19 December 2018 - 16:00
News ID: 438930
فونت
مقبوضہ کشمیر میں ہونیوالے مظالم پر سامنے آنیوالا ردعمل ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کی قیادت نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ کشمیر کے مسئلے پر فقط روایتی بیان بازی نہیں کریگی بلکہ عملاً کشمیریوں پر ہونیوالے مظالم کو پوری دنیا کے سامنے آشکار کریگی اور تمام عالمی فورمز پر انکے حق خود ارادیت کی وکالت کریگی۔
کشمیر ثاقب اکبر

تحریر: ثاقب اکبر
 
پاکستان عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کا ایک فریق ہے لیکن مسئلہ کشمیر کے بارے میں پاکستانی حکومتوں کی پالیسیاں اونچ نیچ کا شکار رہی ہیں۔ زیادہ تر یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ریاستی مظالم پر پاکستان کی طرف سے روایتی ہمدردی کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت نے مسئلہ کشمیر پر پیش قدمی کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں گذشتہ چند دنوں میں مقبوضہ کشمیر میں جس طرح سے عام اور نہتے شہریوں کے قتل کا سلسلہ شروع ہوا ہے، پاکستان میں اس کا فوری اور اعلیٰ سطح پر ردعمل دیکھنے میں آیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے مقبوضہ کشمیر کے علاقہ پلوامہ میں بھارتی فوجیوں کی طرف سے بے گناہ کشمیری شہریوں کے قتل عام کی شدید مذمت کی ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی طرف سے کی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا معاملہ اقوام متحدہ میں اٹھائے گا اور اقوام متحدہ سے مطالبہ کرے گا کہ کشمیر میں استصواب رائے کے انعقاد کے حوالے سے اپنا وعدہ پورا کرے۔ انھوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر تشدد کے بجائے مذاکرات سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔
 
پاکستان کی قومی اسمبلی میں بھی مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی ریاستی دہشتگردی کے نتیجے میں 14 کشمیریوں کی شہادت کی مذمت کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں ایک متفقہ قرارداد منظور کی گئی۔ اس موقع پر حکومتی اور اپوزیشن ارکان نے اپنی تقاریر میں کھل کر بھارتی فوج کے مظالم کی مذمت کی اور کشمیری عوام کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اظہار کیا۔ انھوں نے عالمی سطح پر کشمیر کے حوالے سے پائی جانے والی بے حسی اور بڑی طاقتوں کی منافقانہ پالیسیوں کی بھی کھل کر مذمت کی۔ قبل ازیں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کشمیر کے مسئلے پر ایک بھرپور پریس کانفرنس منعقد کی اور اس سلسلے میں کئے گئے متعدد اقدامات سے آگاہ کیا۔ انھوں نے مستقبل میں کئے جانے والے اقدامات کا بھی ذکر کیا۔ انھوں نے کہا کہ ایک ہی دن میں مقبوضہ کشمیر میں اتنے بڑے واقعے کی مثال نہیں ملتی۔ عالمی برادری بھارتی مظالم پر آنکھیں بند کئے ہوئے ہے، مانا کہ دنیا کی ترجیحات میں کشمیر کا مسئلہ شامل نہیں ہے، لیکن وہاں انسانیت کے خلاف ظلم ہو رہا ہے، عالمی برادری کو اس کے خلاف بولنا چاہیءے۔ کسی کی جان لینا اور نابینا کر دینے سے بڑا انسانی ایشو کیا ہوسکتا ہے؟ انھوں نے کہا کہ میں امید کرتا ہوں کہ بھارتی ریاستی دہشتگردی کے خلاف عالمی برادری آواز بلند کرے گی۔ انھوں نے بتایا کہ انھوں نے اس سلسلے میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور انسانی حقوق کے کمشنر کو خطوط لکھے ہیں۔
 
انھوں نے مزید بتایا کہ سیکرٹری جنرل او آئی سی کو بھارتی مظالم پر خط لکھا اور فون بھی کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ میں نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر او آئی سی وزارتی گروپ کا اجلاس بلانے کی تجویز دی ہے اور اس سلسلے میں پیشکش کی ہے کہ پاکستان اس اجلاس کی میزبانی کے لئے تیار ہے۔ وزیر خارجہ کی اس پریس کانفرنس کے بعد اسلامی تعاون تنظیم کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کے ضلع پلوامہ میں بھارتی فوج کے ہاتھوں بے گناہ کشمیریوں کے قتل عام کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ ایک پریس ریلیز میں اسلامی تعاون تنظیم کے جنرل سیکرٹری نے اس دہشت گردانہ فعل کی مذمت کی اور عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ مسئلہ کشمیر کے اقوام متحدہ اور اسلامی تعاون تنظیم کی قراردادوں کے مطابق منصفانہ حل کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔ اسلامی تعاون تنظیم کے انسانی حقوق سے متعلق مستقل کمیشن نے کشمیری شہریوں کے خلاف تشدد کی حالیہ لہر کی مذمت کی اور بھارتی حکومت پر زور دیا کہ وہ تنظیم کے حقائق کا پتہ لگانے والے کمیشن کو مقبوضہ کشمیر کے دورے کی اجازت دے۔
 
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی مذکورہ پریس کانفرنس میں اور اس سے پہلے بھی ایک موقع پر یہ اعلان کرچکے ہیں کہ وہ 5 فروری کو کشمیری عوام کے ساتھ یکجہتی کے لئے لندن میں ایک کانفرنس منعقد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کو شرکت کی دعوت دیں گے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ برطانیہ میں بڑی تعداد میں کشمیری رہتے ہیں، اس موقع پر ہم ان کے ساتھ مل کر کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کی حمایت میں آواز بلند کریں گے اور پوری دنیا کو اس سنگین مسئلے کی طرف متوجہ کریں گے۔ حکومت اور اپوزیشن کے مختلف اکابرین نے قومی اسمبلی میں اور اسمبلی کے باہر مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی ریاستی دہشتگردی کے خلاف بھرپور آواز بلند کی ہے، جس سے یہ امر ایک مرتبہ پھر واضح ہوگیا ہے کہ کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں ہم آہنگ ہیں اور سب مل کر اسے ایک قومی ایشو سمجھتی ہیں۔

اس موقع پر شاید سب سے اہم اور بھرپور خطاب قومی اسمبلی میں انسانی حقوق کی وفاقی وزیر محترمہ ڈاکٹر شیریں مزاری کا تھا۔ انھوں نے کہا کہ حکومت مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کا روڈ میپ وضع کرے گی۔ انھوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ پاکستان کی حکومتیں صرف سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت کے روایتی بیانات تک محدود رہیں، جبکہ کشمیر میں خون بہتا رہا، اگر پلوامہ جیسے سانحات نہ ہوں تو کیا ہم مسئلہ کشمیر پر خاموش رہیں گے؟ یہ تمام واقعات اور مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم پر سامنے آنے والا ردعمل ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کی قیادت نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ کشمیر کے مسئلے پر فقط روایتی بیان بازی نہیں کرے گی بلکہ عملاً کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کو پوری دنیا کے سامنے آشکار کرے گی اور تمام عالمی فورمز پر ان کے حق خود ارادیت کی وکالت کرے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور کشمیری عوام کا موقف دنیا کے دیگر بہت سے مسائل کی نسبت زیادہ مضبوط ہے۔ بدقسمتی سے ماضی میں ہمارے حکمران اپنی کوتاہ اندیشی اور بے جراتی کی وجہ سے اس مسئلے میں قابل ذکر پیش رفت نہیں کرسکے۔ پاکستان کو داخلی طور پر مستحکم بنا کر ہماری حکومت زیادہ جرات مندی سے کشمیر کے مظلوم عوام کی وکالت کرسکتی ہے۔ /۹۸۸/ ن۹۴۰

 

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬