23 December 2018 - 20:35
News ID: 438960
فونت
اپنے روز مرہ کے معاملات حُسن و خوبی کے ساتھ نمٹائے جانے کی تاکید قرآن اور ائمہ معصومین ؑبالخصوص مولائے متقیان ؑ کی سفارشات میں شامل ہے انسان اپنے حُسنِ گفتار، اخلاق حسنہ ، عادات و اطوار سے انسان ہی نہی بلکہ پورے ملک و سماج کو بدل سکتا ہے ۔
تقی عباس رضوی تقی عباس رضوی سید تقی عباس رضوی

حجت الاسلام سید تقی عباس رضوی

 دوسروں کے ساتھ حسن اخلاق و گفتار:

رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اپنے روز مرہ کے معاملات حُسن و خوبی کے ساتھ نمٹائے جانے کی تاکید قرآن اور ائمہ معصومین ؑبالخصوص مولائے  متقیان ؑ کی سفارشات میں شامل ہے انسان اپنے حُسنِ گفتار، اخلاق حسنہ ، عادات و اطوار سے انسان ہی نہی بلکہ پورے ملک و سماج کو بدل سکتا ہے ۔

مولائے متقیان حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں:حُسنِ خلق سے بہتر کوئی چیز نہیں ...آنحضرت ؑ کی نگاہ میں  دوسروں کے ساتھ حسنِ سلوک، حسن ِ خُلق اور حُسنِ گفتار کا معاملہ رکھنا بیش بہا نعمت ہے، خدا کے محبوب بندوں کا عظیم سرمایہ  ہے ، دنیا میں امن و امان  سے رہنے کا بہترین فارمولہ ہے، تواضع و انکساری کی علامت ہے ، عزت  و  سربلندی کا وسیلہ  ہے اور لوگوں کے دلوں میں اترجانے کا بہترین ذریعہ ہے۔

مقاربة الناس فی اخلاقھم أمن من غوائلھم۔لوگوں کے ساتھ  اخلاقیات میں قربت رکھنا ان کے شر سے بچانے کا بہترین ذریعہ  ہے۔

 خَالِطُوا النَّاسَ مُخَالَطَةً إِنْ مِتُّمْ مَعَهَا بَكَوْا عَلَيْكُمْ، وَإِنْ عِشْتُمْ حَنُّوا إِلَيْكُمْ۔حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام  فرماتے ہیں : دوستانہ، اچھے تعلقات کی سفارش کرتے ہوئے فرماتے ہیں :لوگوں  میں اس طریقے سے رہو  اور  ان  سے ایسے ملو کہ اگر مرجاؤ  تو تم  پر روئیں اور زندہ رہو  تو تمہارے مشتاق  ہوں۔

حسنِ سلوک ، اچھے رفتار و گفتار اور اخلاق سے لوگ ایک دوسرے کی طرف دست تعاون بڑھاتے ہیں ، ایک دوسرے  کی عزت و توقیر کرتے اور مرجانے کے بعد ایک دوسرے کی  یاد میں  آنسو  بہاتے ہیں! یہی وہ  طرزِ معاشرت کا رول ماڈل ہے جسے مولائے  کائنات ؑ نے  پیش کیا ہے کہ انسان کو چاہیے کہ  وہ لوگوں میں اس طرح زندگی گزارے کہ کسی کو اس  سے کوئی شکایت پیدا ہو اور نہ ہی اس سے کسی کو گزند  پہنچے تاکہ اسے زندگی میں دوسروں کی ہمدردی حاصل ہو اور مرنے کے بعد بھی اسے اچھے لفظو ں میں یاد کیا جاتا رہے۔

آپؑ  فرماتے  ہیں: اپنے ملنے جلنے والے دوستوں  کی  تعداد میں  اضافہ  کرو کہ  وہ  دنیا میں  تمہارے خیرخواہ، ناصر و مددگار اور آخرت  میں  تمہاری  شفاعت  کے متمنی ہوں  گے...

با ادب طرزِ معاشرت، خوش اخلاقی و خندہ پیشانی سے دوسروں کو اپنی طرف جذب کرنا اور شیریں کلامی سے غیروں کو اپنانا کوئی دشوار چیز نہیں ہے کیونکہ اس کے لیے نہ جسمانی مشقت کی ضرورت اور نہ دماغی کد و کاوش کی حاجت ہوتی ہے اور دوست بنانے کے بعد دوستی اور تعلقات کی خوشگواری کو باقی رکھنا تو اس سے بھی زیادہ آسان ہے کیونکہ دوستی پیدا کرنے کے لیے پھر بھی کچھ نہ کچھ کرنا پڑتا ہے مگر اسے باقی رکھنے کے لیے تو کوئی مہم سر کرنا نہیں پڑتی لہٰذا جو شخص ایسی چیز کی بھی نگہداشت نہ کر سکے جسے صرف پیشانی کی سلوٹیں دور کر کے باقی رکھا جا سکتا ہے اس سے زیادہ عاجز و درماندہ کون ہوسکتا ہے!

آنحضرتؑ نے اپنے دور حکومت و خلافت میں اپنے کار گزاروں اور والیوں کے لئے جو دستورات ارسال کئے ہیں، اس میں ہر سطح کے لوگوں کے لیے رہتی دنیا تک رشد و ہدایت کا سامان موجود ہے ۔

آپؑ فرماتے ہیں : لوگوں سے عدل اور انصاف کا رویہ اپناؤ اور ان کی خواہشوں پرصبر و تحمل سے کام لو اور اس لئے کہ تم رعیت کے خزانہ دار اور امت کے نمائندے اور حکومت کے سفیر ہو۔[1]

اپنے سپہ سالار مالک اشتر کیلئے ایک خط اس وقت تحریرفرمایا جب آپؑ نے انہیں مصر کی گورنری پر منصوب فرمایا اور حکمرانوں اور حکومتی کارندوں کا عام مسلمان اور غیرمسلمان شہریوں کے ساتھ اچھا برتاؤ، بہترین حسن سلوک اور ملک کی ترقی اور پیشرفت کیلئے ان کے وظائف بھی بیان فرمائی ہیں، وہ سفارشات و دستورات جو خاص مالک اشتر کے لئے صادر فرمائی ہیں درج ذیل ہیں:

رعایا کے ساتھ حسن سلوک اور نیکی و احسان کرنے کو اپنے دل میں جگہ دو ایسا نہ ہو کہ ان کے ساتھ درندوں کی مانند سلوک روا رکھو اور انہیں کاٹ کھانا غنیمت سمجھو، کیونکہ وہ (لوگ) دو قسم کے ہیں: "اما اخ لک فی الدین اور نظیرلک فی الخلق " وہ جو تمہارے دینی بھائی ہیں اور وہ جو خلقت میں تمہارے جیسے ہیں۔[2]

اے مالک اشتر ! ہر حال میں عدل اور انصاف کی رعایت کرنا، لوگوں کی عیب‌جویی کے پیچھے نہ پڑھنا اور ان کے عیبوں کو چھپانا۔ لوگوں پرحسن ظن رکھنا، شہروں کی آبادانی کیلئے دانشوروں سے مشورہ کرنا، معاشرے کی طبقہ ‌بندی اور یہ کہ ہر طبقے کے مخصوص حقوق پر توجہ دینا، ٹیکس سے زیادہ شہروں کی آبادانی پر توجہ دینا۔ تاجروں اور صنعتگروں کے ساتھ اچھا برتاؤ، معاشرے کے نچلے طبقے کی خاص نگرانی کرنا، نماز جماعت کے دوران ضعیف اور ناتوان نماز گزار کی رعایت کرنا، بیت المال میں رشتہ داروں اور خواص کو فوقیت نہ دینا، لوگوں کی بد گمانی کو دورکرنا۔۔۔

نیز والی مکہ قثم ابن عباس کے نام جو مکتوب لکھا وہ بھی قابل غور ہے: آپ ؑ فرماتے ہیں اے قثم ابن عباس !...لوگوں کے لیے صبح و شام اپنی نشست قرار دو مسئلہ پوچھنے والے کو مسئلہ بتاؤ اور جاہل کو تعلیم دو اورعالم سے تبادلہ خیالات کرو۔ اور دیکھو لوگوں تک پیغام پہنچانے کے لیے تمہاری زبان کے سوا کوئی سفیر نہ ہونا چاہیے۔ اور تمہارے چہرے کے سوا کوئی تمہارا دربان نہ ہونا چاہیے اور کسی ضرورت مند کو اپنی ملاقات سے محروم نہ کرنا اس لیے کہ پہلی دفعہ اگر حاجت تمہارے دروازوں سے ناکام واپس کردی گئی، تو بعد میں اسے پورا کردینے سے بھی تمہاری تعریف نہ ہوگی۔ اور دیکھو! تمہارے پاس جو اللہ کا مال جمع ہو اسے اپنی طرف سے عیال داروں اور بھوکوں ننگوں تک پہنچاؤ۔ اس لحاظ کے ساتھ کہ وہ استحقاق اور احتیاج کے صحیح مرکزوں تک پہنچے..[3]

دوسروں کے ساتھ وفاداری اورعہدو پیمان کی پابندی :

معاشرتی و اجتماعی زندگی کے بنانے اور سنوارنے کا یہ نہایت ہی زرّیں اصول ہے کہ جس ملک و سماج میں زندگی بسر کی جائے وہاں اپنی وفاداری و وفا شعاری کا ثبوت اپنےعمل و کردار سے پیش کیا جائے۔ جیسا کہ آنحضرتؑ نے مالک اشتر کو یہ حکم دیا تھا: اور اگر اپنے اور دشمن کے درمیان کوئی معاہدہ کرو، یا اُسے اپنے دامن میں پناہ دو تو پھرعہد کی پابندی کرو، وعدہ کا لحاظ رکھو اور اپنے قول و قرار کی حفاظت کے لئے اپنی جان کو سپر بنا دو، کیونکہ اللہ کے فرائض میں سے ایفائے عہد کی ایسی کوئی چیز نہیں کہ جس کی اہمیت پر دنیا اپنے الگ الگ نظریوں اور مختلف خیالات کے باوجود یکجہتی سے متفق ہو، اور مسلمانوں کے علاوہ مشرکوں تک نے اپنے درمیان معاہدوں کی پابندی کی ہے۔ اس لیے کہ عہد شکنی کے نتیجہ میں انہوں نے تباہیوں کا اندازہ کیا تھا لہذا اپنے عہد و پیمان میں غداری اور قول و قرار میں بد عہدی نہ کرنا۔[4] نیز آپ ؑ  فرماتے ہیں : عہد و پیمان اور قول و قرار کی پابندی معاشرتی تعلقات کی بنیاد اور انسان کے متدین ہونے کی علامت ہے ۔[5]

دوسروں کے ساتھ ادب و احترام کی تلقین:

ادب زندگی کا آئینہ ہے جس میں انسان اپنے گرد و پیش کے تمام احوال کا مشاہدہ کرتا ہے اور اس کے ذریعے سماجی و معاشرتی مسائل کی عکاسی کرتا ہے۔ ادب، ایک قسم کا خاص اور سنجیدہ برتاو ہے جو دوسرے افراد (چھوٹے، بڑوں آشنا اور نا آشنا) سے کیا جاتا ہے اوراس کا سرچشمہ شائستہ تربیت ہے۔ عاقلانہ زندگی گزارنا اور گفتار و کردارمیں متانت اور شرافت کا مظاہرہ کرنا ادب کی نشانی ہے اور بیوقوفی، بد کلامی، تند اخلاق، گالی گلوچ، ہلکا پن ہٹ دھرمی اور عناد و غیرہ بے ادبی کے نمونے ہیں۔ "با ادب" افراد کے ساتھ نشست و برخاست کرنا، ہمارے رفتار و کردار کو "ادب" کی زینت بخشتا ہے-

ادب و احترام اور ایک دوسرے کے حقوق کی رعایت سے ہی ایک صالح اور خوشگوار معاشرہ وجود میں آتا ہے ۔ایک صالح گھر و خاندان اور سماج کے لئے ایک دوسرے کا ادب و احترام ،عزت و توقیر اور شفقت و ہمدردی کا عنصر پایا جانا ضروری ہے۔

حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں : ہر چیز عقل کی محتاج ہے اور عقل محتاج ہے ادب کا ؛ بزرگی و شرافت عقل و ادب سے ہے نہ کہ مال اور حسب سے ۔[6] اگر کوئی شخص حسب و نسب کے لحاظ سے زیادہ اہمیت کا حامل نہ ہو، مگر با ادب ہوتو شرافت پاتا ہے، ادب نا مناسب حسب و نسب کو بھی چھپاتا ہے۔ نیز آپؑ نے فرمایا ہے: اَفْضَلُ الأدبِ اَنْ یَقِفَ الإنسانُ علی حَدِّهِ و لا یَتَعدّی قَدْرَه۔ بر تر ادب وہ ہے کہ انسان اپنے حدود کی سرحدوں پر کھڑا رہے اور اپنے حدود سے آگے نہ بڑھے۔[7]

دوسروں کے ساتھ صداقت، صراحت اور  سچائی کا مظاہرہ:

انسانی معاشرے کا امن و سکون، راحت و چین اور اس کی تعمیر و ترقی کی بنیاد صداقت و سچائی پرہے۔ ایک کامیاب، صحت مند اور خوشگوار انفرادی اور معاشرتی زندگی گزارنے کے لئے صداقت و صراحت اور  سچائی کا راستہ اور اس کی رعایت کرنا نہایت ضروری ہے۔ حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں : صداقت و سچائی ایمان کے بنیادوں میں ایک اہم بنیاد ہے ۔[8]

البتہ ! صداقت شعاری کا تعلق صرف زبان کے ساتھ سچ بولنے سے نہیں ہے بلکہ پوری عملی زندگی سے ہے...حضرت  امیر المؤمنین ؑ فرماتے ہیں : بہترین سچ یہ ہے کہ زبان حال، زبان قال سے مطابقت رکھتاہو۔ یعنی: رفتار و گفتار میں یکسانیت اور ہماہنگی کا ہونا ضروری ہے، اگر لوگوں کے ساتھ آپ کے  طرزِ معاشرت  اور حسن گفتار میں صدق و سچائی کا پاس و لحاظ نہ ہو تو ہمارے آپسی تعلقات ہرگز ثمر بخش ، مفید اور پائیدار ثابت نہیں ہوسکتے۔

ابن ابی الحدید کہتے ہیں: ۔۔۔صعصعہ بن صوحان اور دیگر اصحاب نے آپؑ کے بارے میں کہا ہے کہ: "علیؑ ہمارے درمیان ہم جیسے ایک تھے اور اپنے لئے کسی امتیازی حیثیت کےقائل نہيں تھے۔۔[9]

(جاری ہے)

 

۔ نہج البلاغہ، نامہ ۵۱[1]

۔ نہج البلاغہ، نامہ ۵۳[2]

۔ نہج البلاغہ ،مکتوب ۵۳[3]

۔ نہج البلاغہ ۵۳[4]

۔قمی، عباس، سفینه‌البحار، ج۲، ص۵۴۶[5]

۔ محمدی ری‌شهری، محمد، میزان الحکمه، ج۱، ص۱۰۴[6]

غررالحکم و دررالکلم ۔[7]

۔ غررالحکم و دررالکلم، ص۲۵۵.[8]

۔ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج 1، ص 25[9]

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬