24 November 2018 - 00:27
News ID: 437730
فونت
اورکزئی اور اطراف میں خودکش حملوں کے اکا دکا واقعات اس سے پہلے بھی دیکھنے میں آئے ہیں۔ جن میں سے کئی ایک کو ناکام بنایا جاچکا ہے۔ چند سال قبل اس علاقے کی سکیورٹی کی ذمہ داری مقامی تنظیموں اور رضاکاروں نے لے رکھی تھی، سکیورٹی پر متعین رضاکاروں نے اپنی جانوں پر کھیل کر متعدد خودکش حملوں کی کوششوں کو ناکام بنا دیا تھا اور یوں عوام کی جان و مال کو مکمل تحفظ فراہم کیا تھا۔ اس دوران لشکر جھنگوی (اسلم فاروقی کے ایک گروپ) کی سازش سے تیار کردہ بارودی مواد سے بھرے ایک ٹرک کو حساس علاقے سے کئی سو میٹر کے فاصلے پر روک کر سازش کو ناکام بنا دیا گیا تھا۔
پاکستان دھماکہ

تحریر: اسد علی اورکزئی

آج بروز جمعہ اورکزئی ایجنسی کے ہیڈ کوارٹر کلایہ میں واقع مرکزی جامع مسجد و مدرسہ انوار اہلبیت (ع) کے ساتھ بھرے بازار میں ایک خودکش دھماکہ ہوا، جسکے نتیجے میں 35 افراد شہید جبکہ درجنوں دیگر شدید زخمی ہوگئے۔ شہداء کی اجتماعی نماز جنازہ آج جمعہ کے بعد 3 بجے قومی مرکز اور شیعہ جامع مسجد کے صحن میں ادا کی گئی۔ عینی شاہدین کے مطابق 11 بجے کے قریب ایک موٹر سائیکل سوار بازار میں داخل ہوا۔ اسکے بعد ایک زوردار دھماکے نے بھرے بازار کو لاشوں کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا۔ بعض دیگر کا کہنا ہے کہ دھماکہ سبزی کے ایک کریٹ میں نصب کئے گئے بارودی مواد کے نتیجے میں ہوا۔ اورکزئی اور اطراف میں خودکش حملوں کے اکا دکا واقعات اس سے پہلے بھی دیکھنے میں آئے ہیں۔ جن میں سے کئی ایک کو ناکام بنایا جاچکا ہے۔ چند سال قبل اس علاقے کی سکیورٹی کی ذمہ داری مقامی تنظیموں اور رضاکاروں نے لے رکھی تھی، سکیورٹی پر متعین رضاکاروں نے اپنی جانوں پر کھیل کر متعدد خودکش حملوں کی کوششوں کو ناکام بنا دیا اور یوں عوام کی جان و مال کو مکمل تحفظ فراہم کیا۔

اس اثنا میں لشکر جھنگوی (اسلم فاروقی کے ایک گروپ) کی سازش سے تیار کردہ بارودی مواد سے بھرے ایک ٹرک کو حساس علاقے سے کئی سو میٹر کے فاصلے پر روک کر سازش کو ناکام بنا دیا گیا۔ گذشتہ کچھ عرصہ سے جب سے علاقے کے تحفظ کی ذمہ داری فوج اور سکیورٹی اداروں نے لے رکھی ہے، علاقے میں ایسے افسوسناک واقعات رونما ہوتے رہے ہیں، جو کہ ان اداروں کی دیانتداری اور فرائض منصبی پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ بالکل اسی طرح کی صورتحال کرم ایجنسی کے ہیڈ کوارٹر پاراچنار کی بھی رہی ہے۔ وہاں بھی 2017ء تک کئی دھماکے ہوئے۔ 2007ء سے لیکر 2011 تک سکیورٹی کا انتظام مقامی رضاکاروں کے ہاتھ میں تھا۔ اس دوران چند دھماکے اگرچہ ہوئے، تاہم ان میں سے ایک سکیورٹی اہلکاروں کی ذاتی گاڑی میں نصب مواد کے  نتیجے میں ہوا تھا۔ بالکل اسی طرح اورکزئی میں بھی زیادہ نقصان سکیورٹی فورسز کے چارج لینے کے بعد ہوا ہے۔ حالیہ دھماکہ بھی ایسیے ہی حالات میں ہوا ہے۔

تحریک حسینی کے سرپرست اعلیٰ اور سابق سینیٹر علامہ سید عابد حسین الحسینی، تحریک کے صدر مولانا یوسف حسین جعفری اور ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی رہنما علامہ اقبال بہشتی نے واقعے کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ دھماکہ ذمہ دار فورسز کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ علامہ بہشتی کا کہنا تھا کہ اس سے قبل جب ذمہ داری مدرسہ اہلبیت کے ماتحت کام کرنے والے تنظیمی رضاکاروں کی تھی، کوئی دھماکہ نہیں ہوا۔ حتی کہ اسلم فاروقی کی جانب سے بھیجے گئے بارود سے بھری گاڑی کو دھماکہ کرانے سے روک کر علاقے کو ایک بڑی تباہی سے بچایا گیا۔ اسی طرح کئی دیگر کارروائیوں کو ناکام بنایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ آٹھ دس سال سے آپریشن کے نام پر، پاراچنار کی طرح جگہ جگہ چیک پوسٹیں قائم کی گئی ہیں، حالانکہ اسی عرصے میں کئی دھماکے ہوئے۔ اس سے واضح کچھ کہا تو اگلے ہی ہفتے مسنگ پرسن لسٹ میں شامل ہوجائیں گے۔ علامہ عابد حسین الحسینی کا کہنا تھا کہ اورکزئی کلایہ کی سکیورٹی کا چارج کوئٹہ طرز پر مقامی رضا کاروں کو مناسب تنخواہ پر رکھ ان کے حوالے کیا جائے۔ /۹۸۸/ ن۹۴۰

منبع:اسلام ٹائمز

 

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬