01 May 2020 - 22:39
News ID: 442625
فونت
یہ بات ایک دنیا کو معلوم ہے کہ حزب اللہ کا جرم امریکا اور اسکے حواریوں کی نظر میں اسکے سوا کچھ نہیں کہ اس نے اسرائیل کو لبنان کی سرزمین سے نکل جانے پر مجبور کیا اور وہ علاقے میں صہیونی مقاصد کیخلاف ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی حیثیت رکھتی ہے۔

تحریر: ثاقب اکبر
​​​​​​​
جرمن حکومت نے جمعرات 30 اپریل 2020ء کو ایک بیان جاری کیا ہے، جس کے مطابق اس نے لبنان کی سیاسی جماعت حزب اللہ کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی عائد کر دی ہے اور جرمنی میں اس کی ہر طرح کی فعالیت کو ممنوع قرار دے دیا ہے۔ اس اعلان کے بعد جرمن پولیس نے ان لبنانی شہریوں کے خلاف کارروائی شروع کر دی ہے، جن کے بارے میں اسے شک ہے کہ ان کا حزب اللہ سے رابطہ ہے۔ جرمن پولیس نے مختلف مساجد اور گھروں پر چھاپے مار کر متعدد افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ جرمنی میں حزب اللہ کے ایک ہزار پچاس کارکن موجود ہیں۔ جرمن حکومت کے اس فیصلے کو اسرائیل اور امریکا نے سراہا ہے۔ مسلمان ممالک میں سب سے پہلے اس اقدام کی سعودی عرب نے حمایت کی ہے۔ سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں جرمنی کی طرف سے حزب اللہ کو دہشت گرد قرار دیئے جانے کے فیصلے کا استقبال کیا ہے اور دیگر ممالک سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ بھی بین الاقوامی سکیورٹی کے تحفظ کے لیے ایسا ہی اقدام کریں، تاکہ اس طرح علاقے اور ساری دنیا کو دہشت گردانہ اقدامات سے محفوظ رکھا جاسکے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب جرمنی کے اس اقدام کو خوش آئند قرار دیتا ہے، جس کے مطابق حزب اللہ کو دہشت گرد گروہوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے اور جرمنی میں اس کی ہر طرح کی فعالیت کو ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ جرمن وزیر خارجہ نے اپنی حکومت کے اس فیصلے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ حزب اللہ اسرائیل کو ایک جائز ریاست نہیں سمجھتی، اس لیے اسے غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سعودی عرب پہلے ہی اخوان المسلمین، حماس اور حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیمیں قرار دے چکا ہے۔ سعودی عرب میں اخوان المسلمین اور فلسطین کے بہت سے افراد جیلوں میں ہیں۔ ان دنوں حماس کی قیادت سعودی عرب سے اس سلسلے میں رابطہ کر رہی ہے کہ وہ ان فلسطینیوں کو آزاد کرے، جنھیں حماس کی حمایت کے جرم میں گرفتار کیا گیا ہے۔ سعودی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ لوگ سعودی عرب سے چندہ اکٹھا کرکے حماس کو بھجواتے ہیں۔

سعودی عرب کے اسرائیل کے ساتھ زیر زمین گہرے اور تزویراتی روابط کی وجہ سے ہی اس نے مذکورہ تنظیموں پر پابندی عائد کر رکھی ہے اور انہیں دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے۔ مصر میں اخوان المسلمین کی حکومت کے خاتمے کے لیے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے مصری فوج کو برسر اقتدار لانے کے لیے بڑے پیمانے پر مالی امداد فراہم کی تھی۔ دریں اثنا ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے حزب اللہ کے خلاف جرمن حکومت کے اقدام کو صہیونی حکومت اور امریکا کی پیروی قرار دیتے ہوئے اس کی سخت مذمت کی ہے۔ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان سید عباس موسوی نے کہا ہے کہ ظاہراً بعض یورپی ممالک مغربی ایشیا کے حقائق کو پیش نظر رکھے بغیر صہیونی حکومت کے پراپیگنڈا اور حواس باختہ امریکی حکومت کے موقف کو سامنے رکھ کر فیصلے کرتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ جرمن حکومت کا یہ فیصلہ لبنانی حکومت اور قوم کی توہین پر مبنی ہے، کیونکہ حزب اللہ اس ملک کی حکومت اور پارلیمان کا ایک قانونی حصہ ہے اور اس نے ملک کے استحکام کے لیے ہمیشہ ایک سیاسی جماعت کی حیثیت سے موثر کردار ادا کیا ہے، نیز اسے لبنانی اور علاقے کے عوام کی وسیع حمایت حاصل ہے۔ یہ بات ایک دنیا کو معلوم ہے کہ حزب اللہ کا جرم امریکا اور اس کے حواریوں کی نظر میں اس کے سوا کچھ نہیں کہ اس نے اسرائیل کو لبنان کی سرزمین سے نکل جانے پر مجبور کیا اور وہ علاقے میں صہیونی مقاصد کے خلاف ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی حیثیت رکھتی ہے۔ حزب اللہ نے شام میں بھی دہشت گرد گروہوں کا مقابلہ کیا۔ اس نے شامی سرزمین کو امریکا اور اس کے لے پالک خون خوار دہشتگرد حواریوں سے آزاد کروانے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جرمنی کے حزب اللہ کے خلاف اقدام کو شامی حکومت نے بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور اسے مسترد کر دیا ہے۔

صنعا میں قائم یمنی حکومت نے بھی جرمن حکومت کے اس فیصلے کی مذمت کی ہے اور اسے صہیونی حکومت کی خوشنودی کے لیے اٹھایا جانے والا اقدام قرار دیا ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ یمن میں انصار اللہ کی حکومت پہلے دن سے ہی امریکی استعمار اور صہیونی استبداد کے خلاف رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حزب اللہ اور انصار اللہ کے مابین بہت اچھے مراسم موجود ہیں۔ یہیں سے یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے امریکا اور اسرائیل کے ایما پر یمن پر جنگ کیوں مسلط کر رکھی ہے۔ اس ساری صورت حال سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا اور اس کے یورپی اتحادی اگرچہ اس وقت کرونا کی ہولناک وبا کے شدید دور سے گزر رہے ہیں، لیکن وہ اپنے استعماری مقاصد سے ہرگز غافل نہیں ہیں۔ بظاہر دکھائی نہیں دیتا کہ کرونا کی اس وبا نے انہیں اپنے وحشیانہ استعماری طرز عمل پر نظرثانی کے لیے آمادہ کیا ہو۔ شاید ابھی جو کچھ قدرت کی طرف سے ان کو جگانے کی تدابیر کی جا رہی ہیں، وہ ان کے لیے ناکافی ہیں۔ ظاہر ہے اگر کرونا کی وبا وحشت آفریں انسانوں کو ظلم و ستم سے روکنے کے لیے کافی نہ ہوئی تو پھر پروردگار کی طرف سے اس سے بھی کوئی سخت تازیانہ ان کے سروں پر برسے گا، کیونکہ دنیا کو بہرحال تبدیل ہونا ہے۔ اس زمین پر آخر کار حق کی حکمرانی قائم ہو کر رہے گی۔/۹۸۸/ن

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬