مرده باد اور یزید زنده باد کے اشتعال انگیز نعروں کی وجہ سے فرقہ وارانہ جنگ کا آغاز کیا۔ جس میں حکیم الله محسود اور منگل باغ نے جنگ کی کمان سنبھالی اور وزیرستان سے لیکر خیبر تک کے متعصب سنی قبائل کرم ایجنسی کی شیعہ آبادی پر حملہ آور ہوئے۔ سینکڑوں قتل ہوئے اور امام بارگاه سمیت آدھے پاراچنار شہر کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا۔ پانچ ہزار سے زیاده ہلاکتیں ہوئیں۔ صده کے مین بازار میں شیعہ افراد گاڑیوں سے اتار کر قتل کئے گئے۔ یہ لڑائی پانچ سال تک جاری رہی۔
6۔ 2011ء میں شلوزان تنگی اور خیواص میں فسادات ہوئے۔ جس میں خیواص گاؤں پر حملہ کرکے جلایا گیا، ایک سو سے زیاده لوگ قتل کئے گئے اور سینکڑوں زخمی بھی ہوئے۔

پارہ چنار کا تقریباً ساڑھے چار سالہ محاصرہ (2007 تا 2011)
کرم ایجنسی کی شیعہ آبادی کو محصور کیا گیا اور انکے لئے پارا چنار تک رسائی کے واحد راستے ٹل پاراچنار روڈ کو بند کر دیا، یہ پارا چنار کو پاکستان سے ملانے والی واحد شاہراه تقریباً ساڑھے چار سال تک بند رہی۔ اسی طرح پارا چنار شہر اور اطرف کے علاقوں کا محاصره جاری رہا۔ اس علاقے کے طوری و بنگش قبائل افغانستان کے راستے تیس گھنٹے کا سفر طے کرکے پارا چنار پہنچتے تھے۔ انکی زندگی کا نظام معطل کر دیا گیا، حکومت، ایف سی اور فوج سب انکے سامنے خاموش اور ان کے جرم میں برابر کے شریک رہے۔ پارہ چنار غزہ کے اسرائیلی محاصرے کی طرح کئی سال محصور رہا۔ طوری و بنگش قبائل پر عرصہ زندگی ہر لحاظ سے تنگ کر دیا گیا، حتٰی کہ انکے بچے ادویات و خوراک نہ ملنے کی وجہ سے مرنے لگے اور لوگ فاقے کاٹنے پر مجبور ہوئے۔ 26 جولائی 2011ء کو علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کی سربراہی میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کا اعلٰی سطحی وفد کاروان امن لیکر اسلام آباد سے روانہ ہوا، جس میں دوائیں، غذائی اجناس اور زندگی کے دیگر لوازمات پر مشتمل سامان سے بھرے دسیوں ٹرک شامل تھے، جنہوں نے آکر اس ساڑھے چار سالہ محاصرے کو توڑا اور ٹل کے زمینی راستے سے یہ کاروان پارہ چنار میں وارد ہوا، جس کا وہاں کی عوام نے بڑی گرمجوشی سے استقبال کیا۔

تازہ ترین بین الاقوامی حالات اور ملک میں سیاسی تبدیلیوں کے تناظر میں میں شیعہ دشمن پالیسی:
1۔ متحدہ عرب امارات حکومت کی متعصابہ پالیسی اور حکومت پاکستان کی خاموشی
گذشتہ پانچ سالوں میں تقریباً 70 ہزار سے زیادہ پاکستانی افراد کو متحدہ عرب امارات نے مذہبی تعصب اور انتقام کی پالیسی کے تحت نکالا، جن میں سب سے بڑی تعداد طوری اور بنگش قبائل کے افراد کی تھی۔ ہماری حکومت نے نہ تو کوئی قابل ذکر احتجاج کیا اور نہ ہی ان بے روزگار ہونے والے افراد کی مدد کی۔ یہ لوگ جہان ملک کے زر مبادلہ میں اضافہ کا سبب تھے، وہیں اپنے اپنے خاندانوں کا سہارا اور انکے کفیل تھے، انکے بے روزگار ہونے سے اس علاقے کے لاکھوں پاکستانی متاثر ہوئے، لیکن حکومت نے ذرا برابر ہمدردی نہیں دکھائی۔ یہ بھی گمان کیا جا رہا ہے کہ خلیجی ریاست نے فقط شیعہ تعصب کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ اس علاقے کا  اقتصادی لحاظ سے استحصال اور انکی دفاعی پوزیشن کو کمزور کرنے کیلئے ایک منظم پالیسی کے تحت یہ قدم اٹھایا۔

2۔ دہشتگردی کیخلاف جنگ کا رخ دہشتگردی زدہ شیعہ عوام کی طرف موڑنا
طالبان، سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی جیسے دہشت گرد، جو پاکستان کے مختلف شہروں میں اہل تشیع کو انفرادی اور اجتماعی طور پر قتل کرتے ہیں اور پھر بڑے فخر سے ذمہ داری قبول کرتے ہیں، آج انکے سرپرستوں اور سہولت کاروں نے نئی پالیسی طے کی ہے کہ دہشتگردی کیخلاف اس جاری جنگ کا رخ محب وطن شیعہ عوام کی طرف موڑا جائے، انکا پاکستان کی اسٹبلشمنٹ اور سیاست میں نفوذ ہے اور یہ سعودی اشاروں پر چلتے ہیں۔ درست ہے کہ پاکستانی عوام کے ارادے اور پارلیمنٹ کے فیصلے کی وجہ سے یہ ہماری فوج کو  یمن پر مسلط کردہ جنگ کا ایندھن نہیں بنا سکے، لیکن اپنے آقاوں کو راضی کرنے اور ڈالر و ریال کمانے کے لئے پاکستان کو خطرناک بحران میں جھونک رہے ہیں، اس ٹاسک کے حصول کے لئے مندرجہ ذیل اقدامات قابل ملاحظہ ہیں۔

3۔ پاک آرمی کو عوامی حمایت سے محروم کرنا
دہشتگردی کے خلاف اس جنگ سے متاثر ہونے والا ملک پاکستان ہے۔ دہشتگردوں کے زیر قبضہ علاقوں کی آزادی، کبھی سوات میں، کبھی وزیرستان، کبھی دیگر قبائلی اور شہری علاقوں میں انکے خلاف آپریشن میں ہزاروں فوجی جوان و آفیسرز درجہ شھادت پر فائز ہوئے، انکی وجہ سے سرحدوں پر موجود خطرات کے سیاہ بادل شہر شہر پر منڈلانے لگے، ملک اقتصادی اور امن و امان کے حوالے سے بحرانوں کا شکار ہوا، پاکستان کی شیعہ سنی عوام اور اقلیتوں نے اپنی فوج کا مکمل ساتھ دیا اور کسی حد تک کامیابیاں ہوئیں، لیکن دیوبندی اور وہابی سیاستدانوں اور اسٹبلشمنٹ میں موجود کالی بھیڑوں نے ہمیشہ روڑے اٹکائے، اب یہی قوتیں پوری کوشش کر رہی ہیں کہ پاک آرمی کو محب وطن عوام کے سامنے لا کھڑا کیا جائے۔ گذشتہ 3 شعبان کو پارہ چنار میں پاک آرمی کے ہاتھوں بیگناہ 4 شیعہ افراد کو قتل کیا گیا، لیکن اہل تشیع نے سازش کو بھانپتے ہوئے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا۔ کچھ عرصہ بعد آرمی کے ذمہ داران نے اپنی غلطی کا اعتراف اور قبول کیا کہ 3 شعبان کو شہید ہونے والے افراد قومی شہید ہیں، انکے ورثا کی ایسے ہی مدد کی جائے گی، جیسے قومی شھداء کے لواحقین کی مدد کی جاتی ہے۔ لیکن شاید تکفیری نفوذ کا ایجنڈا نہیں رکا۔ کوہاٹ کے نواحی علاقے سے آرمی آپریشن کے ذریعے وہ دفاعی اسلحہ جو علاقے میں قیام امن کی ضمانت تھا، جس کے ذریعے قانون کی رٹ کو چیلنج کرنے والے، پاک آرمی اور عوام پر حملہ آوروں کی پیش قدمی کو روکنے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا، اسے تحویل میں لے لیا گیا اور عوام کو دہشتگردوں کے رحم کرم پر چھوڑ دیا گیا، حالانکہ یہ اسلحہ کبھی بھی عوام اور فوج کے خلاف استعمال نہیں ہوا تھا۔ ابھی پھر تیسرا خطرناک تریں حملہ پارہ چنار کے خلاف کیا جا رہا ہے۔ آرمی میں موجود تکفیری نفوذی عناصر پارہ چنار کو نہتا کرنے کے درپے ہیں، حالانکہ اس علاقے کے اطراف میں تکفیری قوتیں مسلح اور پورے پاکستان میں انکی دہشتگردی کی کارروائیاں زوروں پر ہیں، انکے حملوں کے ڈر سے زائرین ابھی بھی کانوائے کی شکل میں جاتے ہیں۔

4۔ دہشتگردوں كو سياسی طور پر مضبوط کرنا:
پاکستان میں تکفیریت اور نفرتوں کے بانی حق نواز جھنگوی کے فرزند کو فقط پنجاب اسمبلی میں ہی نہیں پہنچایا گیا بلکہ اس دہشتگرد کو امن ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ہے۔ ملک میں امن اور دہشتگردی کے پیمانے بدلے جا رہے ہیں۔ یوں نظر آ رہا ہے کہ ہمارے حکمران ملک کی باگ دوڑ دہشتگردوں کے حوالے اور انھیں عسکری طور پر مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی طور پر بھی مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔
5۔ حکومتی خزانے سے تنگ نظری، تکفیریت اور دہشتگردی كي مدد:
حکومتی خزانے سے تنگ نظری، تکفیریت اور دہشتگردی پھیلانے والے مدارس کی کروڑوں روپے کی مدد کی جا رہی ہے۔ خیبر پختونخوا حکومت نے کئی ایک دیوبندی مدارس کو بھاری رقوم کی گرانٹ دی ہے۔ حکمرانوں کو جان لینا چاہئے کہ جب ان گروہوں کے عروج کا زمانہ تھا اور وہ فتوحات حاصل کر رہے تھے، جب اس وقت وہ کرم ایجنسی کے طوری و بنگش قبائل کو جھکنے پر مجبور نہیں کر سکے تو آج وہ انہیں کبھی نہیں جھکا سکتے۔ وہ آج تو زوال کی طرف بڑھ رھے ہیں، وہ معنوی طور پر شکست خوردہ ہیں۔ آج محب وطن عوام کی حمایت سے انہیں راہ راست پر لانا آسان ہے، لیکن اگر وہ مخلص عوام سے ہماری فوج کو تنھا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو پاکستان ایک نئے بحران میں داخل ہو جائے گا، جس کا خمیازہ ہماری آنے والی نسلیں بھگتیں گی۔/۹۸۸/ ن۹۴۰

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬