02 January 2019 - 15:24
News ID: 439040
فونت
اگر آپکو زندگی میں بہتری لانی ہے تو اپنے مشاہدات کو بہتر بنانا ہوگا اور اس کیلئے اپنے اردگرد کے ماحول کو بہتر بنائیں، اچھے لوگوں میں اٹھیں بیٹھیں، اچھی کتابیں پڑھیں اور نئی نئی اچھی چیزیں سیکھیئے۔ اس سے آپکی سوچ کو وسعت ملے گی، آپ نئے ڈھنگ سے سوچ سکیں گے اور اس سے نہ صرف نظریات میں بہتری آئیگی بلکہ ان نظریات کا معیار بھی اچھا ہوگا۔۔ ہمیں سمجھ لینا چاہیئے کہ اچھی سوچ ہی کردار سازی کرتی ہے اور یہی کردار سازی معاشرہ سازی کرتی ہے۔
 اسماء طارق


تحریر: اسماء طارق، گجرات

ہماری زندگی کی اکثر تلخیوں اور ناخوشگواریوں کی وجہ ہمارے بنائے ہوئے نظریات ہوتے ہیں اور ان نظریات کی بنیاد وہ مشاہدات ہیں، جو ہم نے اپنے اردگرد کے ماحول سے لئے ہوئے ہیں، اس لیے اردگرد کے ماحول کا اچھا ہونا بہت ضروری ہے اور ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت بھی ہے کہ جیسے ہمارے مشاہدے ہونگے ویسے ہی نظریات ہونگے۔۔ انہی نظریات کو بنیاد بنا کر ہم زندگی کے فیصلے کرتے ہیں اور یہی نظریات ہماری زندگی کا تعین کرتے ہیں۔ اس لیے اگر آپ کو زندگی میں بہتری لانی ہے تو اپنے مشاہدات کو بہتر بنانا ہوگا اور اس کے لیے اپنے اردگرد کے ماحول کو بہتر بنائیں، اچھے لوگوں میں اٹھیں بیٹھیں، اچھی کتابیں پڑھیں اور نئی نئی اچھی چیزیں سیکھیئے۔ اس سے آپ کی سوچ کو وسعت ملے گی، آپ نئے ڈھنگ سے سوچ سکیں گے اور اس سے نہ صرف نظریات میں بہتری آئے گی بلکہ ان نظریات کا معیار بھی اچھا ہوگا۔۔ ہمیں سمجھ لینا چاہیئے کہ  اچھی سوچ ہی کردار سازی کرتی ہے اور یہی کردار سازی معاشرہ سازی کرتی ہے۔ صرف یہی نہیں اچھی سوچ اور اچھے نظریات ہی اچھے انسان کی پہچان ہیں۔ اسی طرح اچھا مشاہدہ ہی اچھے نظریات کو جنم دیتا ہے، جو بہترین زندگی کا ضامن ہے۔
 
یہاں ہمیں ایک اہم معاشرتی پہلو کی طرف بھی توجہ دینی ہوگی کہ کیسے بچے غلط قدم اٹھاتے ہیں، جب انہیں ماں باپ کی طرف سے اعتماد اور بھروسہ نہیں ملتا، جب ماں باپ ان پر بھروسہ نہیں کرتے اور ہر وقت ان پر پہرہ بٹھائے رکھتے ہیں۔ اب بچے اس بے وجہ ہر وقت کے پہرے سے چڑ رہے ہوتے ہیں اور وہ تو موقع ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں کہ کیسے اس سے فرار حاصل کیا جائے۔ بچے اعتماد اور بھروسہ کی کمی کی وجہ سے  وہ وہ قدم اٹھا لیتے ہیں، جو ان کی تو زندگی کو متاثر کرتے ہیں، مگر والدین کی عزت کو  بھی نیلام کر دیتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بچوں کو والدین کی طرف سے اعتماد کم ملتا ہے، جس وجہ سے وہ اپنی باتیں والدین سے چھپاتے ہیں اور والدین سے خود کو  دور محسوس کرتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتی کہ ہمیں بچوں پر بالکل سختی نہیں کرنی چاہیئے، ہمیں بالکل انہیں سمجھانا چاہیئے، مگر اس کے ساتھ ساتھ ان پر بھروسہ بھی کرنا چاہیئے اور انہیں یہ محسوس بھی کرانا چاہیئے کہ ہمیں ان پر بھروسہ ہے، تاکہ وہ  کوئی غلط قدم اٹھانے سے پہلے دس مرتبہ سوچیں کہ وہ ان والدین کے ساتھ کیا کرنے جا رہے ہیں، جنہیں ان پر اتنا بھروسہ ہے۔ /۹۸۸/ ن۹۴۰


منبع: اسلام ٹائمز

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬