12 May 2020 - 02:52
News ID: 442701
فونت
 یوں تو پورے سال میں بہت سی راتیں ہیں لیکن سب ایک جیسی نہیں ہیں ان میں سے بہت سی ایسی راتیں ہیں جن کی اہمیت اور فضیلت دوسری راتوں سے زیادہ ہے ،جتنی بھی  فضیلت والی راتیں ہیں سب کے اپنے مخصوص اعمال ہیں جنھیں کتا بوں میں ذکر کیا گیا ہے۔

تحریر: حجت الاسلام سید ظفر عباس رضوی(قم المقدسہ ایران)

یوں تو پورے سال میں بہت سی راتیں ہیں لیکن سب ایک جیسی نہیں ہیں ان میں سے بہت سی ایسی راتیں ہیں جن کی اہمیت اور فضیلت دوسری راتوں سے زیادہ ہے ،جتنی بھی  فضیلت والی راتیں ہیں سب کے اپنے مخصوص اعمال ہیں جنھیں کتا بوں میں ذکر کیا گیا ہے ، انہیں راتوں میں سے ایک رات شب نیمہ شعبان ہے جس کی ایک خاص اہمیت ہے ، لیکن ان  ساری راتوں میں ایک رات ایسی بھی ہے جو تقدیر کی رات ہے ، جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے ، جس رات میں انسا ن کے اعمال پہ مہر لگتی ہے  ، جس میں   مقررات الہی طی ہوتے ہیں ، جس میں تقدیر لکھی جاتی ہے ، جس میں ملائکہ نازل ہو تے ہیں ، جومبارک اور برکت والی رات ہے، اوروہ رات شب قدر ہے ، شب قدر کی فضیلت کو کون سمجھ سکتا ہے کہ کتنی اہمیت اور فضیلت کی حامل ہے یہ شب ، اس کی اہمیت کا انداز ہ نہیں لگایا جا سکتا ہے ، اگر کوئی اس شب کی اہمیت کا اندازاہ لگانا چاہتا ہے تو پہلے  ماہ مبارک رمضان کی فضیلتوں کا اندازہ لگائے اس لئےکہ امام صادقؑ نے فرمایا :"بے شک خدا کے نزدیک کتاب خد ا میں مہینہ بارہ ہیں ،جس دن سے خداوند  عالم نے زمین وآسما ن کو خلق کیا ہے ،دوسرے مہینوں کا نور ماہ رمضان ہے اور ماہ رمضان کا دل شب قدر ہے [1]"۔ اب سی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شب قدر کتنی فضیلتوں اور اہمیتوں کی حامل ہے ،شب قدرکی فضیلتوں کو ہم کبھی نہیں سمجھ سکتے تھے اگر معصومینؑ نے ہم کو نہ بتایا ہوتا ، جتنی بھی راتیں ہیں ان میں  سب سے زیادہ شب قدر کے بارے میں تاکید کی گئی ہے ، خود معصومینؑ شب قدر میں ایک خاص اہتمام کرتے تھے اور ہمیں بھی اس شب کی فضیلت کے سلسلہ سے  کا فی  تاکید کی ہے ۔

شب قدر کو شب قدر کیوں کہتے ہیں ؟

ابن عباس نے نقل کیا ہے کہ:" شب قدر کو شب قدر اس لئے کہتےہیں کہ اس رات میں سارے مقدرات  آیندہ سال تک کے لئے لکھے جاتےہیں چاہے وہ مصیبت ہو ، موت ہو ، یا روزی وغیرہ [2] "

علامہ طباطبائی لکھتے ہیں کہ:" خد اوند عالم نے اس شب کا نا م شب قدر رکھاہے ، قدر سے مراد تقدیر ، اور شب قدر ،یعنی تقدیر اور اندازہ گیری کی رات ،اس رات میں خداوندعالم آیندہ سال کے یعنی اس شب قدر سے لے کے آنے والی شب قدرتک کے حوادث کو لکھتاہے حوادث یعنی زندگی ، موت ، نیکی اور بدبختی ہے ، سورہ دخان کی    چوتھی آیت اس معنی پہ دلالت کر رہی  ہے ۔خد ا وند عالم نے فرمایا : اس رات میں تمام حکمت ومصلحت کے امورکا فیصلہ کیاجاتاہے [3] "

شب قدر کی فضلیت ۔

 خداوند عالم نے فرمایا :"بے شک ہم نے اسے (قرآن ) شب قدرمیں نازل کیا ہے ۔ شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے ، اس میں ملائکہ اور روح القدس اذن خداکے ساتھ  تمام امور کو لے کر  نازل ہوتے ہیں ، یہ رات طلوع فجر تک سلامتی ہی سلامتی ہے [4] "

دوسری جگہ پہ فرمایا :"ہم نے اس قرآن کو ایک مبارک رات میں نازل کیا ہے [5] "

امام صادقؑ نے فرمایا :" اعمال انیسویں شب میں لکھے جاتےہیں اور اکیسویں شب میں ان کی تایید ہوتی ہے اور تئیسویں شب میں ان پہ مہر لگتی ہے [6] "

ایک دوسری جگہ پہ  آپ ؑسے سوال کیا گیا کہ :"کس طرح شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے ؟ آپ نے فرمایا نیک عمل اس رات میں انجام دینا بہتر ہے ہزار مہینوں کے اس عمل سے جن میں شب قدر نہ ہو [7] "

پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا :"شیطان اس شب میں باہر نہیں آتا یہاں تک کہ صبح ہو جائے اور وہ کسی تک کسی بھی لحاظ سے پہنچنے کی رسائی نہیں رکھتا ہے، اور کسی بھی ساحر اورجادوگر کا سحر اورجادو اس رات میں اثر نہیں کرتا ہے[8] "

"جناب زہرا ؑشب قدر میں کسی کو سونے نہیں دیتی تھیں ،اور کھانا کم دیتی تھیں اور کہتی تھیں وہ شخص محروم ہے جوشب قدر کے خیر سے محروم کردیا گیاہے [9] "

                                                                  

 شب قدر کےپوشیدہ ہونے کا راز۔

"امام علیؑ سے سوال کیا گیا کہ ہمیں شب قدر کے بارے میں خبر دیں آپ نے فرمایا کہ ایسا نہیں ہے کہ ہم شب قدرکےبارے میں نہیں جانتے اسے پوشیدہ رکھا گیاہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ خدا وند عالم نے تمہاری وجہ سے اس کو پوشیدہ رکھا ہے اور تم کو ایک موقع دیا ہے اگر  کوئی ایک  شب واضح اور روشن ہوتی تو تم اس رات میں نیک عمل انجام دیتے اور اس کے علاوہ دوسری راتوں میں انجا م نہ دیتے اس کو غنیمت سمجھو خدا تمہارے اوپر رحم کرے گا [10] "

شب قدرکی پہچان ۔

"محمدابن مسلم نے امام صادقؑ یاامام باقرؑ میں سے کسی ایک سے سوال کیا کہ شب قدر کی پہچان کیاہے ؟ آپ نے فرمایا :"شب قدرکی پہچان اور علامت یہ ہے کہ اس میں ہوا  خوشگوار  ہوجاتی ہے اور اگر اس رات میں  ہواسرداور  خنک ہوتی ہے تو گرم اور معتدل ہو جاتی ہے اور اگر گرم ہوتی ہے توخنک اور خوشگوار ہو جاتی ہے[11] "

امام باقرؑ نے فرمایا :"شب قدرکی پہچان یہ ہے کہ اس میں ہو ا خوشگوارہوجاتی ہے اور اگر یہ رات سرد اور خنک ہوتی ہے تو گرم اور معتدل ہو جاتی ہے اور اگر گرم ہوتی ہے تو سرد اور خوشگوار ہو جاتی ہے [12] "

کون سی شب، شب قدر ہے ؟

پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا :" شب قدر کو ماہ رمضان کے آخری دس دنوں میں تلاش کرو [13] "

"حسان ابی علی سے روایت ہے کہ میں نے امام صادقؑ سے شب قدر کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا اس کوماہ مبارک کی  انیسویں ،اکیسویں اور تئیسویں کی شب میں تلاش کرو [14] "

سید ابن طاؤس  اقبال الاعمال میں لکھتے  ہیں کہ :" واضح اور روشن روایات یہ ہیں کہ ماہ ر مضان کی تئیسویں شب ،شب قدر ہے  [15] "

شب قدر میں بہترین عمل۔

شیخ صدوق علیہ الرحمہ نے امالی میں نقل کیاہے کہ :" جوشخص   ان دو راتوں یعنی اکیسویں اورتئیسویں کی شب میں مذاکرہ اور مباحثہ علمی  کرے  سب سے افضل اور بہترعمل ہے [16] "

شب قدر  اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہا۔

 حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کا شب قدر سے ایک گہرا  رابطہ ہے امام صادق علیہ السلام" انا انزلناہ فی لیلہ القدر"  کے بارے میں  فرماتے ہیں "اللَّيْلَةُ فَاطِمَةُ وَ الْقَدْرُ اللَّهُ فَمَنْ عَرَفَ فَاطِمَةَ حَقَّ مَعْرِفَتِهَا فَقَدْ أَدْرَكَ لَيْلَةَ الْقَدْر[17]"

"رات حضرت زہرا(س) ہیں اور قدر اللہ ہے جس نے  حضرت زہرا(ص) کی معرفت پیدا کر لی جو معرفت کا حق ہے تو گویا اس نے شب قدر کو پالیا اور درک کرلیا"

اب اسی سے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی فضیلت اور عظمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امام فرما رہے ہیں کہ جس نے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی معرفت پیدا کر لی جو معرفت کا حق ہے گویا اس نے شب قدر کو پالیا اور درک کرلیا،

شب قدر اور امام زمانہ علیہ السلام۔

خدا وند عالم سورہ قدر میں  ارشاد فرما رہا ہے " ہم نے اسے(قرآن) شب قدر میں نازل کیا ہے[18]"

اسی سورہ کے آخر میں  خدا فرما رہا ہے " اس میں(شب قدر)  ملائکہ اور روح القدس اذن خدا کے ساتھ تمام امور کو لے کے نازل ہوتے ہیں[19]"

سوال یہ ہے کہ اس وقت ملائکہ کس کے اوپر  امور لے کے نازل ہوتے ہیں اس لئے کہ اس وقت  تو پیغمبر اکرم ﷺ ہیں نہیں اور شب قدر ہر سال آتی ہے،

امام باقرعلیہ السلام فرماتے ہیں:

"اے گروہ شیعہ سورہ انا انزلنا کے ذریعہ سے دلیل و حجت قائم کرو کامیاب ہوجاؤ گے خدا کی قسم یہ سورہ رسول خدا کے بعد مخلوقات اور لوگوں پر حجت ہے یہ سورہ تمہارے دین کا سید و سردار ہے اور ہمارے علم کی انتہا[20]"

ایک دوسری جگہ پہ آپ فرماتے ہیں:

"خدا کی قسم بے شک جو شخص لیلة القدر کی تصدیق کرتا ہے وہ بغیر کسی شک و شبہ کے یقین پیدا کرلیتا ہے کہ یہ سورہ ہمارے سلسلہ سے مخصوص ہے، اس لئے کے جب رسول خدا کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ نے حضرت علی علیہ السلام سے مخاطب ہوکے فرمایا: یہ میرے بعد تمہارے ولی ہیں اگر تم نے ان کی اطاعت کی تو رشدو کمال تک پہونچ جاؤگے، اور جو کوئی بھی لیلة القدر کے سلسلہ سے ایمان نہیں لاتا وہ منکر ہے اور جو شخص لیلة القدر کے سلسلہ سے ہمارے نظریہ کے خلاف ایمان رکھتا  ہے وہ  سچا نہیں ہوسکتا ، مگر یہ کہ یہ  اعتراف  کر لے کہ یہ ہمارے ہی واسطہ ہے، اور جو اس کا اقرار نہ کرے وہ جھوٹا ہے، بے شک خداوند عالم اس چیز سے بلندو برتر ہے کہ امور کو روح اور ملائکہ کے ساتھ کافرو فاسق پر اتارے، ایسا بھی نہیں ہے کہ وہ نازل نہیں ہوتے ہیں چونکہ کبھی بھی کوئی شی معدوم پہ نازل نہیں ہوتی، اگر وہ کہیں اور بہت جلد وہ کہیں گے: ایسا نہیں ہے، بس سمجھ لیں وہ شدید گمراہی میں مبتلا اور گرفتارہو چکےہیں[21]"

امام علی السلام نے ابن عباس سے فرمایا: "بے شک ہر سال لیلة القدر آتی ہے  اور اسی شب میں سال بھر کے امور نازل ہوتے ہیں اور بے شک رسول اللہ کی وفات کے بعد بھی اس امر کے ولی ہیں، ابن عباس نے عرض کیا وہ کون لوگ ہیں؟  آپ نے فرمایا میں اور میری صلب سے گیارہ  امام اور محدثین[22]"

پیغمبر اکرم ﷺنے فرمایا: " شب قدر پہ ایمان لے آؤ  بے شک یہ علی بن طالبؑ اور ان  کے گیارہ فرزندوں سے مخصوص ہے میرے بعد[23]"

ان حدیثوں کو پڑھنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ شب قدر پیغمبر اکرم ﷺ کے بعد ائمہ علیہم السلام سے مخصوص ہے اور اس وقت ہمارے آخری امام سے مخصوص ہے ملائکہ اور روح القدس تمام امور کو لے کے آپؑ کی خدمت میں  حاضر ہوتے ہیں۔

جناب موسیؑ کی خداسے مناجات ۔

پیغمبر اعظم (ص)نے فرمایا :"جناب موسیؑ نے خداوند عالم سے اپنی مناجا ت میں عرض کیا ،میرے اللہ میں تیری قربت چاہتاہوں۔ خدانے فرمایا میری قربت ان کے لئے ہے جو شب قدر میں بیداررہتےہیں ، جناب موسیؑ نے عرض کیا معبود میں تیری رحمت چاہتا ہوں ۔خدانے فرمایا میری رحمت ان کے شامل حال رہتی ہے جو شب قدر میں مساکین کے اوپر رحم کرتے ہیں ، جناب موسیؑ نے عرض کیا میرے اللہ میں پل صراط سے گزرنے کا پروانہ چاہتاہوں ۔خدانے فرمایا یہ ان کے لئےہے جو شب قدر میں صدقہ دیتے ہیں ، جناب موسیؑ نے عرض کیا میرے اللہ میں جنت کے درختوں کا پھل چاہتاہوں۔ آواز قدرت آئی یہ نعمت  ان لوگوں کےلئے ہے جو شب قدر میں تسبیح میں مشغول رہتے ہیں ،  جناب موسیؑ نے  عرض کیا میرے اللہ میں جہنم کی آگ سے نجات چاہتاہوں۔ آوازقدرت آئی نجات ان لوگو ں  کے لئے ہے جوشب قدر میں استغفار میں مشغول رہتے ہیں ، جناب موسیؑ نے عرض کیا میرے معبود میں تیری رضا چاہتا ہوں ۔آواز قدرت آئی میری رضا اسے ملتی ہے  جو شب قدر میں دو رکعت نماز پڑھتے ہیں[24] "

واقعا اگر ہم غورکریں تو ہمیں  پتہ چلے گا کہ شب قدر کتنی اہمیت اور فضیلت  کی حامل ہے اور  آیات وروایات میں اس کی کتنی فضیلت بیان کی گئی ہے، شب قدر کی ہم جتنی بھی قدر کریں کم ہے ،شب قدر گناہوں کے اقرار کی شب ہے اس لئےکہ جب بندہ گناہوں کو اقراکرتاہے اور خدا سے بخشش چاہتا ہے تو خد ا بخش دیتا ہے ،شب قدر بہترین موقع ہے برائیوں کو نیکیوں سے بدلنےکا ، اختلاف  تفرقہ ،  پارٹی بازی ، گروپ بازی      اور فتنہ و فساد کو ،صلح وآشتی اتحاد  اور پیارومحبت سے  بدلنے کا ، ظلم وستم کو احسان اور نیکی سے بدلنے کا ، قطع رحم کو صلہ  رحم سے بدلنے کا ، گویا کہ خداوند عالم نے ہمیں شب قدر کی شکل میں ایک بہترین  اور خوبصورت  فرصت اور موقع عنایت فرمایا ہے اپنے آ پ کو ہرلحاظ  سے بدلنے اور سنوارنے کا اور خدا سے قریب ہونے کا ، پس کیا کہنا اس کا اور کتنا خوش نصیب ہے وہ شخص جس نے شب قدر کی برکتوں اور فضیلتوں سے بھرپورفایدہ   اٹھایا اور اپنے آپ کو سنوار لیا ،اور کتنا بد نصیب ہے وہ شخص جو شب قدر کے خیر سے محروم ہو گیا ۔

آخر میں خدا وند عالم سے یہی دعا ہے کہ خدا محمدﷺ اور آل محمدعلیہم السلام کے صدقہ میں  ہمیں توفیق عنایت فرمائے کہ ہم زیادہ سے زیادہ شب قدر کی برکتوں سے فایدہ اٹھاسکیں اور اپنے آپ کو بدل سکیں  تاکہ خدا سے قریب ہونے کی سعادت حاصل کرسکیں۔ اور  اپنی دعاؤں میں ان مظلوم اور بیکسوں کو ضرور یادرکھیں  جو آج  ظلم وبربریت کا شکار ہیں اور انسانی شکل کے درندے انہیں ٹکڑے ٹکڑے کر رہے ہیں اور آ ج ان کی چیخ و پکار سننے والا کوئی نہیں ہے ، اوران ظالموں کے نیست و نابود ہونے کی دعا کریں جنھوں نے پوری دنیا میں خاص طور سے مسلم ممالک میں فتنہ  ،فساد ، قتل وغارت گری اور خونریزی مچا رکھا ہے ، ساتھ ہی ساتھ دعا کریں کہ خدا ان شبوں کی برکتوں سے کرونا جیسی مہلک اور منحوس بیماری کو جلد سے جلد ہم سے  ہم سے دور فرمائے، شب قدر میں ہماری خاص دعایہی ہوناچاہئیے کہ خدا منجی عالم  بشریت قائم آل محمدﷺ امام زمانہ  علیہ السلام کے ظہور میں تعجیل فرمائے اور ہم کو  ان کے اعوان و انصار میں شمار فرمائے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ : 

[1] ۔ وسائل الشیعہ ، ج ، ۱۰ ، ص ، ۳۰۶،  ناشر موسسہ  آل البیت ؑ ، قم

[2] ۔ روضہ الواعظین وبصیرہ المتعظین ، ج۲،ص، ۳۴۹،ناشر، انتشارات رضی ، قم

[3] ۔ ترجمہ تفسیر المیزان ، ج،۲۰،ص،۵۶۱،ناشر۔ دفترانتشارات اسلامی ، قم

[4] ۔ سورہ قدر،آیات ، ۱۔۳۔۴۔۵۔

[5] ۔ سورہ دخان آیت ، ۳

[6] ۔ کافی ، ج، ۴،ص، ۱۵۹، ناشر۔ دارالکتب الاسلامیہ،تہران

[7] ۔ من لایحضرہ الفقیہ ، ج،۲،ص،۱۵۸۔ ناشر۔ دفتر انتشارات اسلامی ۔ قم

[8] ۔ تفسیرنورالثقلین ، ج،۵،ص،۶۱۵، ناشر۔ اسماعیلیان ،قم

[9] ۔ بحارالانوار، ج، ۹۴،ص،۱۰،ناشر۔ موسسہ الوفاء،بیروت

[10] ۔ بحارالانوار،ج، ۳۴،ص،۳۴۶،ناشر ۔ داراحیاءالتراث العربی، بیروت

[11] ۔ کافی، ج،۴،ص، ۶۵۷،ناشر۔ دارالکتب الاسلامیہ ،تہران

[12] ۔ مستدرک الوسائل ، ج،۷،ص، ۴۶۸،موسسہ آل البیت ، قم

[13] ۔ دعائم الاسلام ، ج،۱،ص،۲۸۲، ناشر۔ موسسہ آل البیت ، قم

[14] ۔ وسائل الشیعہ،ج،۱۰،ص،۳۶۱ ، ناشر،موسسہ آل البیت ،قم

[15] ۔ اقبال الاعمال ، ج،۱،ص،۲۰۶

[16] ۔ امالی صدوق،ص، ۶۴۹،ناشر۔ کتابچی ،تہران

[17] بحارالانوار،ج، ۴۳،ص ۶۵،ناشر ۔ داراحیاءالتراث العربی، بیروت

[18] قدر ۱

[19] قدر۴

[20] الکافی ج ۱ ص ۲۴۹ ناشر۔ دارالکتب الاسلامیہ تہران

[21] ج ص۲۵۳   

[22] ج ص۲۴۷   

[23] ج ص۵۳۳ 

[24] ۔وسائل الشیعہ، ج، ۸،ص،۲۰،ناشر۔ موسسہ آل البیت ، قم

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬