‫‫کیٹیگری‬ :
26 April 2019 - 22:56
News ID: 440257
فونت
حجت الاسلام سید نیاز حسین نقوی:
وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے نائب صدر نے کہا کہ کربلاء کا سانحہ کوئی اچانک واقعہ نہیں بلکہ بنو امیہ کا طے شدہ منصوبہ تھا۔

رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے نائب صدر حجت الاسلام سید نیاز حسین نقوی نے کہا ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی شخصیت اور عظمت باقی آئمہ معصومین ؑسے منفرد اور مختلف ہے۔

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ قرآن مجید میں 128 تا 260 آیات ایسی ہیں، جو بالواسطہ یا بلاواسطہ اہلبیت ؑ کی شان میں ہیں، لیکن افسوس کچھ مفسرین اس کا اعتراف کرنے کی بجائے مختلف تاویلیں کرتے ہیں۔ فقط آیت مباہلہ ہی کو تسلیم کیا جاتا ہے، کیونکہ اس میں کوئی دوسری تاویل و تفسیر نہیں کرسکتے۔ امام حسین ؑ نے اپنے نانا کے ساتھ بچپن گزارا۔ اس دور کے واقعات معمول سے ہٹ کر ہیں۔ حالت سجدہ میں رسول اللہ کی پشت مبارک پر بیٹھنا اور آنحضور کا امام حسین ؑ کیلئے سواری بننا نہایت غیر معمولی واقعات ہیں۔ بقائے اسلام کیلئے آپ ؑ کی قربانی کی مثال نہیں ملتی۔ کربلاء کا سانحہ کوئی اچانک واقعہ نہیں بلکہ بنو امیہ کا طے شدہ منصوبہ تھا۔

علی مسجد جامعۃ المنتظر میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے علامہ نیاز نقوی نے کہا کہ شام میں حضرت علی ؑ پر سرکاری طور پر منبروں سے سب و شتم کیا جاتا تھا، ان حالات میں یزید کو اقتدار پر لانے کا منصوبہ بنایا گیا، اگر امام حسین ؑ مدینہ نہ چھوڑتے اور آپ کی شہادت مدینہ ہی میں واقع ہوتی تو نتائج و اثرات ویسے نہ ہوتے جیسے کربلاء کے سانحہ کے بعد ہوئے۔ ذکر حسین اور حسینیت سے وابستگی شیعیت کا ایک اعزاز ہے۔ انہوں نے کہا کہ سری لنکا میں ہونیوالی دہشتگردی حد درجہ قابل مذمت اور افسوسناک ہے۔

اس سے قبل کوئٹہ کوسٹل ہائی وئے بلوچستان میں بھی دہشتگردی کے واقعات نہایت دلخراش ہیں، وزیراعظم عمران کا دورہ ایران اطمینان بخش اور اسلامی جمہوریہ کی طرف سے گیس، تیل اور بجلی کی ضروریات مہیا کرنے کی پیشکش نہایت حوصلہ افزاء ہے، جبکہ بعض متعصب سیاستدانوں اور مضمون نگاروں کے غیر حقیقی الزامات ملکی مفاد میں نہیں ہیں۔

سعودی عرب، قطر وغیرہ کی طرف سے امداد سے کہیں زیادہ قریبی ہمسائے ایران کا تعاون ہمارے لیے زیادہ مفید اور قابل قدر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب میں 37 افراد کا سرقلم کرنے کی دنیا بھر میں مذمت کی جا رہی ہے، ان میں قطیف کے چند شیعہ اور اہلسنت افراد بھی شامل ہیں۔ اس سفاکانہ ظلم کا مقصد عوام کو خائف کرنا اور شاہی ظلم و ستم کیخلاف آواز حق بلند نہ کرنے کیلئے ڈرانا ہے، لیکن حق کی بات مظالم سے نہیں روکی جا سکتی۔

ان کا کہنا تھا کہ بنو عباس اور بنو امیہ کے درمیان کچھ قدریں مشترک ہیں اور بعض میں اختلاف ہے۔ بنو عباس کی زیادہ ترجیح حکومت اور اقتدار تھا، جبکہ بنو امیہ حکومت و اقتدار کی خواہش کے علاوہ اسلام دشمنی میں بھی پیش پیش تھے۔ اسلام کے آغاز میں بنو امیہ کے جن چند افراد نے ظاہری طور پر اسلام قبول کیا، درحقیقت وہ مسلمانوں کی صفوں میں داخل ہو کر اسلام کو نقصان پہنچانے کیلئے تھا۔ اس ضمن میں ابو سفیان کا کردار اور بیانات بہت واضح ہیں۔

چنانچہ بنو امیہ کی تمام کوششیں یہی رہیں کہ اہلبیتِ پیغمبر کو ان کا حق نہ دیا جائے اور اس مقصد کیلئے یا تو وہ انہیں قتل کرتے رہے یا گوشہ نشینی کے حالات پیدا کرتے رہے۔ 132 سال تک بنو امیہ نے حکومت کی، جس میں معاویہ کا 22 سالہ دورِ حکومت بھی شامل ہے۔ شام میں تعلیمات ِنبوی کو عام نہیں ہونے دیا گیا۔ ماہِ شعبان میں حضرت امام مہدی علیہ السلام کی ولادت کے حوالے سے بیان کرتے ہوئے علامہ نیاز نقوی نے کہا کہ کئی لوگوں کے کئی نظریات ہیں۔

انہوں نے وضاحت کی : بعض کا کہنا ہے کہ یہ پیدا ہی نہیں ہوئے اور بعض کا خیال ہے کہ پیدا ہو کر فوت ہوگئے۔ اس کی اہم وجہ اس امام اور دیگر آئمہ ؑ کی پیدائش اور زندگی کے حالات میں فرق ہے۔ دیگر آئمہ کی پیدائش اور زندگی کے مختلف مراحل لوگوں کے سامنے رہے، پھر ان کی شہادت بھی ہوئی، لیکن اس امام کی خفیہ طریقے سے پیدائش اور پھر غیبت دو اہم باتیں ہیں، جس کی وجہ سے یہ شکوک پیدا ہوئے۔ اس امام کی پیدائش کو مخفی رکھا گیا، کیونکہ آئمہ ؑ نے فرمایا تھا کہ آنیوالا یہ امام ظلم کا مقابلہ کرے گا، لہٰذا ظالم بادشاہ آپ کی پیدائش سے ہی خائف تھے۔

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬