‫‫کیٹیگری‬ :
01 June 2017 - 15:01
News ID: 428343
فونت
آیت الله سبحانی:
حضرت آیت الله سبحانی نے اس اشارہ کے ساتھ کہ عصمت تام و حقیقی انبیا اور آئمہ طاہرین (ع) کے لئے ہے بیان کیا : عصمت کے درجات ہیں کہ انسان عادی بھی گناہ کی حقیقت کو درک کر کے عصمت کے نازل درجہ کو حاصل کر سکتا ہے ۔
آیت الله سبحانی

رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق حوزہ علمیہ قم میں درس خارج کے مشہور و معروف استاد حضرت آیت الله جعفر سبحانی نے رمضان کے مبارک مہینہ کی مناسبت سے منعقدہ اپنے ایک جلسہ میں عصمت انبیاء کے علل و اسباب کے سلسلہ میں کئے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے بیان کیا : عصت کے درجات ہیں ، ان درجات میں سے ایک گناہ کے مقابلہ میں عصمت اور معصیت کے سامنے استقامت ہے اور دوسرے مرحلہ میں خطا و غلطی میں عصمت ہے کہ ہمارا سوال پہلے قسم سے ہے یعنی انبیاء کے گناہ نہ کرنے کے علل و اسباب کیا ہیں ۔

انہوں نے وضاحت کی : یہاں تک کہ بعض وقت یہ مسئلہ پیش آتا ہے کہ انبیاء الہی گناہ کی فکر بھی نہیں کرتے ہیں ؛ اب یہ سوال ہوتا ہے کہ کیسے جناب یوسف زلیخہ کے سامنے جس نے خود کو ان کے لئے تیار کیا ہے خدا سے پناہ حاصل کر کے گناہ میں مبتلی نہیں ہوتے ہیں ؟ صحیح ہے کہ انبیاء کے عصمت کے لئے مختلف اسباب و وجوہات پائے جاتے ہیں کہ ان میں سب سے اہم گناہ کے نتائج و اس کے اثرات کا علم ہے ۔

حوزہ علمیہ قم میں درس خارج کے مشہور و معروف استاد نے تاکید کی : اگر انسان گناہ کے نتائج سے یقینی طور پر علم حاصل کرے تو خود کو گناہ سے دور رکھے گا ؛ فرض کیجئے کہ ایک گلاس پانی جو گندگی و جراثیم سے پر ہے جس کو پینے سے فورا انسان موت یا بیماری میں مبتلی ہوتا جاتا ہے تو کوئی انسان بھی تیار نہیں ہوگا کہ اس پانی کو پیئے اور سب لوگ اس کو پینے سے معصوم ہیں کیونکہ وہ اس کے برے نتائج سے با خبر ہیں ۔

حضرت آیت الله سبحانی نے اس بیان کے ساتھ کہ اگر ایک بجلی کا تار جو بجلی سے متصل ہو اور اس میں بجلی دوڑ رہی ہے تو کافی مقدار میں مال کے عوض میں بھی کوئی انسان تیار نہیں ہوگا کہ اس تار کو ہاتھ لگائے وضاحت کی : عصمت کے درجات ہیں اسی وجہ سے جیسا کہ بجلی کا تار چھونے سے ہونے والے اثرات کا علم ہے اسی طرح گناہ کے نتائج و اثرات انبیاء الہی کے لئے روشن ہے ۔

انہوں نے اپنی گفت و گو کو جاری رکھتے ہوئے بیان کیا : حضرت یوسف (ع) نے خداوند عالم سے پناہ مانگی کیونکہ اپنی آنکھوں سے گناہ کے اثرات جو کہ جہنم کی آگ ہے دیکھ رہے تھے ؛ امیر المومنین علی علیہ السلام بھی خطبہ متقین میں فرماتے ہیں کہ با ایمان انسان بعض وقت اس منزل پر پہوچ جاتے ہیں کہ اسی دنیا میں بہشت و جہنم اور اپنے اعمال کے آثار کو دیکھتے ہیں ، سورہ کاثر میں موجود ہے کہ اگر انسان یقین کے مرحلہ پر پہوچ جاتا ہے تو اسے جہنم دیکھائی دیتی ہے ۔/۹۸۹/ف۹۳۰/ک۵۴۴/

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬