24 April 2019 - 11:04
News ID: 440245
فونت
وزیراعظم پاکستان کے ایران کے دو روزہ دورے کے بارے میں آنیوالی رپورٹیں بہت حوصلہ افزا ہیں اور دونوں طرف اس احساس کا اظہار کرتی ہیں کہ دونوں ملکوں کے مابین تعلقات اور روابط کو آگے بڑھانے کی بہت گنجائش موجود ہے ۔

تحریر: ثاقب اکبر

وزیراعظم پاکستان عمران خان کا ایرانی صدر ڈاکٹر حسن روحانی کی دعوت پر کیا جانے والا دو روزہ دورہ کل (22 اپریل 2019ء کو) تعمیری فیصلوں اور خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام کو پہنچا۔ دورے کے اختتام پر ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا ہے، جس کے مطابق پاک ایران قیادت نے ہر قسم کی انتہا پسندی اور دہشتگردی کی مذمت کی ہے۔ دہشتگردی کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کوششوں کو قابل تعریف قرار دیا گیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے ایرانی صدر سے ملاقات کے موقع پر فلسطینی عوام سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی عوام کا خود مختار ریاست کا مطالبہ تسلیم کیا جانا چاہیئے۔ دونوں ملکوں نے فلسطین کو آزاد ریاست قائم کرنے پر مدد فراہم کرنے پر اتفاق کیا۔ دونوں راہنماﺅں کی ملاقات کے موقع پر وزیراعظم پاکستان نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے اور گولان ہائٹس کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کرنے کے امریکی فیصلے کی مخالفت کی۔ انھوں نے کہا کہ اس طرح کے فیصلوں سے خطے میں مزید بدامنی پیدا ہوگی۔

وزیراعظم عمران خان نے فلسطین اور کشمیر کو ایک جیسے مسائل قرار دیا اور کہا کہ دونوں خطوں کے عوام جبر اور ظلم کا شکار ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ 1972ء میں بھی ایران میں آئے تھے، اس وقت امیر اور غریب میں بہت زیادہ فرق تھا لیکن انقلاب کے بعد اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس فرق میں بہت زیادہ کمی آئی ہے، ایسا ہی انقلاب ہم پاکستان میں بھی چاہتے ہیں۔ پاکستان اس وقت شدید مشکلات میں سے گزر رہا ہے، امید ہے کہ چند ماہ تک ہم اس سے نکل جائیں گے۔ ہم بھی اپنے امیر اور غریب طبقے کے مابین فاصلوں کو کم کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی سرزمین سے ایران کو کوئی نقصان نہیں پہنچنے دیں گے۔ ہمیں علم ہے کہ بہت سے ایسے واقعات ہوچکے ہیں جن میں پاکستان سے آنے والے دہشتگردوں نے ایران میں کارروائیاں کی ہیں۔ پاکستان میں بھی چند روز قبل دہشت گردوں نے سییورٹی کے چودہ اہلکاروں کو قتل کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران کا دورہ کرنا دوریاں اور فاصلے ختم کرنے کے لیے ہے۔

مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ انسانی حقوق کے خطرات سے نمٹنے کے لیے تعاون بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں دونوں ممالک کی وزارت داخلہ کا اہم سکیورٹی اجلاس طلب کر لیا گیا ہے۔ خصوصی کمیٹی کا دسواں اجلاس پاکستان میں بلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اور ایران کے درمیان تاریخی، ثقافتی اور مذہبی تعلقات ہیں۔ قومی مفادات پر مبنی مختلف شعبوں میں تعاون بڑھایا جائے گا۔ وزیراعظم پاکستان کی جانب سے پاکستانی قیدیوں کی رہائی کے لیے ایرانی اقدامات کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔ اعلامیے کے مطابق بلوچستان میں نیا پاک ایران بارڈر کراسنگ سسٹم متعارف کروانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، جو مقامی معیشت کے لیے سازگار ہوگا۔ پاک ایران بارڈر پر مسائل اور چیلنجز کو کم کرنے کے لیے مزید اقدامات کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔

دونوں ممالک میں توانائی کے شعبے میں بھی تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا گیا۔ ضرورت پڑنے پر پاکستان ایران سے بجلی درآمد کرے گا۔ بلوچستان میں بجلی کی فراہمی پر پاکستان نے ایرانی حکومت کا شکریہ ادا کیا۔ دونوں ممالک نے سیاسی، فوجی اور سکیورٹی حکام کے وفود کے تبادلے پر بھی اتفاق کیا۔ دونوں ممالک نے تعلیم، سیاحت اور ثقافتی روابط کو فروغ دینے کے عزم کا اظہار کیا۔ دانشور، فنکار اور آرٹسٹ پاک ایران دورے کریں گے۔ اس موقع پر وزیراعظم عمران خان نے ایران میں حالیہ سیلاب سے جانی و مالی نقصان پر اظہار افسوس کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان مشکل وقت میں ایران کی مدد کے لیے تیار ہے۔ ایرانی حکومت نے مدد فراہم کرنے پر پاکستانی حکومت کا شکریہ ادا کیا۔ دونوں ممالک میں صحت کے شعبے میں تعاون کے معاہدوں پر دستخط بھی ہوئے۔ پاکستان اور ایران میں تجارتی سرگرمیوں کے فروغ پر بھی اتفاق کیا گیا۔

مشترکہ ملاقات کے موقع پر ایرانی صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جوائنٹ رپیڈ ری ایکشن فورس بنائی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم پاکستان نے مجھے دورہ پاکستان کی دعوت دی ہے، جو میں نے قبول کر لی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور ایران کے برادرانہ تعلقات پر کوئی اثرانداز نہیں ہوسکتا۔ ڈاکٹر روحانی نے کہا کہ ایران نے اپنی سرحد تک گیس پائپ لائن بچھا لی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم نے خطے کے دیگر مسائل پر بھی بات چیت کی ہے۔ افغانستان کے معاملے پر بھی بات ہوئی ہے۔ ہم گوادر اور چاہ بہار بندرگاہ کے درمیان رابطے کا فروغ چاہتے ہیں۔ تجارتی حجم میں مزید اضافے کے خواہشمند ہیں۔ دونوں ممالک دو طرفہ تعلقات کو مزید مستحکم بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔

دورے کے دوران میں وزیراعظم پاکستان نے ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ سید علی خامنہ ای سے بھی ملاقات کی۔ رہبر انقلاب اسلامی نے وزیراعظم عمران خان کے دورہ ایران کی ابتداء مشہد مقدس میں روضہ امام علی ابن موسیٰ رضا علیہ السلام کی زیارت سے کرنے کو باعث خیر و برکت قرار دیتے ہوئے کہا کہ مولا امام رضا علیہ السلام کی عنایات کے طفیل یہ سفر دونوں ممالک کے لیے مفید اور سازگار ثابت ہوگا۔ آیت اللہ خامنہ ای نے اس موقع پر کہا کہ دونوں ممالک کا مفاد بہترین تعلقات میں ہے، لیکن یہ روابط دشمنوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتے، اس کے باوجود مختلف شعبوں میں تعاون کو بہتر بنانا اور تعلقات کو تقویت دینا ضروری ہے۔ انہوں نے سرحدوں پر سکیورٹی مسائل کے حوالے سے کہا کہ بدامنی پھیلانے والے دہشتگرد گروہ ہمارے دشمنوں سے پیسہ اور اسلحہ حاصل کرتے ہیں، جن کا مقصد پاک ایران تعلقات میں الجھنیں پیدا کرنا ہے۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اس موقع پر کہا کہ برصغیر پاک و ہند پر برطانوی قبضے کا زمانہ اس خطے کی لوٹ مار کے عروج کا زمانہ تھا اور کہا کہ برطانیہ نے برصغیر پاک و ہند کی تمام تر دولت کو لوٹ لیا، وہاں کے تعلیمی نظام کو برباد کیا اور برصغیر پاک و ہند کو سونے کی چڑیا سمجھ کر اپنی کالونی بنا لیا۔

مختصر یہ کہ وزیراعظم پاکستان کے ایران کے دو روزہ دورے کے بارے میں آنے والی رپورٹیں بہت حوصلہ افزا ہیں اور دونوں طرف اس احساس کا اظہار کرتی ہیں کہ دونوں ملکوں کے مابین تعلقات اور روابط کو آگے بڑھانے کی بہت گنجائش موجود ہے اور دونوں نے اس سلسلے میں ایک حکمت عملی پر اتفاق کر لیا ہے۔ یہ حکمت عملی عالمی صورتحال کو سامنے رکھ کر بنائی گئی ہے۔ عالمی حالات اور علاقائی مسائل کے بارے میں دونوں ملکوں کے مابین ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ دونوں ملکوں میں یہ احساس موجود ہے کہ پاکستان اور ایران کے مابین غلط فہمیاں پیدا کرنے کے لیے بعض قوتیں متحرک ہیں، جن کو لگام دینے کے لیے ایک میکانیزم پر اتفاق کر لیا گیا ہے۔ تاہم اس سلسلے میں سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے، چونکہ دشمن بھی بھاری سرمایہ کاری کے ساتھ اپنے منحوس مشن کو آگے بڑھانے میں سرگرم عمل ہے۔

اگر باہمی روابط میں رخنے سے بچنے کا عزم دونوں طرف موجود ہو تو طے شدہ معاملات کو تیز رفتاری سے آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ دونوں ملکوں کے مابین 904 کلو میٹر پر مشتمل سرحد ہے، جس میں بلوچستان کے چاغی کے علاوہ واشک، پنجگور، کیچ، تربت اور گوادر کے اضلاع شامل ہیں۔ پاکستان نے جس طرح مشکل ترین حالات میں افغانستان سے ملنے والے بارڈر پر باڑ لگانے کے منصوبے کو تقریباً پایہ تکمیل تک پہنچا لیا ہے، ایران پاکستان کے مابین بھی اس باڑ کی ضرورت موجود ہے، تاکہ دہشتگردوں کو ان کے ناپاک عزائم میں ناکام بنایا جاسکے۔ موجودہ روابط اور دورے کی خوشگوار فضا کے بارے میں ہم کہہ سکتے ہیں:

ہم وہاں جاتے رہے وہ یہاں آتے رہے
”جب گلے سے مل گئے سارے گلے جاتے رہے“
کائیں کائیں کرنے والے پھڑ پھڑاتے رہ گئے
خوش ترنم نغمہ خواں میٹھی غزل گاتے رہے

/۹۸۸/ ن

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬