12 March 2018 - 22:34
News ID: 435330
فونت
پاکستان کے مسلمان اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ آل سعود کے مغربی استعمار سے کس قدر قریبی روابط ہیں۔ گذشتہ برس امریکہ جسے خواجہ آصف نے دشمن قرار دیا ہے، اسی کے صدر کے دورے کے موقع پر آل سعود نے مسلمانوں کی دولت اس پر جسطرح سے نچھاور کی ۔
ثاقب اکبر

تحریر: ثاقب اکبر

پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے جمعہ 9 مارچ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپنے بیان میں امریکہ پر جس طرح کی تنقید کی، اس کی مثال پاکستان کی پوری تاریخ میں نہیں ملتی۔ انہوں نے ”بیک جنبش زبان“ مسلمان حکمرانوں کو بھی دشمنوں کا سہولت کار قرار دے دیا۔ بعض ملکوں کا تو انہوں نے واضح طور پر نام بھی لیا اور بعض ملکوں میں کئے جانے والے جہاد کو دشمنوں کے مفاد میں بہایا جانے والا خون قرار دے دیا۔ خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان کسی اور ملک اور طاقت کے مفادات کا تحفظ نہیں کرے گا۔ پاکستانی عوام کے کان اس طرح کے جملے سننے کے لئے ترس چکے تھے۔ پاکستان کے عوام یقینی طور پر چاہتے ہیں کہ ان کا ملک ایک باوقار، خود مختار اور مقتدر حیثیت سے اپنا کردار ادا کرے۔ خواجہ آصف کا مذکورہ بیان یقینی طور پر پاکستان کے غیرت مند عوام کے جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔ خواجہ آصف نے ظاہراً یہ باتیں زیادہ تر امریکہ اور سعودی عرب کو پیش نظر رکھ کر کی ہیں، کیونکہ ایک طرف امریکہ پاکستان سے ڈو مور کا تقاضا کرتا رہتا ہے اور دوسری طرف سعودی عرب پاکستان سے ہل من مزید کی فرمائش کرتا رہتا ہے۔ انہوں نے اپنے بیان میں صراحت سے یہی بات کہی ہے، چنانچہ قومی اسمبلی میں وزیر خارجہ کی حیثیت سے دیئے جانے والے اپنے بیان میں انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان ان کی پراکسی بنے لیکن پاکستان امریکہ کی پراکسی کبھی نہیں بنے گا۔ نائن الیون کے بعد ہم نے پھر وہی غلطی دہرائی، جس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں نے پاکستان کے مفاد کے لئے نہیں بلکہ اپنے ذاتی مفاد کے لئے امریکہ سے سمجھوتہ کیا۔

خواجہ آصف نے نائن الیون سے پہلے کئے گئے جہاد کو بھی ہدف تنقید بنایا۔ انہوں نے کہا کہ مقتدر لوگوں نے حکمرانی کی خاطر ملک بیچا۔ ہم نے میڈ ان امریکہ جہاد لڑا اور جہادی بنائے۔ ہم نے اپنا کیا حال کر لیا ہے، اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔ انہوں نے واضح طور پر امریکہ کے لئے دشمن کا لفظ استعمال کیا۔ واقعاً یہ پاکستان کی تاریخ کا عجیب دن تھا، جب امریکہ کو دوست کے بجائے کھلے بندوں دشمن قرار دیا جا رہا تھا اور قومی اسمبلی کے اراکین اس بیان پر خوشی کا اظہار کر رہے تھے۔ خواجہ آصف نے کہا کہ ہمارا دشمن سمندر پار سے آکر شام، افغانستان اور دیگر ممالک میں خون کی ہولی کھیل رہا ہے۔ مسلم امہ کا شیرازہ بکھیرا جا رہا ہے۔ مسلمان ممالک کی اس حوالے سے پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسلمان ممالک کے حکمران دشمنوں کے سہولت کار بنے ہوئے ہیں۔ ان الفاظ سے واضح ہو جاتا ہے کہ وہ مسلمان حکمران جو سمندر پار سے آنے والے دشمن کی شام، افغانستان اور دیگر ممالک میں مدد کر رہے ہیں، خواجہ آصف نے انہی کو دشمنوں کا سہولت کار قرار دیا ہے۔ خواجہ آصف نے ایران اور سعودی عرب کے مابین اختلاف کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایران اور سعودی عرب میں اختلافات ہیں تو اس کے لئے دعا گو ہیں، لیکن ہم نے کسی کی پراکسی بننے سے انکار کر دیا ہے۔ پاکستان کی ماضی قریب میں خارجہ پالیسی اور ایران یا سعودی عرب سے تعاون کی تاریخ کو دیکھا جائے تو یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ آج پراکسی بننے سے انکار دراصل سعودی عرب سے جاری تعاون کے حوالے سے ہے، کیونکہ جہاں تک ایران کا تعلق ہے تو اس کے ساتھ گیس پائپ لائن کا معاہدہ کرکے بھی پاکستان لیت و لعل کا شکار ہے، جبکہ یمن کے مسئلے میں سعودی عرب کی حمایت میں فوجیں روانہ کرنے کے خلاف پارلیمنٹ کی مشترکہ قرارداد کے باوجود پاکستان کی طرف سے سعودی عرب کی داخلی سکیورٹی کے نام پر فوجی دستوں کی روانگی کا سلسلہ جاری ہے۔

بعید نہیں کہ خواجہ آصف ماضی کی پالیسیاں ترک کرنے کا اعلان کر رہے ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان کا یہ بیان فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) میں پاکستان کے خلاف سعودی رویئے پر احتجاج کی حیثیت رکھتا ہو، چونکہ انہی دنوں جب پاکستان نے سعودی عرب کے لئے نئے فوجی دستے روانہ کرنے کا اعلان کیا، سعودی عرب نے پاکستان پر پابندیاں عائد کئے جانے کے عمل میں دشمنوں کا ساتھ دیا اور 37 ممالک میں سے صرف ترکی نے پاکستان کی حمایت کی۔ خواجہ آصف نے لگی لپٹی رکھے بغیر کہا کہ ہم نے یمن کی جنگ میں شرکت نہیں کی۔ اس کی وجہ انہوں نے یوں بیان کی کہ ہم نہیں چاہتے کہ امت میں انتشار ہو۔ سعودی عرب کے بارے میں اپنی پالیسی کو انہوں نے مزید واضح کیا اور کہا کہ ہم اس لئے ہدف ہیں کہ دنیا کا ایک عام مسلمان چاہتا ہے کہ پاکستان آکر ہمیں بچائے۔ سعودی عرب کی اندرونی سکیورٹی کی ذمہ داری قبول کی ہے، سعودی عرب ہمارا دوست ہے، لیکن ہم نے ان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کی۔ زبانی طور پر پاکستان پہلے بھی سعودی عرب کے بارے میں اسی پالیسی کا اعلان کرتا چلا آیا ہے۔ اس کی دو وجوہ بیان کی جاتی ہیں، ایک یہ کہ سعودی عرب کی طرف سے مختلف مواقع پر پاکستان کی مالی اور اقتصادی امداد کی جاتی رہی ہے۔ دوسری یہ کہ حجاز مقدس میں مسلمانوں کے دو عظیم المرتبت مقامات اور حرم موجود ہیں۔ پاکستان کے مسلمان ان سے گہرے ایمانی اور جذباتی رشتے میں بندھے ہوئے ہیں اور کسی بھی مکتب فکر کا مسلمان کیوں نہ ہو، حرمین شریفین کی حفاظت کو اپنا ایمانی فریضہ جانتا ہے۔ البتہ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ پاکستان کے مسلمان سعودی عرب کی داخلہ یا خارجہ پالیسیوں کے حامی ہیں۔

پاکستان کے مسلمان اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ آل سعود کے مغربی استعمار سے کس قدر قریبی روابط ہیں۔ گذشتہ برس امریکہ جسے خواجہ آصف نے دشمن قرار دیا ہے، کے صدر کے دورے کے موقع پر آل سعود نے مسلمانوں کی دولت اس پر جس طرح سے نچھاور کی، اسے پاکستان کے مسلمانوں نے ہرگز اچھی نظر سے نہیں دیکھا۔ لہٰذا پاکستان کے عوام کی نظر میں سعودی عرب کی داخلی سکیورٹی سے مراد حرمین شریفین کی حفاظت ہے۔ اگرچہ پاکستان کے بیشتر لوگوں کو یہ معلوم ہے کہ اس وقت حرمین شریفین کو کسی قسم کا بیرونی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ اس موقع پر خواجہ آصف عجیب روانی میں تھے۔ وہ اس موقع پر ملک کے اندر اور باہر مسلمان ممالک کے حوالے سے اظہار خیال کر رہے تھے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مسلمانوں پر ظلم ہو رہے ہیں، امت مسلمہ کو دشمنوں کی ضرورت نہیں۔ گویا ان کے نزدیک وہ اپنی دشمنی کے لئے خود ہی کافی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مسلم ممالک کسی ایک مسئلہ پر بھی متفق نہیں۔ مسلم ہمسائے ایک دوسرے سے بات کرنے کو تیار نہیں، مقبوضہ کشمیر کی صورت حال کو سامنے رکھ لیں۔ ہمارا دشمن سامنے ہے، ہمیں دشمنوں کے سہولت کاروں کو بھی تلاش کرنا ہوگا۔ انہوں نے ایک ہی سانس میں بہت کچھ کہہ دیا، ان کا یہ جملہ تو ساری حقیقت بیان کر گیا کہ ہمارے حکمران دشمنوں کے سہولت کار بنے ہوئے ہیں۔ اگر پاکستان کے وزیر خارجہ نے قومی اسمبلی کے نہایت اہم فورم پر یہ سب کچھ سوچ سمجھ کر کہا ہے اور یقیناً ایسا ہی ہے تو ہمیں توقع کرنا چاہیے کہ آئندہ کی خارجہ پالیسی اسی سوچ سمجھ کی سطور پر استوار کی جائے گی۔ ہمیں یقین ہے کہ اس طرح پاکستان داخلی اور خارجی بھنوروں سے نکل آئے گا اور ایک معزز اور غیور ملک کی حیثیت سے دنیا میں پہچانا جائے گا۔ یہی وہ راستہ ہے جو اقتصادی لحاظ سے بھی ہمیں خود مختاری کی طرف لے جائے گا۔ البتہ اس کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان کے تمام ریاستی ادارے آپس میں ہم آہنگ ہوں۔ دشمنوں کے ساتھ ملی ہوئی کالی بھیڑوں کو بے نقاب کریں۔ پاکستان کے عوام کو پوری طرح اعتماد میں لیں، حقائق ان کے سامنے رکھیں، آنے والی مشکلات کا ان کے اندر ادراک اور برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کریں۔ نیز کل اگر ہم کسی اور کی غلامی کرتے رہے ہیں تو آنے والے کل میں اپنا آقا بدلنے کے بجائے اپنا قبلہ درست کریں۔ پاکستان یقینی طور پر خوشحالی اور استحکام کی طرف گامزن ہوگا۔ /۹۸۸/ ن۹۴۰

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬