18 May 2020 - 16:42
News ID: 442765
فونت
امام علیہ السلام نے جس سے پناہ مانگی وہ سستی اور کاہلی ہے یہ بات توجہ کرنے اور غور کرنے کی ہے کہ آخر امام اس عظیم دعا میں سستی اور کاہلی سے کیوں پناہ مانگ رہے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ان دونوں چیزوں سے ہماری زندگی میں کافی اثر پڑتا ہے۔

تحریر: حجت الاسلام سید ظفر عباس رضوی (قم المقدسہ)

اگر دیکھا جائے تو انسان اپنی زندگی میں کسی نہ کسی مشکل یا پریشانی میں گرفتار رہتا ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ انسان کی پوری زندگی مشکلات اور پریشانیوں سے گھری ہوئی ہوتی ہے، کبھی مشکلیں کم ہوتی ہیں اور کبھی زیادہ ہوتی ہیں لیکن ہوتی ضرور ہیں، کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان کی زندگی میں ایک ایسا وقت بھی آتا ہے کہ انسان کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ وہ کیا کرے اسے سارے راستہ بند نظر آتے ہیں وہ نا امید اور مایوس ہوجاتا ہے، جب انسان کی زندگی میں ایسا وقت آجاتا ہے تو پھر اسے امید کی ایک کرن کی ضرورت ہوتی ہے، مشکلات اور پریشانیوں میں اور جب ظاہرا سارے راستہ بند نظر آئیں ایسے وقت میں جو چیز امید کی کرن بنتی ہے وہ دعا ہے، جب سارے راستہ بند ہوجاتے ہیں تو پھر دعا کام کرتی ہے انسان کی آخری امید اور سہارا دعا ہوتی ہے انسان جب ہر چیز سے تھک ہار کے بیٹھ جاتا ہے اور ہر ممکن کوشش کرلیتا ہے تو کہتا ہے کہ بس دعا کریئے یعنی دعا ہی ہے جو نجات دے سکتی ہے، ویسے تو بہت سی دعایئں ہیں اور لوگ پڑھتے بھی رہتے ہیں ساری دعاؤں میں ایمان اور علم و معرفت کے دریا موجود ہوتے ہیں، دعا میں ایک سب سے اہم چیز جو ہمیں ملتی ہے وہ یہ ہے کہ دعاؤں میں ہمیں مانگنے کا سلیقہ اور طریقہ پتہ چلتا ہے معصومین علیہم السلام نے ہمیں بتایا کہ کس طرح سے دعا مانگنی چاہیئے، اور یہ بات بھی غور کرنے کی ہے کہ ایمان و معرفت کے سلسلہ سے بہت سی چیزیں شاید حدیثوں میں نہ ملیں لیکن دعاؤں میں مل جائیں، اس لئے کہ حدیث اور روایت کو معصومین علیہم السلام نے راوی اور سوال کرنے والے کی حیثیت اور اس کی ظرفیت و علم کے مطابق جواب دیا ہے تاکہ اس کی سمجھ میں آجائے لیکن معصومین علیہم السلام نے دعا اپنی حیثیت اور اسٹینڈر کے مطابق کی ہے اس لئے کہ خدا سے مانگ رہے ہیں لہذا اسی انداز سے دعا کرتے ہیں، دعاؤں کی یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ اگر انسان ایک مرتبہ خلوص دل سے پڑھ لیتا ہے تو کافی ہلکا پن محسوس کرتا ہے، اور اپنے اندر نورانیت اور پاکیزگی محسوس کرتا ہے۔

امام زین العابدین علیہ السلام سے بہت سی دعایئں موجود ہیں جیسے صحیفہ سجادیہ وغیرہ لیکن ماہ مبارک رمضان میں سحر کے وقت آپ جس دعا کو زیادہ پڑھتے تھے وہ دعائے ابو حمزہ ثمالی ہے اس دعا میں آپ نے علم و معرفت کا سمندر بہا دیا ہے، اور عجیب انداز سے دعا کی ہے، اگر خدا توفیق دے تو انسان پڑھے پھر اسے اندازہ ہوگا کہ کس طر ح سے امام علیہ السلام نے دعا کی ہے۔

اس دعا میں امام علیہ السلام نے خدا وند عالم سے بہت سی چیزوں کا سوال کیا ہے بہت سی چیزوں کو مانگا ہے جیسے ایمان و بصیرت، فہم و آگاہی، ورع و پرہیز گاری، طلب مغفرت، قبولیت دعا، عذاب سے نجات، خانہ کعبہ کی زیارت، قبر پیغمر(ص) اور قبر ائمہ علیہم السلام کی زیارت، قرب خدا وغیرہ، اس کے علاوہ اور بھی بہت سی چیزوں کو خدا سے طلب کیا ہے، اسی طرح سے کچھ چیزوں سے خدا سے پناہ مانگی ہے۔

اس مختصر سی تحریر میں امام علیہ السلام کی پوری دعا کو بیان نہیں کرنا ہے بلکہ اس دعا کے آخر میں امام علیہ السلام نے جن چند چیزوں سے خدا سے پناہ مانگی ہے ان میں سے ایک دو کو بیان کرنا ہے امام علیہ السلام فرماتے ہیں: "اللَّهُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْکَسَلِ وَ الْفَشَلِ "خدایا میں سستی اور کاہلی سے تجھ سے پناہ مانگتا ہوں"(۱)

سب سے پہلی چیز جس سے امام علیہ السلام نے پناہ مانگی وہ سستی اور کاہلی ہے یہ بات توجہ کرنے اور غور کرنے کی ہے کہ آخر امام اس عظیم دعا میں سستی اور کاہلی سے کیوں پناہ مانگ رہے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ان دونوں چیزوں سے ہماری زندگی میں کافی اثر پڑتا ہے اور ہے بھی ایسا ہی، یہ دونوں چیزیں انسان کو آگے بڑھنے اور ترقی کرنے سے روک دیتی ہیں، بہت سے کمال اور سعادت تک نہیں پہونچنے دیتی ہیں، انسان کو اس کے ہدف اور مقصد سے دور کردیتی ہیں۔

امیرالمؤمنین امام علی علیہ السلام نے مختلف اور متعدد جگہوں پہ اس کے سلسلہ سے بیان فرمایا ہے آپ فرماتے ہیں:"آفَةُ النُّجْحِ الْکَسَلُ "کامیابی اور ترقی کی آفت سستی اور کاہلی ہے"(۲)

"مَنْ دَامَ کَسَلُهُ خَابَ أَمَلُه "مستقل سستی کرنے والا اپنی آرزو اور ہدف تک نہیں پہونچ سکتا"(۳)
"لَا تَتَّکِلْ فِی أُمُورِکَ عَلَی کَسْلَان "اپنے کاموں میں سست اور کاہل لوگوں پہ اعتماد نہ کرو"(۴)
"مِنْ سَبَبِ الْحِرْمَانِ التَّوَانِی" محرومیت کا ایک سبب سستی اور ٹال مٹول ہے"(۵)
"التَّوَانِی إِضَاعَةٌ "ٹال مٹول اور کاہلی ضائع اور نابود کردیتےہیں"(۶)
"ضَادُّوا التَّوَانِیَ بِالْعَزْم" عزم و ارادہ کے ذریعہ سے ٹال مٹول اور سستی سے جنگ کرو"(۷)
"بَعِیدٌ کَسَلُهُ دَائِمٌ نَشَاطُهُ "سستی مومن سے دور رہتی ہے اور وہ ہمیشہ ہشاش و بشاش رہتا ہے"(۸)
"الفشل منقصةٌ "سستی اور کاہلی نقص ہے"(۹)
"بالعمل یحصل الثواب لا بالکسل "عمل اور کام کے ذریعہ سے ثواب اور اجر حاصل کیا جاتا ہے نہ کہ سستی اور کاہلی کے ذریعہ"(۱۰)

امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں
"إیَّاکَ وَ الْکَسَلَ وَ الضَّجَرَ فَإِنَّهُمَا مِفْتَاحُ کُلِّ شَرٍّ مَنْ کَسِلَ لَمْ یُؤَدِّ حَقّا "سستی اور کاہلی سے بچو اس لئے کہ یہ دونوں ہر شر اور ہر برائی کی کنجی ہیں جو سستی اختیار کرے گا وہ حق کو ادا نہیں کر سکتا"(۱۱)

ایک دوسری جگہ پہ آپ فرماتے ہیں
"إِنِّی أُبْغِضُ لِلرَّجُلِ أَنْ یكُونَ كَسْلَاناً عَنْ أَمْرِ دُنْیاهُ وَ مَنْ كَسِلَ عَنْ أَمْرِ دُنْیاهُ فَهُوَ عَنْ أَمْرِ آخِرَتِهِ أَكْسَلُ "جو شخص دنیا کے کاموں میں سستی اختیار کرتا ہے میں اسے پسند نہیں کرتا اور جو شخص دنیا کے کاموں میں سستی دکھاتا ہے وہ آخرت کے کاموں میں زیادہ سستی دکھاتا ہے"(۱۲)

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں
"عَدُوُّ الْعَمَلِ الْکَسَلُ" سستی اور کاہلی کام کی دشمن ہیں"(۱۳)

ایک دوسری جگہ پہ آپ فرماتے ہیں
"لَا تَسْتَعِنْ بِکَسْلَانَ""سست لوگوں سے مدد نہ مانگو"(۱۴)

امام کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں
"إِیاكَ وَ الْكَسَلَ وَ الضَّجَرَ فَإِنَّهُمَا یمْنَعَانِكَ مِنْ حَظِّكَ مِنَ الدُّنْیا وَ الْآخِرَة "سستی اور بے حوصلہ پن سے بچو اس لئے کہ یہ دونوں عادتیں انسان کو دنیا و آخرت کے حصہ سے محروم کردیتی ہیں"(۱۵)

اگر ہم دیکھیں اور غور کریں تو ہمیں پتہ چل جائے گا کہ ہماری زندگی میں سستی اور کاہلی کی وجہ سے کتنے نقصانات اور مشکلات ہیں اور حدیثوں میں کس قدر سستی کاہلی اور ٹال مٹول کی مذمت کی گئی ہے اور کس طرح سے معصومین علیہم السلام نے اپنی دعاؤں میں خدا سے مدد مانگی ہے کہ خدا سستی اور کاہلی کو ہم سے دور کردے جب معصومین علیہم السلام اس طرح سے دعا کر رہے ہیں جبکہ ان کے یہاں سستی اور کاہلی اصلا پائی ہی نہیں جاتی، تو پھر ہمارا حال کیا ہوگا ہمیں کتنا زیادہ احتیاط کرنا چاہیئے اس لئے کہ حدیث بیان کررہی ہے کہ اگر کوئی سستی کرتا ہے تو دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کے بھی فائدہ اور نصیب و حصہ سے محروم ہو جاتا ہے، اور ظاہر سی بات ہے کہ جب انسان سستی اور کاہلی کرے گا تو پھر اسے عبادت و بندگی میں نہ ہی لذت ملی گی اور نہ ہی چین و سکون حاصل ہوگا، اور وہ توبہ و استغفار اور دعا سے محروم ہوجائے گا، اور ایسا انسان ماہ مبارک رمضان اور شب قدر کی رحمتوں، مغفرتوں اور برکتوں سے بھی فائدہ نہیں اٹھا پائے گا۔

لہذا اگر معصومین علیہم السلام اپنی دعاؤں میں مسلسل سستی اور کاہلی کا ذکر کر رہے ہیں اور خدا سے پناہ مانگ رہے ہیں تو ہمیں متوجہ ہونا چاہیئے کہ ہمیں کس قدر اس سے بچنا چاہیئے تاکہ دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی نقصان نہ اٹھانا پڑے، سستی اور کاہلی کرنے والا نہ دنیا میں کامیاب ہوسکتا ہے اور نہ ہی آخرت میں، بلکہ حدیث کے مطابق دنیا کے کاموں میں سستی کرنے والا آخرت کے کاموں میں زیادہ سستی دکھاتا ہے، اور ظاہر سی بات ہے کہ آخرت کے کاموں میں سستی دکھانے والا زیادہ نقصان اور گھاٹا اٹھانے والا ہے۔

آخر میں خدا وند عالم سے دعا ہے کہ خدا محمد (ص) و آل محمد علیہم السلام کے صدقہ میں ہمیں توفیق عنایت فرمائے کہ ہم سستی اور کاہلی سے بچ سکیں تاکہ دنیا و آخرت کے نقصان اور ضرر سے بچ سکیں اور اس مبارک مہینہ کے بقیہ بچے ہوئے دنوں میں زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاسکیں اور زیادہ سے زیادہ نیک عمل انجام دے سکیں-

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ:

۱: مصباح المتہجد وسلاح المتعبد ج 2 ص 597 ناشر موسسہ فقہ الشیعہ بیروت
۲: تصنیف غررالحکم ودررالکلم ص 473 ناشر دفتر تبلیغات قم
۳: تصنیف غررالحکم ودررالکلم ص 463 ناشر دفتر تبلیغات قم
۴: غررالحکم غررالحکم ودررالکلم ص 745 ناشر دارالکتاب الاسلامی قم
۵: تحف العقول ص 80 ناشرجامعہ مدرسین قم
۶: غررالحکم ودررالکلم ص 17ناشر دارالکتاب الاسلامی قم
۷: غررالحکم ودررالکلم ص 427ناشر دارالکتاب الاسلامی قم
۸: بحارالانوار ج 75 ص 26ناشر-داراحیاء التراث العربی بیروت
۹: غررالحکم غررالحکم ودررالکلم ص 24 ناشر دارالکتاب الاسلامی قم
۱۰: غررالحکم غررالحکم ودررالکلم ص 304 ناشر دارالکتاب الاسلامی قم
۱۱؛ تحف العقول ص 295 ناشر جامعہ مدرسین قم
۱۲: الکافی ج 5 ص 85 ناشر دارالکتب الاسلامیہ تہران
۱۳: الکافی ج1 ص 559 دارالحدیث قم
۱۴: الکافی ج 5 ص 85 ناشر دارالکتب الاسلامیہ تہران
۱۵: الکافی ج 5 ص 85 ناشر دارالکتب الاسلامیہ تہران

/۹۸۸/ن

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬