‫‫کیٹیگری‬ :
18 July 2018 - 14:41
News ID: 436639
فونت
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اسلام آباد میں کالعدم جماعت کے رہنماؤں سے ملاقات کی، اس ملاقات میں انہوں نے کالعدم جماعت کے رہنماؤں سے مسلم لیگ (ن) کیلئے "بھرپور حمایت" طلب کی۔ اس ملاقات کے بعد ہی ملک میں دھماکے اور خودکش حملے شروع ہوگئے۔ سانحہ مستونگ بھی اسی سلسلے کی کڑی دکھائی دے رہا ہے جبکہ پشاور میں ہونیوالے دھماکے کے حوالے سے بھی بلور خاندان کہہ رہا ہے کہ اس میں "ہمارے اپنے لوگ" ملوث ہیں۔
شاہد خاقان عباسی

تحریر: ابو فجر لاہوری

الیکشن 2018ء میں جہاں بہت سی مذہبی جماعتیں سیاسی میدان میں اُتر چکی ہیں، وہاں کالعدم جماعتیں بھی اپنے اثرورسوخ کو استعمال کرتے ہوئے میدان میں آچکی ہیں۔ قتل و غارت، ٹارگٹ کلنگ اور تکفیر کے بعد اب یہ کالعدم جماعتیں ایوانوں میں پہنچنے کے جو اہداف رکھتی ہیں، یہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ کراچی میں تحریک انصاف کی جانب سے شیعہ امیدوار کو ٹکٹ دینے پر اورنگزیب فاروقی کے "خیالات عالیہ" سوشل میڈیا پر وائرل ہوچکے ہیں۔ امن پسند قوتیں اب الیکشن کمیشن کی جانب دیکھ رہی ہیں کہ وہ کالعدم سپاہ صحابہ کے رہنما اورنگزیب فاروقی کی اس تقریر پر کیا نوٹس لیتا ہے، مگر ابھی تک الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے مسلسل خاموشی ہے۔ پاکستان کی امن پسند جماعتیں بھی اس بات پر تشویش کا اظہار کرچکی ہیں کہ کالعدم جماعتوں کو الیکشن لڑنے کی اجازت کس وجہ سے دی گئی ہے۔ ادھر لاہور ہائیکورٹ میں کوئی جج مولانا احمد لدھیانوی کو الیکشن لڑنے کی اجازت دینے کیلئے تیار نہیں تھا۔ ججز بھی جانتے تھے کہ مولانا احمد لدھیانوی کے نظریات، خیالات اور مقاصد کیا ہیں، یہی وجہ ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے اب تک 2 ڈویژن بنچ ان کے کیس کی سماعت سے معذرت کرچکے ہیں۔ اب کیس تیسری بار امین الدین خان کی سربراہی میں 2 رکنی بنچ کو بھیجا گیا، جس میں دوسرے جج جسٹس ساجد محمود سیٹھی ہیں۔ شہری فدا حسین وغیرہ نے مولانا احمد لدھیانوی کے کاغذات کی منظوری کے اقدام کو چیلنج کر رکھا تھا۔ اب تیسری بار اس بنچ نے اپنے فیصلے میں احمد لدھیانوی کو الیکشن میں حصہ لینے کیلئے اہل قرار دے دیا ہے۔

انسداد دہشتگردی کے ادارے "نیکٹا" نے جانے کس کے دباؤ میں انہیں الیکشن لڑنے کی اجازت دیدی ہے، حالانکہ احمد لدھیانوی اور اورنگزیب فاروقی کی متنازع تقاریر، مخالف فرقے کیخلاف کفر کے فتوے اب بھی موجود ہیں۔ تکفیریوں کو آگے لا کر ایسے حالات پیدا کئے جا رہے ہیں کہ ملک کو دوبارہ فرقہ واریت کی آگ میں جھونکا جاسکے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ اس وقت 25 سے زائد ایسے امیدوار الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں، جن کا تعلق کالعدم جماعتوں سے ہے۔ سب سے زیادہ امیدوار کراچی میں کھڑے ہیں۔ این اے 115 سے احمد لدھیانوی، پی پی 126 سے مولانا امیر معاویہ اور مسرور نواز جھنگوی، این اے 16 سے ایاز خان، این اے 45 سے نور اکبر حق یار، این اے 206 سے عبدالجبار حیدری، این اے 207 سے رشید احمد شاہ، این اے 208 سے قدرت اللہ راجپوت، این اے 210 سے مختار حسین ناریجو، این اے 237 سے محمد شعیب، این اے 238 اور 148 سے اورنگ زیب فاروقی، این اے 241 سے ڈاکٹر فرقان، این اے 258 سے حافظ نصراللہ، این اے 265 سے ولی خان، این اے 266 سے محمد رمضان مینگل اور این اے 268 سے محمد قاسم سمیت دیگر امیدوار شامل ہیں، جنہیں کلین چٹ دیدی گئی ہے۔

سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اسلام آباد میں کالعدم جماعت کے رہنماؤں سے  ملاقات کی۔ اس ملاقات میں انہوں نے کالعدم جماعت کے رہنماؤں سے مسلم لیگ (ن) کیلئے "بھرپور حمایت" طلب کی۔ اس ملاقات کے بعد ہی ملک میں دھماکے اور خودکش حملے شروع ہوگئے۔ سانحہ مستونگ بھی اسی سلسلے کی کڑی دکھائی دے رہا ہے جبکہ پشاور میں ہونیوالے دھماکے کے حوالے سے بھی بلور خاندان کہہ رہا ہے کہ اس میں "ہمارے اپنے لوگ" ملوث ہیں۔ ابھی تو یہ لوگ پارلیمنٹ میں نہیں پہنچے اور یہ صورتحال ہے، اگر یہ پارلیمنٹ میں پہنچ گئے تو ملکی حالات کیسے ہوں گے؟ الیکشن کمیشن، نگران حکومت اور محب وطن حلقوں کو اس حوالے سے غور کرنا چاہیے۔ جمعیت علمائے پاکستان (نورانی) کے سربراہ پیر معصوم نقوی کہتے ہیں کہ کالعدم جماعتوں کے سربراہوں کو الیکشن لڑنے کی اجازت ملنا ملک کو خانہ جنگی میں دھکیلنے کی منظم سازش ہے اور اس سازش میں اپنوں کا ہاتھ بھی دکھائی دے رہا ہے۔ پیر معصوم کے مطابق جب ہمارا آئین اس بات کی اجازت نہیں دیتا تو پھر کون سی قوت ہے، جس نے انہیں کلیئرنس دلائی اور یہ سیاسی میدان میں اُتر آئے ہیں۔ کیا نیکٹا کو یہ حق ہے کہ وہ اپنی مرضی سے انہیں قومی دھارے میں لانے کیلئے کلیئرنس دیتا پھرے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ عدالتوں پر بھی اس حوالے سے دباؤ نظر آ رہا ہے، مگر ہم ہائیکورٹ کے باضمیر ججز کو سلام پیش کرتے ہیں، جنہوں نے احمد لدھیانوی کے حق میں فیصلے دینے سے انکار کر دیا۔ اب اس حوالے سے نگران حکومت اور آزاد الیکشن کمیشن کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ مبارک موسوی کہتے ہیں کہ ملک کو 90ء کی دہائی میں دھکیلنے کی سازش پر عملدرآمد کیا جا رہا ہے۔ جس طرح 90ء کی دہائی میں کافر کافر کے نعرے لگتے تھے، ملک میں دہشتگردی عام تھی، مخالف فرقے کی ٹارگٹ کلنگ کی جا رہی تھی، اب بھی اسی منصوبے کی بساط دوبارہ بچھا دی گئی ہے۔ دوبارہ پاکستان بنانے والوں کو پاکستان سے نکالنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ حیرت ہے کہ یہ باتیں وہ لوگ کر رہے ہیں، جنہوں نے قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی اور قائداعظم کو کافر اعظم کہتے تھے۔ مبارک موسوی کے مطابق اس حوالے سے پوری قوم کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان تکفیریوں کا مکمل بائیکاٹ کریں۔ ہماری فوج نے دہشتگردی کیخلاف نمایاں کام کیا ہے، مگر یہ دہشتگردی کی باقیات ہیں، یہ راکھ کی چنگاری ہیں، جو زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ اس لئے فوج کو اپنے آپریشن ردالفساد اور آپریشن ضرب عضب کو مکمل کر لینا چاہیے۔ اگر یہ آپریشن مکمل نہ ہوئے اور دہشتگردوں کا صفایا نہ ہوا، تو ملک میں خدانخواستہ دوبارہ خانہ جنگی چھڑ سکتی ہے اور اس بار اگر ملک میں فرقہ واریت کی آگ بھڑکائی گئی تو یہ زیادہ خطرناک ہوگی۔ ملک کو عراق بننے سے بچانا ہوگا اور اس حوالے سے ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا ہوگا۔ مبارک موسوی کہتے ہیں اگر سکیورٹی اداروں نے اس حوالے سے غفلت کا مظاہرہ کیا تو یہ آگ پھر خاموش رہنے والوں کے گھروں تک بھی پہنچے گی۔

اطلاعات یہ بھی ہیں کہ کالعدم جماعتوں کے رہنماؤں کو کلیئرنس ایسے نہیں ملی، بلکہ ساغر صدیقی مرحوم کا یہ شعر ان کے کردار پر صادق آتا ہے کہ
بے وجہ نہیں ہیں چمن کی تباہیاں
کچھ باغباں ہیں، برق و شرر سے ملے ہوئے
تو قوم کو یہ کھوج لگانا ہوگا کہ کون کون سے ’’باغبانوں‘‘ نے برق و شرر سے ملاقاتیں کی ہیں اور ان ملاقاتوں میں کیا کیا طے کیا گیا ہے۔ سٹیج پر آکر قوم کے درد سے ہلکان ہونیوالے ان رہبروں کا محاسبہ بھی ضروری ہے۔ جب تک یہ کالی بھیڑیں قوم میں موجود رہیں گی، تب تک ملتِ مظلوم کا کچھ نہیں بننے جا رہا۔ ہمیں اس حوالے سے بھی اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہوگا۔ قیادت کا منصب بھی ایک امانت ہوتا ہے اور جو اس میں خیانت کا مرتکب ہو رہا ہے، میرے خیال میں اُسے یہ منصب چھوڑ دینا چاہیے، اس سے پہلے کہ اُسے گھسیٹ کر اس عہدے سے اُتار دیا جائے۔ دوسرا ہر شہری کو اپنے طور پر دہشتگردی کی نہ صرف مذمت کرنی چاہیئے بلکہ کالعدم جماعتوں کو قومی دھارے میں شمولیت سے روکنے کیلئے بھی آواز بلند کرنی چاہیے، اس سے پہلے کہ پاکستان عراق بن جائے قوم کو بیدار ہونا ہوگا۔ بصورت دیگر سوائے پچھتاوے کے اور کچھ نہیں بچے گا۔/۹۸۸/ ن۹۴۰

منبع: اسلام ٹائمز

 

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬