14 April 2019 - 21:05
News ID: 440173
فونت
حاکم شام کی موت واقع ہوئی اور یزید ملعون نے عنان حکومت سنبھالی تو اس نے حاکم مدینہ ولید بن عتبہ بن ابوسفیان کو دو خطوط لکھے جن میں سے ایک خط میں اپنے باپ کی موت کی اطلاع دی اور دوسرے خط میں امام حسین علیہ السلام سے بیعت طلب کرنے کو کہا ۔

رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق جب حاکم شام کی موت واقع ہوئی اور یزید ملعون نے عنان حکومت سنبھالی تو اس نے حاکم مدینہ ولید بن عتبہ بن ابوسفیان کو دو خطوط لکھے جن میں سے ایک خط میں اپنے باپ کی موت کی اطلاع اور اس کی توصیف و تعریف بیان کی۔

یزید کا دوسرا خط پیش کر رہے ہیں جس کا متن مندرجہ ذیل ہے :

''میری طرف سے ان چار آدمیوں سے بعیت طلب کرو

١۔ حسین بن علی،

٢۔ عبداللہ بن زبیر،

٣۔ عبداللہ بن عمر اور

٤۔ عبدالرحمان بن ابی بکر۔

اور اگر ان میں سے کوئی بعیت سے انکاری ہو تو اس کا سر کاٹ کے میرے پاس بھیج دو ۔ اور عام لوگوں سے بھی بعیت لے لو اور اگر ان میں سے بھی کوئی انکار کرے تو اس کے ساتہ بھی ایسا ہی کرو''

یہ خط تاریخ کی مستند ترین کتابوں میں کم و بیش اسی متن کے ساتہ نقل ہوا ہے ۔ البتہ امر واقعہ یہ ہے کہ عبدالرحمان بن ابی بکر کا اس واقعہ سے پہلے ہی انتقال ہو چکا تھا اور عبداللہ بن عمر کے سیاسی نظریات پے نظر ڈالی جائے تو ان کا بنی امیہ کے ساتہ اختلاف کا کوئی پہلو نظر نہیں آتا ۔

لہٰذا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مورخین نے عمداً ان دو ناموں کا اضافہ کیا ہے تاکہ اس خط کو باقی دو افراد (امام حسین اور ابن زبیر) کے لئے جاری کردہ خاص حکم نامے کی بجاے عمومی رنگ دیا جا سکے۔

یہ دونوں خطوط لے کر فرعون شام کے وابستگان میں سے ابن ابی زریق نامی ایک شخص نہایت تیزی سے مدینہ روانہ ہوا۔ اور حاکم مدینہ کے پاس وارد ہوا۔ ولید نے ان خطوط کو پڑھ کر کچھ رنج و غم کا اظہار کیا اور زیر لب بولا ''کاش میں پیدا نہ ہوا ہوتا'' (حوالہ۔ مقتل ابن نما)

 یزید نے ایک بہت بڑا کام میرے سپرد کیا ہے جسے میں ہرگز انجام نہ دوں گا۔ میرا حسین ابن فاطمہ (س) سے کیا جھگڑا (مشیر الاحزان)

پھر اس نے مشورے کے لئے مروان بن حکم کو بلا بھیجا۔ مروان نے جو ولید سے پہلے مدینہ کا حاکم رہا تھا، مشورہ دیا کہ ان لوگوں کو ابھی فوراً بلاؤ اور ان سے بعیت طلب کرو اور اگر یہ انکار کریں تو ان کی گردنیں اتار دو قبل اس کے کہ ان کو معاویہ کی موت کا علم ہو جائے اور ان میں سے ہر شخص خلافت کے لئے اٹھ کھڑا ہو۔ اور جہاں تک عبداللہ بن عمر کا مسلہ ہے تو وہ اس امر میں کوئی نزاع نہیں کریں گے البتہ حسین بن علی قطعاً بعیت نہیں کریں گے اور اگر تمہاری جگہ میں ہوتا تو حسین سے بعیت بھی طلب نہ کرتا بلکہ ان کی گردن کاٹ دیتا پھر جو ہوتا دیکھا جاتا ۔

مشاورت کے بعد طے پایا کہ حسین بن علی اور ابن زبیر کو بلایا جائے لہٰذا ایک جوان عبداللہ بن عمرو بن عثمان نامی کو ان دونوں کی طرف بھیجا گیا ۔ امام حسین اور عبداللہ بن زبیر اس وقت مسجد میں تھے۔ اس نے ولید کا پیغام ان کو دیا۔ جواب میں ان دونوں نے اس کو یہ کہہ کر بھیج دیا کہ تم جاؤ ہم آتے ہیں۔ پھر امام حسین نے ابن زبیر سے فرمایا۔ میرا خیال ہے کہ ان کا طاغی مر گیا ہے۔ قاصد نے واپس آکر امام کے جواب سے ولید کو مطلع کیا تو مروان بولا :

''خدا کی قسم حسین تمہیں دھوکہ دے گئے ہیں ۔ اب وہ نہیں آئیں گے''۔

ولید نے کہا، چپ رہو، حسین جیسے لوگ کبھی دھوکا نہیں دیتے۔

مسجد سے امام حسین گھر تشریف لائے اور گھر کے افراد کو اس صورت حال سے آگاہ کیا۔ بنو ہاشم کے جوانوں کو امام نے حکم دیا کہ وہ دارالامارہ کے دروازے پر رہیں گے جب کہ میں اندر جاؤں گا اور بات چیت کروں گا اور اگر تم دیکہو کہ میری آواز بلند ہو گئی ہے تو تم لوگ اندر داخل ہو جانا اور تلواریں کھینچ لینا اور پھر جو بھی سامنے آے اسے قتل کر دینا۔

امام گھر سے برآمد ہوے، آپ کے ہاتہ میں رسول اکرم (ص) کا عصا تھا۔ آپ کے ساتھ خاندان بنو ہاشم کے تیس افراد دارالامارہ گئے جن میں سرکردہ امام زین العابدین اور حضرت عباس علمدار تھے۔

دارالامارہ کے دروازے پے پہنچ کے امام نے جوانوں کو حکم دیا کہ وہ یہیں رکیں اور جو ہدایات ان کو دی گئی ہیں ان سے تجاوز نہ کریں۔ پھر امام اندر تشریف لے گئے اور سلام کے بعد تشریف فرما ہوے۔ ولید نے امام کو معاویہ کی موت کی خبر دی اور یزید کا خط پڑھ کر سنایا۔ امام نے طلب بعیت کے سلسلے میں ارشاد فرمایا کہ ''جہاں تک بعیت کی بات ہے تو مجھ جیسا شخص خفیہ بعیت نہیں کیا کرتا اور نہ مجھ جیسے شخص سے یہ کافی ہوگی، جب تم لوگوں کو بعیت کی دعوت دو گے اور ہمیں بھی دعوت دو گے تو اس کام میں وحدت ہوگی''

ولید نے اسی جواب میں اپنی عافیت جانی۔ اس نے کہا ٹھیک ہے آپ ابھی تشریف لے جائیں۔ اس پر مروان نے کہا، اگر یہ اس وقت تمہارے پاس سے بعیت کئے بغیر چلے گئے تو پھر یہ تمہارے ہاتھ نہیں آئیں گے۔ لہٰذا انکو روکو اور بعیت لو ورنہ ان کی گردن کاٹ دو۔ یہ سن کر امام اپنی جگہ سے اٹہے اور فرمایا :''اے پسر زرقا''، کیا تو مجہے قتل کرے گا۔ یا یہ (ولید) کرے گا؟''

امام کی آواز کا بلند ہونا تھا کہ دارالامارہ کا دروازہ ایک زور دار آواز سے اکھڑ کر دور جا گرا اور جوان اندر داخل ہو گئے۔ امام نے ان سب کو روکا اور ان کا جوش فرو کیا اور ان کو لے کر دارالامارہ سے باہر تشریف لے آے۔ پھر ان سب کو ان کے گھروں کی طرف روانہ کیا اور گھر تشریف لے آے۔

(١۔ رمز المصیبتہ ٢۔ حدیث کربلا ٣۔ تقویم شیعہ)

حاکم شام کی موت کس تاریخ کو ہوئی ؟ : 

یزید ملعون، معاویہ کی موت (جو کہ مورخین نے 15 رجب بیان کی ہے) کے وقت جبل حوران یا جبل جولان میں شکار کھیل رہا تھا جب اس کو باپ کی موت کی خبر دی گئی تو اس نے شکار کھیلنا ترک نہ کیا اور موت کے تیسرے دن جب کہ اسے دفنایا جا چکا تھا دمشق پہنچا۔ پھر باپ کی قبر پے گیا اور چند شعر کہے اور واپس محل میں آکر بند ہو گیا۔ پھر تیسرے دن باہر نکلا اور مختلف احکامات جاری کیے۔ اس سارے عمل میں چہ دن کا وقت لگا جو کہ 20 یا 21 رجب تک بنتا ہے۔

15 رجب سے لے کر 27 رجب تک کل 13 دن کا وقت بنتا ہے۔ جب کہ یزید پہلے ہی چہ دن گزار چکا ہے اور باقی 7 دن بچتے ہیں۔ کچہ مورخین نے طلب بیعت کا واقعہ 26 رجب کو تحریر کیا ہے۔ تاہم 26 رجب تک ان 13 دنوں میں سے مزید ایک دن کم ہو جاتا ہےشام سے مدینہ کے فاصلے کو ذہن میں رکہا جائے تو قاصد کا باقی سات یا چہ دن میں دمشق سے مدینہ پہنچنا ممکن نہیں لہٰذا ان تمام امور کو ذہن میں رکہا جائے تو پھر حاکم شام کی موت 10 رجب سے پہلے ہوئی ہے 15 کو نہیں۔

مورخین کے درمیان اس امر میں اختلاف ہے کہ امام نے طلب بیعت کے واقعہ کے بعد کتنی راتیں مدینہ میں گزاریں۔ کچھ نے کہا ہے کہ ولید کے امام کو دارالامارہ میں طلب کرنے کی ہی رات امام کا قیام مدینہ میں رہا ہے۔ علامہ مجلسی نے بحار الانوار میں دو مقامات پر دو راتوں کا تذکرہ کیا ہے ۔ عباس قمی نے نفس المہموم میں امام کی قبر رسول پر دو راتوں میں حاضری بیان کی ہے۔ عبداللہ بحرانی نے مدینتہ المعاجز میں بھی دو راتیں ہی تحریر کی ہیں ۔ آیت اللہ سید محمود دہ سرخی نے رمز المصیبتہ میں بھی دو ہی راتیں تحریر کی ہیں۔

مشہور قول کے مطابق طلب بیعت کا واقعہ 27 رجب کا ہے اور امام نے قبر رسول پر پہلی حاضری اسی رات دی جب کہ ہاشمی جوانوں کو دارالامارہ سے گھر رخصت کیا اور خود گھر تشریف لاے اور پھر سب کو دلاسا دے کر کچہ دیر بعد رسول اللہ کی تربت پے تشریف لے گئے۔ نانا کی قبر پے پہنچ کے امام اپنے نانا سے مخاطب ہوے۔

'' یا رسول اللہ آپ پر سلام ہو میں حسین ابن فاطمہ ہوں۔ آپ کا اور آپ کی بیٹی کا فرزند ہوں۔ میں آپ کا وہ نواسہ ہوں جسے آپ نے امت میں اپنی جگہہ پر چہوڑا ہے۔ یا نبی اللہ آپ ان پر گواہ ہیں کہ انہوں نے مجہے پست کر دیا ہے ان لوگوں نے مجہے ضایع کر دیا اور میری حفاظت نہیں کی۔ یہ آپ کی خدمت میں میری شکایت ہے یہاں تک کہ میں آپ سے ملاقات کروں گا'' ۔

یہ فرما کر امام حسین کھڑے ہو گئے اور نمازیں پڑھتے رہے یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ ولید نے آدمی بھیج کر امام کا پتہ لگایا کہ وہ کہاں ہیں۔ جب اسے خبر دی گئی کہ وہ گھر میں نہیں ہیں تو اس نے یہ سمجھ کر کہ آپ مدینہ سے نکل گئے ہیں شکر ادا کیا کہ اس کی آزمائش ختم ہوئی۔

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬