21 July 2020 - 13:17
News ID: 443236
فونت
امام محمد تقی علیہ السلام بنابرمشہور 10رجب ١۹٥ھ؁ کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے ، آپ کا اسم گرامی محمد اور آپ کے والد کا نام علی ابن موسیٰ الرضا ؑتھا آپ کی والدہ ماجدہ کا نام سبیکہ یا خیزران تھا۔

رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق امام علی ابن موسی الرضا علیہ السلام نے امام محمد تقی علیہ السالم کے سلسلہ میں فرمایا یہ مولود میرے شیعوں کے لئے عظیم برکات کا حامل ہے اور ان کے جیسا کوئی بھی پیدا نہیں ہوا۔


سید حمیدالحسن زیدی
الاسوہ فاؤنڈیشن سیتاپور


امام محمد تقی علیہ السلام بنابرمشہور 10رجب ١۹٥ھ؁ کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے ، آپ کا اسم گرامی محمد اور آپ کے والد کا نام علی ابن موسیٰ الرضا ؑتھا آپ کی والدہ ماجدہ کا نام سبیکہ یا خیزران تھا۔ (١)

آپ کی کنیت ابو جعفر (ثانی) تھی اور القاب قانع، مرتضیٰ، جواد اور تقی تھے۔ (۲)

جب آپ کے والد ماجد کی شہادت ہوئی اس وقت آپ کی عمر مبارک ۷ سال اور چند مہینہ تھی آپ کی امامت کا زمانہ سترہ (۱۷) سال تھا۔ (٣)

بنی عباس کے خلیفہ معتصم نے آپ کو آپ کی زوجہ ام الفضل بنت مامون کے ساتھ بغداد بلایا آپ ۲۸
محرم ۲۲۰ھ؁ کو بغداد پہونچے اسی سال ماہ ذیقعدہ میں بغداد ہی میں آپ کی شہادت ہوئی اور آپ کا جسد اطہر قریش کے قبرستان میں آپ کے جد امام موسیٰ کاظم ؑکی قبر کے برابر دفن کیا گیا اس وقت آپ کی عمر مبارک ۲۵ سال اور چند مہینہ تھی۔ (۴)

آپ کی امامت کی دلیلیں

شیخ مفید علیہ الرحمہ نے تحریر کیاہے کہ جن لوگوں نے امام جواد ؑکی امامت کے سلسلہ میں امام علی رضا ؑکے اقوال نقل کئے ہیں وہ یہ ہیں: علی ابن جعفر ابن محمد الصادق، صفوان ابن یحییٰ، معمر ابن خلاد، حسین ابن یسار ابن ابی نصر بزنطی، ابن قیاما واسطی، حسن ابن جہم، ابو یحییٰ الصنعانی، خیرانی اور یحییٰ ابن حبیب زیات وغیرہ۔ (٥)

علی ابن جعفر ابن محمد ؑفرماتے ہیں: میں نے ابو جعفر محمد ابن علی رضا ؑکا ہاتھ پکڑ کر عرض کیا میں گواہی دیتاہوں کہ آپ خدا کے نزدیک امام ہیں۔

امام رضا ؑنے گریہ فرمایا اور کہا چچا کیا آپ نے میرے والد سے نہیں سنا کہ آپ فرماتے تھے رسول خداؐ نے فرمایا: میرے والد فدا ہوں کنیزان نوبیہ طیبہ کی سب سے بہتر کنیز کے بیٹے پر جس کی نسل سے ایک ایسا امام آئے گا جو وطن سے دور اپنے والد اور اپنے جد کے خون کا انتقام لے گا ان کی غیبت بہت طولانی ہوگی اس طرح کہ لوگ کہنے لگیں گے کہ وہ انتقال کر گئے ہیں یا انھیں کسی نے ہلاک کر دیا اور اگر ہیں تو کہاں چلے گئے ہیں ۔

میں نے عرض کیا: آپ صحیح فرما رہے ہیں میری جان آپ پر فدا ہو جائے۔ (٦)

صفوان ابن یحییٰ بیان کرتے ہیں : کہ میں نے امام رضا ؑسے عرض کیا کہ میں ابو جعفر امام محمد تقی ؑکی ولادت سے پہلے آپ سے سوال کیا تھا تو آپ نے فرمایا تھا کہ عنقریب خدا مجھے ایک بیٹا عطا کرے گا اب خدا نے آپ کو بیٹا عطا کیا ہے اوراس کے نور سے ہماری آنکھیں منور ہوگئی ہیں اگر خدا نخواستہ آپ کو کوئی حادثہ پیش آجائے تو ہم کس کی طرف رجوع کریں؟

آپ نے فرمایا: ان کی طرف۔ اور یہ کہہ کہ امام ابو جعفر ؑ کی طرف اشارہ کیا جو ان کے برابر میں کھڑے تھے۔
میں نے عرض کیا: میں آپ پر قربان جاؤں یہ تو ابھی تین سال کے بچے ہیں۔

آپ نے فرمایا: ان کی کمسنی اور امامت میں کوئی تضاد نہیںہے حضرت عیسیٰؑ بھی پیغمبر اور حجت خدا تھے جب کہ ان کی عمر تین سال سے بھی کم تھی۔ (۷)

معمرّ ابن خلاد کا بیان ہے: میں نے امام رضا ؑسے سنا ہے کہ آپ نے امامت کی علامتوں کے بارے میں کچھ مطالب بیان کرنے کے بعد فرمایا تمہیں ان علامتوں کی کیا ضرورت ہے میں نے اپنے بیٹے ابو جعفرؑ کو اپنا جانشین اور خلیفہ قرار دیا ہے۔

اس کے بعد آپ نے فرمایا: ہم ایسے اہلبیت ؑہیں جن کے بچے بھی بالکل اپنے بزرگوں کی طرح ہوتے ہیں اور ان میں کوئی کمی نہیں پائی جاتی۔ (۸)

حسین ابن یسار کا بیان ہے: ابن قیاما نے امام ابو الحسن رضا ؑکو خط لکھا کہ آپ کیسے امام ہوسکتے ہیں جب کہ آپ کا کوئی بیٹا نہیں ہے جو آپ کا جانشین ہو۔

امام رضاؑ نے جواب میں لکھا: تمہیں کیسے معلوم کہ میرا کوئی بیٹا نہیں ہوگا تھوڑے ہی دنوں میں خداوند عالم مجھے ایک بیٹا عطا کرے گا جو حق کو باطل سے الگ کر دے گا۔ (۹)

ابن ابی نصر بزنطی کا بیان ہے: ایک دن ابن نجاشی نے مجھ سے کہا تمہارے ولی امام رضا ؑکے بعد کون امام ہوگا؟ اس کو معلوم کرکے مجھے باخبر کرو میں امام رضا ؑکی خدمت میں حاضر ہوا اور
ابن نجاشی کا سوال دہرایا۔

آپ نے فرمایا: میرے بعد میرا بیٹا امام ہوگا۔

اس کے بعد آپ نے فرمایا: کس میں ہمت ہے کہ کہے میرا بیٹا، جب کہ ابھی بیٹا پیدا نہ ہوا ہو۔

اس وقت ابو جعفر ؑکی ولادت نہیں ہوئی تھی کچھ ہی دنوں کے بعد امام ابو جعفر ؑکی ولادت ہوئی۔ (١۰)
ابن قیاما واسطی جو واقفی مذہب تھا بیان کرتا ہے کہ میں علی ابن موسیٰ الرضا ؑکی خدمت میں پہونچا اور عرض کیا ، کیا ایک زمانے میں دو امام ہوسکتے ہیں؟

آپ نے فرمایا: نہیں، لیکن ایسا صرف ایک صورت میں ممکن ہے جب ان دونوں میں ایک صامت ہو۔

میں نے عرض کیا: کہ آپ کے پاس امام صامت نہیں ہے۔

آپ نے فرمایا: خدا کی قسم خدا مجھے ایک بیٹا عطا کرے گا جو حق اور اہل حق کی حمایت کرے گااور باطل کو ختم کرنے کی کوشش کرے گا۔

آپ نے یہ اس وقت فرمایا تھا، جب ابھی آپ کے یہاں بیٹے کی ولادت نہیں ہوئی تھی۔ (١١)

حسن ابن جہم کا بیان ہے: میں ابو الحسن ؑکی خدمت میں بیٹھا تھا آپ نے اپنے چھوٹے سے بیٹے کو بلایا، اپنی گود میں بٹھایا اور فرمایا ان کا پیراہن اتارو میں نے ان کا پیراہن اتارا۔

آپ نے فرمایا: ان کے دونوں شانوں کے درمیان دیکھو!

میں نے غور سے دیکھا: مجھے دونوں شانوں کے درمیان مہر جیسی کوئی چیز دکھائی دی۔

آپ نے فرمایا: اسے دیکھ رہے ہو میرے والد کے پاس بھی ایسی ہی علامت تھی۔ (١۲)

ابو یحییٰ صنعانی کا بیان ہے: میں ابو الحسن رضا ؑکی خدمت میں تھا کہ آپ کے فرزند ابو جعفر ؑ کو وہاں لایا گیا جو ابھی بچے تھے آپ نے فرمایا یہ مولود میرے شیعوں کے لئے عظیم برکات کا حامل ہے اور ان کے جیسا کوئی بھی پیدا نہیں ہوا۔ (١٣)

خیرانی نے اپنے والد سے نقل کیا ہے: کہ انھوں نے کہا کہ میں خراسان میں امام رضا ؑکی خدمت میں تھا ایک شخص نے سوال کیا اگر آپ کے لئے کوئی حادثہ پیش آجائے تو ہم کس کی طرف رجوع کریں ؟

آپ نے فرمایا: میرے بیٹے ابو جعفر ؑکی طرف۔ اس شخص نے گویا آپ کو کمسن سمجھا تو امام رضا ؑنے فرمایا خداوند عالم نے جناب عیسیٰؑ کو نبوت و رسالت عطا کی جب کہ ان کا سن ابو جعفر ؑسے کہیں کم تھا۔ (١۴)

امام رضا ؑکے کاتب محمد ابن ابی عباد کا کہنا ہے: حضرت رضا ؑاپنے بیٹے محمد کو ہمیشہ کنیت کے ساتھ یاد کرتے تھے اور فرماتے تھے ابوجعفر ؑنے یہ کہا ہے میں نے ابو جعفر ؑکو یہ لکھا ہے اور ان کا بہت احترام کرتے تھے جب کہ وہ ابھی بچے تھے مدینہ سے ابو جعفر امام محمد تقی ؑکے انتہائی فصیح و بلیغ خطوط بھی اپنے والد کے پاس خراسان پہونچتے تھے میںنے آپ سے سنا کہ ابوجعفر ؑمیرے وصی اور خلیفہ ہیں۔ (١٥)

مسافر کا بیان ہے کہ امام ابوالحسن رضا ؑنے خراسان میں مجھ سے فرمایا: ابو جعفر کے پاس جاؤ وہ
ابراہیم ابن ابی محمد کا بیان ہے: میں طوس میں امام رضا ؑکی خدمت میں تھا ایک شخص نے آکر عرض کیا اگر آپ کو کوئی حادثہ پیش آ جائے تو ہم کس کی طرف رجوع کریں فرمایا میرے بیٹے محمد کی طرف۔ (١۷)

سوال کرنے والے نے گویا آپ کو ابھی کمسن سمجھا تو امام رضاؑ نے فرمایا: خداوند عالم نے عیسیٰؑ ابن مریم کو نبوت اور شریعت کے قیام کے لئے مبعوث فرمایا۔ جب کہ آپ کا سن ابو جعفر ؑسے کم تھا۔

اب بزیغ کا کہنا ہے : امام ابو الحسن علی رضا ؑ سے سوال کیا گیا کیا امام کا منصب چچا اور ماموں کو بھی مل سکتا ہے آپ نے فرمایا نہیں ۔ آپ نے یہ اس وقت فرمایا تھا جب آپ کے یہاں ابھی بیٹے کی ولادت نہیں ہوئی تھی۔ (١۸)

فضائل و کمالات

جیسا کہ پہلے ثابت بھی کیا جاچکا ہے کہ امام تمام انسانی کمالات کا حامل ایک مکمل انسان ہوتا ہے اور اس میں کسی طرح کا عیب یا نقص نہیں پایا جاتا اور یہ عصمت کے لئے لازم ہے۔

جب کسی شخص کی امامت دلیلوں سے ثابت ہو جائے تو اس کے ذاتی کمالات بھی خود بخود ثابت ہو جائیں گے اس لئے کہ علم، تقویٰ، فضیلت، عبادت اور بہترین اخلاق سے آراستہ ہونا اور ہر قسم کے گناہ اور برے اخلاق سے پاک اور منزہ ہونا امامت کے لئے ذاتی طور پر ضروری ہے اور اس اعتبار سے ائمۂ معصومین ؑکے درمیان کوئی فرق نہیں پایا جاتا ان ذوات مقدسہ میں تمام انسانی کمالات یکساں طور پر پائے جاتے ہیں اس سلسلہ میں بچپنے، نوجوانی، جوانی یا بڑھاپے کا کوئی دخل نہیں ہوتا اگر بعض ائمہ کی تعلیمات ہم تک کم پہونچی ہیں یا ان کی عبادتوں اور ان کے فضائل و کمالات سے متعلق معلومات تاریخ کی کتابوں میں کم ہیں تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ معاذ اللہ اس اعتبار سے ان میں کوئی نقص پایا جاتا تھا بلکہ اس میں اس زمانے کے سیاسی اور سماجی حالات، زمانے اور مکان کی مشکلات، نیز ائمۂ معصومین ؑکی عمر کا دخل ہے جس کی وجہ سے ان سے ظاہر ہونے والے کمالات میں فرق محسوس ہوتا ہے۔

انھیں ائمہ ؑمیں سے ایک امام محمد تقی ؑہیں اگر چہ آپ سے بہت سی احادیث نقل ہوئی ہیں جو تاریخ کی کتابوں میں آج بھی موجود ہیں لیکن آپ سے مروی احادیث کی مقدار آپ کےآباء واجداد کے برابر نہیں ہے۔
آپ کی عبادت خشوع و خضوع ، فقراء و مساکین کے سلسلہ میں انفاق و احسان نیز دوسرے اخلاقی کمالات کے بارے میں تاریخ کی کتابوں میں آپ کے آباء و اجداد کی صفات کے برابر تذکرہ نہیں ہے جس کے دو سبب ہوسکتے ہیں۔

۱۔ پہلا سبب یہ ہے کہ آپ کی عمر مبارک ۲۵ سال سے زیادہ نہیں تھی اور جوانی ہی میں آپ کی شہادت ہوگئی اس لئے آپ کے فضائل و کمالات اور آپ کی احادیث لوگوں کے درمیان بیان نہ ہوسکیں۔

۲۔ دوسرا سبب آپ کا کمسنی میں منصب امامت پر فائز ہوجانا ہے ۔آپ ۷ سال اور چند ماہ کی عمر میں منصب امامت پر فائز ہوگئے تھے۔

اس کمسنی میں بھی آپ کے اندر تمام دینی معلومات اور تمام انسانی کمالات بدرجۂ اتم پائے جاتے تھے لیکن کمسنی کی وجہ سے آپ کے ذاتی کمالات اکثر افراد کے لئے یہاں تک کہ آپ کے شیعوں کی نظروں سے بھی پوشیدہ رہے جس کی وجہ سے اس زمانے کے بزرگ علماء کی زیادہ توجہ آپ کی طرف نہیں ہوئی اگر چہ آہستہ آہستہ آپ کے فضائل و کمالات لوگوں کے سامنے آتے رہے اور آپ کے عقیدتمندوں میں اضافہ ہوتا گیا لیکن افسوس کہ آپ کی شہادت ہوگئی اور لوگ آپ کی تعلیمات سے زیادہ فائدہ نہ اٹھا سکے اس کے باوجود آپ کی جو تعلیمات ہم تک پہونچی ہیں وہ آپ کے عقیدتمندوں کے لئے مفید ہوسکتی ہیں۔

شیخ مفید علیہ الرحمہ نے تحریر کیا ہے: امام ابو جعفر محمد تقی ؑکی کمسنی کے باوجود آپ کے فضائل و کمالات، علم و حکمت، ادب، عقلی کمال کے بارے میںجب مامون کو علم ہوا اور اس نے آپ کو اپنے زمانے کے تمام بزرگ علماء و دانشوروں سے بہتر پایا تو آپ کا گرویدہ ہوگیا اور آپ کے ساتھ اپنی بیٹی ام الفضل کا عقد کر کے مدینہ بھیج دیا وہ ہمیشہ آپ کا احترام و اکرام کرتا رہا۔ (١۹)

ابو الفرج عبد الرحمن ابن جوزی حنفی نے لکھا ہے: محمد ابن علی ابن موسیٰؑ علم، تقویٰ، زہد اور جود و سخاوت میں اپنے والد کی سیرت پر عمل کرتے تھے مامون نے آپ کے والد کی شہادت کے بعد آپ کو مدینہ سے بغداد بلا لیا اور آپ کا احترام کیا اور جو کچھ آپ کے والد کوعطا کیا کرتا تھا وہ آپ کو بھی عطا کیا اور اپنی بیٹی ام الفضل کو آپ کی زوجیت میں دے دیا۔(۲۰)

ریان ابن شبیب کا بیان ہے: کہ جب مامون نے اپنی بیٹی ام الفضل کو امام ابو جعفر محمد ابن علی ؑ کی زوجیت میں دینا چاہا اور اس کی خبر بنی عباس کے بزرگوں کو ہوئی توان کو بہت گراں گذرا اور ان لوگوں کو خوف ہوا کہ کہیں ان کو بھی ولی عہد نہ بنا دیا جائے جیسا کہ پہلے علی ابن موسیٰؑ کو بنایا جاچکا تھا۔

مامون کے خاندان کے بعض افراد اس تشویش کے اظہار کے لئے مامون کی خدمت میں پہونچے اور کہا: اے امیر المومنین! خدا کی قسم ابن الرضا ؑکے ساتھ اپنی بیٹی کی شادی کا ارادہ ترک کردیجئے اس لئے کہ ہمیں خوف ہے کہیں جو خلافت ہمارے ہاتھ آگئی ہے وہ واپس نہ چلی جائے آپ کو ہمارے اور بنی ہاشم کے درمیان دیرینہ اختلافات کا علم ہے اور آپ سے پہلے والے خلفاء نے ان کے ساتھ جو سلوک کیا ہے اس سے بھی آپ باخبر ہیں آپ نے پہلے جو کچھ علی ابن موسیٰؑ کے ساتھ کیا اور ان کو ولی عہد بنایا اس کی وجہ سے ہم کو بہت مشکلات کا سامنا ہوچکا ہے جن سے نجات پانے میں خدا نے ہماری مدد کی آپ کو خدا کی قسم اپنی بیٹی کے ساتھ ابن الرضا ؑکی شادی کا ارادہ ترک کر دیجئے اور ہمیں دوبارہ مشکلات میں مبتلا نہ کیجئے۔

مامون نے ان کے جواب میں کہا: جو اختلافات ہمارے اور آل ابوطالب کے درمیان تھے ان کا سبب تم لوگ خود ہی تھے ابو طالب کی اولاد خلافت کی تم سے زیادہ حقدار ہے اور ان کے ساتھ پہلے کے خلفاء نے جو برا سلوک کیا تو انھوں نے قطع رحم کیا اور میں قطع رحم کے سلسلہ میں خدا سے پناہ مانگتا ہوں خدا کی قسم امام رضا ؑکو اپنا ولی عہد بنانے پر مجھے کوئی پچھتاوا نہیں ہے میں نے پہلے ان سے خلافت کی پیش کش کی ، لیکن انھوں نے اسے قبول نہیں کیا اور تقدیر یہ تھی کہ وہ مجھ سے پہلے دنیا سے چلے گئے اور خلافت تک نہیں پہونچ سکے۔

میں نے ابو جعفر محمد ابن علی ؑ کو اس لئے منتخب کیا کہ وہ اپنی کمسنی کے باوجود علم و فضل کے اعتبار سے تمام اہل علم و فضل سے حیرت انگیز حد تک افضل ہیں میں چاہتاہوں ان کے فضائل و کمالات لوگوں پر ظاہر ہوجائیں تاکہ ان کی سمجھ میں آجائے کہ ان کے بارے میں ہمارا نظریہ صحیح ہے۔

ان لوگوں نے کہا کہ اگر چہ اس بچہ نے آپ کو حیرت زدہ کر رکھا ہے لیکن یہ بہر حال بچہ ہے اور علم و معرفت اور فقہ سے بے بہرہ ہے آپ ہمیں مہلت دیں کہ ہم اس کو ادب اور فقہ سکھادیں اس کے بعد آپ کی جو مرضی ہو کریں۔

مامون نے جواب دیا: وائے ہو تم پر میں اس جوان کو بہتر پہچانتا ہوں یہ جوان ایسے اہل بیتؑ میں سے ہے جن کو خداوند عالم کی طرف سے علوم عطا ہوتے ہیں اور ان پر الہام ہوتا ہے ان کے آباء واجداد ہمیشہ دینی علوم اور ادب میں تمام دوسرے انسانوں سے بے نیاز تھے اگر تم چاہو تو ان کا امتحان لے سکتے ہو۔

ان لوگوںنے کہا: اے امیر المومنین یہ بہترین پیش کش ہے ہم ان کا امتحان لیں گے کوئی وقت معین کردیں تاکہ آپ کے سامنے کوئی ایک عالم ان سے فقہ شریعت کے بارے میں سوالات کرے اگر انھوں نے صحیح جواب دیدیا تو ہمیں کوئی اعتراض نہ ہوگا۔

مامون نے کہا: تم جب چاہو آسکتے ہو۔

وہ لوگ دربار سے باہر نکلے اور فیصلہ کیا کہ یحییٰ ابن اکثم کوفی (جو قاضی القضاۃ تھے) امتحان کے لئے بلایا جائے ان لوگوں نے یحییٰ ابن اکثم سے کہا کچھ سخت سوال تیار کرلو تاکہ مامون کے سامنے ابن الرضا ؑکا امتحان لے کر ان کو خاموش کرسکو ان لوگوںنے اسے بہت مال و دولت دینے کا لالچ دیا۔

وہ لوگ روز معینہ یحییٰ ابن اکثم کے ساتھ مامون کے دربار میں پہونچے مامون نے حکم دیا فرش بچھایا جائے اور دو تکیہ لاکر رکھ دیئے جائیں اس وقت امام ابو جعفرؑ جن کی عمر مبارک ۱۷ سال اور چند مہینہ تھی اس بزم میں حاضر ہوئے اور دونوں تکیوں کے درمیان بیٹھ گئے یحییٰ ابن اکثم بھی آپ کے سامنے بیٹھ گیا اور لوگ اپنے اپنے مرتبہ کے مطابق کھڑے ہوئے مامون بھی امام ابوجعفرؑ کے پاس بیٹھ گیا۔

یحییٰ ابن اکثم نے مامون سے پوچھا: اے امیر المومنین آپ اجازت دیتے ہیں کہ میں ابوجعفر سے کچھ سوالات کروں؟

مامون نے کہا: خود ابو جعفر ؑسے اجازت لو۔

یحییٰ نے آپ سے اجازت لے کر سوال کیا اگر کوئی شخص احرام کی حالت میں شکار کرے تو اس کا کفارہ کیا ہے؟۔

امام محمد تقی ؑنے اس سے سوال کیا کہ اس نے شکار حرم میں کیا تھا یا حرم کے باہر، محرم عالم تھا یا جاہل، عمداً ایسا کیا تھا یا غلطی سے ایسا ہوگیا تھا، محرم آزاد تھا یا غلام، وہ عمرہ کے احرام میں تھا یا حج کے احرام میں؟

یحییٰ ابن اکثم ان سوالات کا جواب دینے سے حیران رہ گیا اس طرح کہ اس کے چہرہ پر عاجزی کے آثار نمایاں ہوگئے اور حاضرین نے اچھی طرح اسے محسوس کر لیا۔ اس وقت مامون نے کہا اس نعمت اور توفیق پر خدا کا شکر ادا کرتا ہوں اس کے بعد اپنے خاندان والوں کی طرف دیکھا اور کہا دیکھا تم نے میں نے جو کچھ ابو جعفرؑ کے بارے میں کہا تھا وہ حق تھا۔

پھر اس کے بعد امام ابو جعفر ؑسے عرض کیا اگر آپ مناسب سمجھیں تو ان فقہی مسائل کی فروعات کا جواب آپ خود ہی دیدیں تاکہ ہمارے علم میں اضافہ ہوسکے۔

امام ؑنے فرمایا: اگر شکار حرم کے باہر کیا ہو اور وہ شکار بڑے پرندے کا ہو تو ایک گوسفند کفارہ میں دے۔ اگر حرم میں مارا ہو تو دو گوسفند دے۔ اگر شکار جوجہ (چھوٹے پرندہ) کا ہو اور حرم کے باہر مارا ہو تو ایک گوسفند کا بچہ کفارے میں دے جس کا دودھ چھڑا دیا گیا ہو۔ اور اگر جنگلی گدھے کا شکار کیا ہو تو اس کا کفارہ ایک گائے ہے اگر شتر مرغ کا شکار کیا ہو تو اس کا کفارہ ایک اونٹ ذبح کرنا ہے اگر شکار ہرن کا ہو تو اس کا کفارہ ایک گوسفند ہے اگر ان میں سے کسی ایک کا شکار حرم میں کیا ہو تو کفارہ دو گنا ہوجائے گا اور کعبہ کے پاس ذبح کرنا پڑے گا اگر احرام حج کا ہو تو وہ قربانی کا جانور ساتھ لیکر آئے اور اسے منی میں ذبح کرے حالت احرام میں کفارہ عالم اور جاہل دونوں کے لئے برابر ہے اگر عمداً کیا ہو تو گناہگار بھی اور اگر غلطی سے ہوگیا ہو تو گناہگار نہ ہوگا صرف کفارہ واجب ہوگا۔

جو کفارہ آزاد شخص پر واجب ہے وہ خود اسے دینا پڑے گا لیکن اگر غلام ہے تو اس کا کفارہ اس کے آقا پر لازم ہے۔

اگر شکار کرنے والا نابالغ ہو تو اس پر کفارہ واجب نہیں ہے۔

حالت احرام میں شکار کرنے والا اگر اپنے عمل پر توبہ کرلے تو آخرت میں اس پر عذاب نہیں ہوگا لیکن اگر توبہ نہ کرے اور اپنے گناہ پر اصرار کرے تو آخرت میں بھی عذاب کا مستحق ہوگا۔

یہ سن کر مامون نے کہا: شاباش ابو جعفر خدا آپ کو جزائے خیر عطا کرے اگر مناسب سمجھیں تو آپ بھی یحییٰ سے کوئی سوال کریں؟

امام ابو جعفر ؑنے یحییٰ ابن اکثم سے فرمایا: اجازت ہے کہ ایک سوال کروں؟

اس نے عرض کیا : پوچھئے اگر مجھے اس کا جواب معلوم ہوا تو جواب دے دوں گا ورنہ اس کا جواب خود آپ ہی سے معلوم کرلوں گا۔

امام ؑنے فرمایا: مجھے ایسے شخص کے بارے میں بتائیں جس نے دن کی ابتدا میںایک عورت کی طرف دیکھا تواس کا دیکھنا حرام تھا دن چڑھ جانے کے بعد اس مرد کے لئے اس عورت کی طرف دیکھنا حلال ہوگیا۔ ظہر کے وقت اس عورت کی طرف دیکھنا پھر حرام ہوگیا اور عصر کے وقت اس کی طرف دیکھنا حلال ہوگیا غروب آفتاب کے بعد دوبارہ اس عورت پر نظر ڈالنا حرام ہوگیا عشاء کے وقت پھر حلال ہوگیا آدھی رات میں پھر حرام ہوگیا طلوع فجر کے وقت پھر حلال ہوگیا یہ عورت کیسی عورت ہے اور یہ حلیت و حرمت کس طرح پیش آتی ہے؟

یحییٰ ابن اکثم نے عرض کیا: مجھے ان سوالوں کا جواب نہیں معلوم آپ بتا دیجئے تاکہ ہمارے علم میں اضافہ ہو جائے۔

امام ؑنے فرمایا: مذکورہ عورت ایک کنیز ہے جس کی طرف دن کی ابتدا میں ایک نامحرم دیکھتا ہے تو اس کا دیکھنا حرام ہے لیکن دن چڑھے وہ مرد اس کنیز کو اس کے آقا سے خرید لیتا ہے تو اس کی طرف دیکھنا حلال ہو جاتا ہے ظہر کے وقت اس کو آزاد کر دیتا ہے تواس کی طرف دیکھنا پھر حرام ہو جاتا ہے عصر کے وقت اس سے شادی کرلیتا ہے اوراس عورت کو دیکھنا حلال ہو جاتا ہے مغرب کے وقت ظہار کی صورت میں اس سے الگ ہو جاتا ہے اور اس کو دیکھنا حرام ہو جاتا ہے عشاء کے وقت کفارہ دیدیتا ہے اور اس کی طرف دیکھنا پھر حلال ہو جاتا ہے آدھی رات میں اسے طلاق دیدیتا ہے اوراس کی طرف دیکھنا حرام ہو جاتا ہے ۔ طلوع فجر کے وقت اسے پھر رجوع کر لیتا ہے اور اس کی طرف دیکھنا حلال ہو جاتا ہے۔

یہ سن کر مامون نے حاضرین کی طرف رخ کر کے کہا: تم میں سے کون اس طرح فقہی مسائل کا جواب دے سکتا ہے؟

ان لوگوں نے عرض کیا ہم میں ایسا کوئی نہیں ہے ۔

مامون نے کہا: تم لوگوںنے جو فضل و کمال اور جو علم دیکھا وہ اہلبیت ؑکا خاصہ ہے اور کمسنی ان کو ان کمالات سے محروم نہیں کرتی ہے۔

جب حاضرین امام جواد ؑکے فضائل و کمالات سے آگاہ ہوگئے تو مامون نے امام ؑکے ساتھ اپنی بیٹی ام الفضل کا عقد کر دیا ۔ خطبۂ عقد پڑھا گیا اور حاضرین کے درمیان ہدایا تقسیم کئے گئے۔ (۲١)

عیون المعجزات سے نقل ہوا ہے کہ جس وقت امام رضا ؑکی شہادت ہوئی امام جواد ؑکی عمر مبارک تقریباً ۷ سال تھی بغداد اوردوسرے شہروں کے شیعوں میں آپ کے جانشین کے سلسلہ میں اختلاف ہوگیا۔ الانوار، ج۵۰، ص۷۴؛ کشف الغمہ، ج۳، ص۱۴۳
ریان ابن صلت، صفوان ابن یحییٰ، محمد ابن حکیم، عبد الرحمن بن حجاج اوریونس ابن عبدالرحمن قابل اعتماد شیعوں کی ایک جماعت کے ساتھ عبدالرحمن ابن حجاج کے گھر میں جمع ہوئے اور امام رضاؑ کی رحلت پر گریہ کیا اس وقت یونس ابن عبد الرحمن کھڑے ہوئے اور کہا کہ بہتر ہے گریہ و زاری کو ختم کریں اور اس سلسلہ میں مشورہ کریں کہ اب اپنے دینی مسائل میں کس کی طرف رجوع کریں جب تک امام رضاؑ کے فرزند ابو جعفرؑ بڑے ہوں۔

یہ سن کر ریان ابن صلت بگڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا یونس تم بظاہر ایمان کا دعویٰ کرتے ہو لیکن باطن میں شک و تردید میں مبتلا ہو اگر امامت خداوند عالم کی جانب سے عطا ہوتی ہے توایک دن کا بچہ بھی ایک بوڑھے شخص کی طرح بلکہ اس سے بہتر ہوسکتا ہے اور اگر خدا کی طرف سے نہ ہو تو ہزار سال کی عمر سے بھی کوئی فائدہ نہ ہوگا اور اتنی طویل عمر رکھنے والا انسان بھی ایک عام انسان کی طرح ہوگا ہم کو اس طرح سوچنا چاہئے۔

وہ زمانہ حج کا زمانہ تھا بغداد کے علماء اور فقہاء ایک ساتھ حج پر جانے والے تھے وہ لوگ مدینہ گئے تاکہ امام ابوجعفر ؑسے ملاقات کریں وہ لوگ پہلے امام جعفر صادقؑ کے گھر گئے وہاں کوئی نہیں تھا۔

عبد اللہ ابن موسیٰ ان لوگوں سے ملاقات کے لئے آئے ایک شخص نے اٹھ کر ان سے کہا یہ فرزند رسولؐ ہیں جو مسائل پوچھنا چاہتا ہو ان سے پوچھ سکتا ہے لوگوں نے ا ن سے مسائل پوچھے عبداللہ نے ان کا جواب دیا لیکن تمام جوابات غلط تھے یہ دیکھ کر علماء و فقہاء اور شیعہ پریشان ہوگئے اور واپس جانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے وہ لوگ اپنے دلوں میں سوچ رہے تھے کہ اگر ابوجعفرمحمد تقی ؑ ان سوالوں کا صحیح جواب دے سکتے تو عبد اللہ سے یہ غلط جوابات نہ سننا پڑتے۔

اچانک صدر مجلس سے ایک دروازہ کھلا اور موفق داخل ہوئے اور انھوں نے کہا: امام ابوجعفر ؑتشریف لارہے ہیں۔

حاضرین ان کے استقبال کے لئے بڑھے ان کو سلام کیا اس وقت امام ابوجعفر ؑ پیراہن پہنے ہوے اس عالم میں وہاں تشریف لائے کہ آپ کے سر پر عمامہ اور پیروں میں نعلین تھی آپ ایک گوشہ میں بیٹھ گئے۔

لوگوں نے اٹھ کر آپ سے مسائل پوچھے اور ان کا جواب سنا تمام جواب صحیح اور شرعی قوانین کے مطابق تھے وہ لوگ خوش ہوئے اور آپ کے حق میں دعا کی اور عرض کیا کہ آپ کے چچا عبد اللہ نے فلاں فلاں جواب دیئے تھے آپ نے فرمایا، لا الہ الا اللّٰہ چچا یہ بہت سخت ہے کہ قیامت میںآپ کو روک کر کہا جائے جو کچھ تم نہیں جانتے تھے اس کے بارے میں فتوی کیوں دیا جب کہ تم سے اعلم شخص موجود تھا۔ (۲۲)

مختصر سی زندگی دشمنوں کی طرف سے کھڑی کی جانے والی مشکلات اور بعض شیعوں کی طرف سے غفلت برتے جانے کی وجہ سے آپ کو بہت کم موقع ملا لیکن اس کے باوجود آپ کی بہت سی احادیث تاریخ اور حدیث کی کتابوں میں موجود ہیں جن کا مطالعہ آپ کی جلالت علمی کو ثابت کرنے کے لئے مفید ثابت ہوسکتا ہے۔

آپ نے بہت سے شاگرد اور راویوں کی تربیت فرمائی مندرجہ ذیل افراد آپ کے قابل اعتماد اصحاب میں شمار ہوتے ہیں:
ایوب بن نوح، جعفر بن محمد بن یونس، حسین مسلم بن حسن، مختار بن زیاد عبدی، محمد بن حسین ابن ابی خطاب، شاذان بن خلیل نیشاپوری، نوح بن شعیب بغدادی، محمد بن احمد محمودی،
ابو یحیی ٰجرجانی، ابو القاسم ادریس قمی، علی بن محمد بن ہارون، اسحاق بن اسماعیل نیشاپوری، احمد بن ابراہیم مراغی، ابو علی بن بلال، عبد اللہ بن محمد حضین، محمد بن حسن بن شمعون۔ (۲٣)

عبادت اور اخلاق
امام محمد تقی ؑکی عمر مبارک اگرچہ مختصر تھی لیکن اپنے آباء و اجداد کی طرف توحید الٰہی اور مبدأ و معاد سے مربوط مسائل کے سلسلہ میں آپ کی معرفت انتہائی عمیق تھی آپ باطنی طور پر کائنات عالم کی حقیقتوں کا مشاہدہ کرتے تھے ان کا ایمان و یقین الفاظ اور ذہنی مفاہیم کی سطح سے کہیں بلند تھا اور یہ بھی امامت کے آثار اور اس کے لوازمات میں سے ہے لہٰذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ امام جواد محمد تقی ؑخشوع، خضوع، عبادت، نماز، دعا اور بہترین اخلاق سے آراستہ تھے اور نیک کاموں کی انجام دہی کے سلسلہ میں اپنے آباء و اجداد کی طرح کوشاں رہتے تھے اگر چہ کمسنی کی وجہ سے آپ کی طرف لوگوں کی توجہ نسبتاً کم تھی اور آپ کے سلسلہ میں بہت کم واقعات نقل ہوئے ہیں لیکن پھر بھی کچھ چیزیں ہم تک پہونچی ہیں۔

شیخ مفید علیہ الرحمہ نے لکھا ہے: جب امام ابو جعفر محمد تقی ؑاپنی زوجہ کے ساتھ بغداد سے مدینہ کی طرف روانہ ہوئے تو جب آپ کوفہ کے قریب پہونچے لوگوں نے آپ کا استقبال کیا مغرب کے وقت آپ مسیب کے گھر پہونچے سواری سے اترے مسجد گئے مسجد کے صحن میں ایک درخت تھا جس میں پھل بالکل نہیں آتے تھے آپ نے پانی منگا کر اس درخت کے پاس وضو کیا نماز مغرب لوگوں کے ساتھ جماعت سے ادا کی پہلی رکعت میں حمد اور سورۂ اذا جاء نصر اللہ پڑھا اور دوسری رکعت میں حمد اور قل ہو اللہ احد پڑھا دوسری رکعت کے رکوع سے پہلے قنوت پڑھا تیسری رکعت پڑھ کر تشہد و سلام پڑھا اس کے بعد کچھ دیر بیٹھے ذکر الٰہی کرتے رہے پھر چار رکعت نماز نافلۂ مغرب ادا کی، تعقیبات پڑھیں، دوسجدۂ شکر بجا لائے اور مسجد سے باہر تشریف لے گئے جب لوگ اس درخت کے پاس گـئے
تودیکھا کہ امام ابو جعفر ؑکے وضو کی برکت سے اس میں پھل آگئے۔

لوگوں نے اس کے پھل کھائے وہ انتہائی میٹھے اور مزے دار تھے اور ان میں گٹھلی بھی نہیں تھی آپ سے جو مناجاتیں نقل ہوئی ہیں ان میں سے ایک مناجات یہ ہے:
اللّٰہم! ان ظلم عبادک قد تمکن فی بلادک حتی أمات العدل و قطع السبل و محق الحق و أبطل الصدق و أخفی البر و أظہر الشر و أخمد التقویٰ و أزال الہدیٰ و أزاح الخیر وأثبت الغیر و أنمی الفساد و قوی العناد و بسط الجور و عدی الطور۔

اللّٰہم! یا رب! لا یکشف ذالک الا سلطانک و لا یجیر منہم الا امتنانک۔
اللّٰہم! رب! فابتر الظلم و بت حبال الغشم و أخمد سوق المنکر و أعز من عنہ ینزجر و أحصد شأخۃ أہل الجور و البسہم الحور بعد الکور۔

و عجل اللّٰہم الیہم البیات، و أنزل علیہم المثلات، و أمت حیاۃ المنکرات، لیؤمن المخوف و یسکن الملہوف و یشبع الجائع و یحفظ الضائع و یأوٰی الطرید و یعود الشرید و یغنیٰ الفقیر و یجار المستجیر و یوقر الکبیر و یرحم الصغیر و یعز المظلوم و یذل الظالم و یفرج المغموم و تنفرج الغماء و تسکن الدہمائ، و یموت الاختلاف و یعلو العلم و یشمل السلم و یجمع الشتات و یقوی الایمان و یتلی القرآن؛ انک أنت الدیان المنعم المنان۔(۲۴)
’’بار الہا! تیرے بندوں کا ظلم دنیا میں چھا گیا، عدل کا خاتمہ ہوگیا، راہ چارہ و تدبیر بند ہوگئی ، حق مٹ گیا، صداقت کو جھوٹ سے تعبیر کیا جا رہا ہے، نیکیوں پر پردہ ڈالا جا رہا ہے، برائیاں سر عام انجام پا رہی ہیں، تقویٰ ختم ہو رہا ہے، اور ہدایت زائل ہو رہی ہے، خیر کو اس کی جگہ سے ہٹا دیا گیا، فساد بڑھ رہا ہے، دشمنی میں اضافہ ہو رہا ہے، ظلم کے ہاتھ حد سے زیادہ بڑھ گئے ہیں۔

معبود! اے میرے پروردگار! اس سے چھٹکارا صرف تیری قدرت اور حکومت کے ذریعہ ہی حاصل ہوسکتا ہے۔
معبود! ظلم و ستم کی طنابیں کاٹ دے اور برائیوں کی ترویج کو روک دے، برائیوں سے نفرت کرنے والے کو عزت دے، ظلم و جور کرنے والوں کی جڑیں کاٹ دے اور ان کو ذلت و رسوائی کا لباس پہنا دے، ان پر جلد از جلد عذاب نازل کر، ان کو دوسروں کے لئے درس عبرت قرار دے، برائیوں اور گناہوں کا خاتمہ کردے تاکہ خوفزدہ افراد امن و امان محسوس کریں اور پریشان حال افراد کو راحت مل جائے، بھوکے سیر ہوسکیں، برباد ہو جانے والوں کی حفاظت ہوسکے، بے پناہوں کو پناہ گاہ مل جائے، تیری اطاعت سے سر پھرے لوگ دوبارہ تیرے اطاعت گذار بن جائیں، فقراء غنی ہو جائیں، پناہ مانگے والوں کو پناہ مل جائے، بڑوں کا احترام ہو، بچوں پر رحم کیا جائے، مظلوم کو عزت ملے، ظالمین رسوا ہوں، غم زدہ افراد کا غم و الم دور ہو، مصیبتوں کے بادل چھٹ جائیں، پریشان حال افراد کو سکون مل جائے، اختلافات کا خاتمہ ہو جائے، علم کی ترقی ہو، صلح و سلامتی قائم ہو، آپسی فاصلے کم ہوں، ایمان مستحکم ہو، قرآن کی تلاوت کی جائے، بیشک تو بہترین حاکم، فیصلہ کرنے والا، نعمتیں دینے والا اور احسان کرنے والا ہے‘‘۔

بست و سجستان کے رہنے والے بنی حنیفہ کے ایک شخص کا بیان ہے جس سال امام ابو جعفرؑ معتصم عباسی کے خلافت کے ابتدائی دور میں حج کے لئے تشریف لے گئے میں نے کھانے کے دسترخوان پر آپ سے عرض کیا کہ ہمارا حاکم آپ اہلبیتؑ سے محبت اور عقیدت رکھتا ہے اس کے دفتر میں میرے اوپر کچھ ٹیکس لکھ دیا گیا ہے جس کو ادا کرنے سے میں قاصر ہوں اگر آپ مناسب سمجھیں تو اس سے کہہ دیں کہ مجھ پر احسان کرے۔

آپ نے کاغذ منگایا اور اس پر اس طرح لکھا:
اما بعد: فان موصل کتابی ہذا ذکر عنک مذہباً جمیلاً و ان مالک من عملک مااحسنت فیہ فاحسن اخوانک و اعلم ان اللّٰہ سائلک عن مثامیل الذر و الخردل۔

اس خط کے حامل نے تمہارے بارے میں بہترین مذہب کا تذکرہ کیا ہے تمہارے عمل کی خوبی تمہارے حسن سلوک میں ہے لہٰذا اپنے بھائیوں کے ساتھ حسن سلوک کرو اور آگاہ رہو کہ خداوندعالم ذروں اور سرسوں کے دانوں کے برابر چیزوں کے بارے میں بھی سوال کرنے والا ہے۔

اس شخص کا بیان ہے: کہ میں جب سجستان پہونچا وہاں کے حاکم حسین ابن عبد اللہ نیشاپوری کو اس خط کی اطلاع ملی تو وہ دو فرسخ میرے استقبال کے لئے آیا میں نے اس کو امامؑ کا خط دیا اس نے اس خط کو چوما آنکھوں سے لگایا اور کہا تیری کیا حاجت ہے؟

میں نے عرض کیا: کہ آپ کے دفتر میں میرے اوپر کچھ ٹیکس لکھ دیا گیا ہے جس کو ادا کرنے کی مجھ میں طاقت نہیں ہے اس حاکم نے حکم دیا کہ مجھ سے وہ ٹیکس نہ لیا جائے۔ اور کہا کہ جب تک میری حکومت ہے تجھ سے ٹیکس نہ لیا جائے گا۔

اس کے بعد میرے اہل و عیال کے بارے میں پوچھا میں نے ان کے بارے میں بتایا تو اس نے حکم دیا کہ مجھے میرے اور میرے اہل و عیال کی ضرورت کے مطابق بلکہ اس سے کچھ زیادہ عطا کیا جائے جب تک وہ شخص حاکم رہا مجھ سے کوئی ٹیکس نہیں لیا گیا اور جب تک زندہ رہا میرے ساتھ حسن سلوک کو ترک نہیں کیا۔ (۲٥)

ابو ہاشم کا بیان ہے: ابو جعفر ؑنے مجھے ایک تھیلی میں تین سو دینار عطا کئے اور فرمایا کہ میرے چچا کے فلاں بیٹے کودے آؤ۔

امام ؑنے فرمایا: کہ وہ تم سے کہے گا مجھے کسی ایسے شخص کے بارے میں بتاؤ جو میرے لئے خریداری کرسکے جب میں نے لیجا کر آپ کے چچا کے بیٹے کو وہ دینار دیئے تو انھوں نے کہا مجھے کسی ایسے شخص کے بارے میں بتاؤ جو میرے لئے گھر کا سامان خرید کر لاسکے۔ (۲٦)

بزنطی کا بیان ہے کہ امام رضا ؑنے اپنے بیٹے ابو جعفر ؑ کو خط لکھا: اے ابو جعفر ؑمیں نے سنا ہے کہ خدمتگذار تم کو چھوٹے دروازہ سے باہر لیجاتے ہیں یہ لوگ بخل کرتے ہیں کہ کہیں تمہارے ذریعہ کسی کو فائدہ نہ پہونچ جائے بیٹا میں تمہیں اپنے حق کی قسم دیتا ہوں کہ تمہارا آنا جانا صرف بڑے دروازہ سے ہو جب گھر سے باہر نکلو تو کچھ نہ کچھ پیسے ضرور تمہارے ہمراہ ہوں اور جو تم سے مدد مانگے اسے ضرور کچھ نہ کچھ عطا کرو۔ اگر تمہارے چچا یا چچا کے بیٹے تم سے مدد کی درخواست کریں تو پچاس دینار سے کم نہ دینا اس سے زیادہ کا تمہیں اختیار ہے اگر تمہاری پھوپھیاں تم سے درخواست کریں توانھیں پچیس دینار سے کم نہ دینا اس سے زیادہ کا تمہیں اختیار ہے میں چاہتا ہوں خدا تمہارا مرتبہ بلندکرے، عطا کیا کرو اور فقر و تنگدستی سے خوف زدہ نہ ہو۔ (۲۷)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١)کافی، ج۱، ص۴۹۲؛ بحار الانوار، ج۵۰، ص۲
(۲)مطالب السؤول، ج۲، ص ۱۴۰،؛ مناقب آل ابی طالب، ج۴، ص۴۱۰
(٣)بحار الانوار، ج۵۰، ص۱۲
(۴)بحار الانوار، ج۵۰، ص۱
(٥)الارشاد، ج۲، ص۲۷۴
(٦)الارشاد، ج۲، ص۷۵
(۷)الارشاد، ج۲، ص۲۷۷،؛ الفصول المہمہ، ص۲۴۷
(۸)الارشاد، ج۲، ص۲۷۷،؛ الفصول المہمہ، ص۲۴۷
(۹)الارشاد، ج۲، ص۲۷۷
(١۰)الارشاد، ج۲، ص۲۷۷
(١١)الارشاد، ج۲، ص۲۷۷
(١۲)الارشاد، ج۲، ص۲۷۸
(١٣)الارشاد، ج۲، ص۲۷۹
(١۴)الارشاد، ج۲، ص۲۷۹؛ الفصول المہمہ، ص۲۴۷
(١٥)بحار الانوار، ج۵۰، ص۱۸
تمہارے امام اور ولی ہیں۔ (١٦)
(١٦)بحار الانوار، ج۵۰، ص۳۴
(١۷)بحار الانوار، ج۵۰، ص۳۴
(١۸)الارشاد، ج۲، ص۲۷۹
(١۹)الارشاد ج۲، ص۲۸۱
(۲۰)الارشاد، ج۲، ص۲۷۹؛ الفصول المہمہ، ص۲۴۷
(۲١)الارشاد، ج۲، ص۲۸۱؛ الفصول المہمہ، ص۲۴۹؛ بحار
(۲۲)بحار الانوار، ج۵۰، ص۹۹
(۲٣)مناقب آل ابی طالب، ج۴، ص۴۱۲
(۲۴)فادتنا، ج۷، ص۲۵؛( نقل از منہج الدعوات، ۳۲۸)
(۲٥) کافی، ج۵، ص۱۱۱
(۲٦)مناقب آل ابی طالب، ج۴، ص۴۲۲۔
(۲۷) بحار الانوار، ج۵۰، ص ۱۰۲

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬