29 July 2020 - 15:03
News ID: 443304
فونت
سینیئر صحافی عامر سہیل کے مطابق متنازع بل پیش کرکے اہل تشیع کو کارنر کرنے اور ان پر دوسرے فرقے کی سوچ مسلط کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ بل علم و تحقیق کی راہ میں رکاوٹ بنے گا، یعنی کسی کے پاس اگر کوئی ایسی کتاب ہوگی۔

تحریر: ت - ح - شہزاد

تحفظ بنیاد اسلام ایکٹ ایسے لگ رہا ہے کہ ملک میں فرقہ واریت کو ہوا دینے کی سازش ہے۔ اس بل کے محرک کالعدم سپاہ صحابہ کے پنجاب اسمبلی میں رکن معاویہ اعظم طارق ہیں۔ جنہوں نے الیاس چنیوٹی، حافظ عمار یاسر، حافظ طاہر اشرفی اور چودھری راسخ الہیٰ کی معاونت سے بل پیش کیا۔ صوبائی وزیر حافظ عمار یاسر اور چودھری راسخ الہیٰ کا تعلق دیوبند کی تبلیغی جماعت سے ہے۔ یہ بل اسمبلی میں پیش کرنے سے صرف ایک دن پہلے اسمبلی کے ایجنڈے میں لایا گیا اور دوسرے دن اسے ایوان میں پیش کر دیا گیا۔ موجودہ سیکرٹری پنجاب اسمبلی محمد خان بھٹی چودھری پرویز الہیٰ کے ذاتی کلرک رہے ہیں اور انہی کی نوازشات سے یہاں تک پہنچے ہیں۔ ڈائریکٹر جنرل ریسرچ عنایت اللہ لک کے توسط سے اس بل کو ایجنڈے کا حصہ بنایا گیا ہے۔ یہ بل پنجاب اسمبلی کے قواعد کی شق 154(2) کے تحت پیش کیا گیا اور اس پر کوئی بحث بھی نہیں ہوئی اور اسے منظور کر لیا گیا۔ ایک اور اہم نقطہ ہے کہ کورونا کے باعث 371 ارکان کے بجائے صرف 100 ارکان کو ایوان میں بیٹھنے کی اجازت ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ 51 ارکان کی تائید سے کوئی بھی قانون سازی کی جا سکتی ہے۔

تحریک حسینیہ پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر علامہ محمد حسین اکبر کہتے ہیں کہ یہ بل بدنیتی پر منبی ہے۔ "اسلام ٹائمز" سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ تکفیری گروہ کے رکن نے اپنے ناپاک عزائم کی تکیمل کیلئے یہ بل ایوان میں پیش کرکے ملک کو فرقہ واریت کی آگ میں جھونکنے کی سازش کی ہے۔ ڈاکٹر محمد حسین اکبر کے مطابق 1973ء کے متفقہ آئین کی موجودگی میں کسی نئے بل کی ضرورت ہی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی قانون بنانا ہی تھا، کوئی بل ایوان میں لانا ہی تھا تو بل سے متعلق فریقین سے مشاورت تو کی جاتی، اس بل کے معاملے میں کسی شیعہ عالم یا شیعہ جماعت سے مشورہ تک نہیں کیا گیا، بلکہ یہ بل رات کے اندھیرے میں تیار کرکے عجلت میں منظور کر لیا گیا۔ مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ عبدالخالق اسدی نے "اسلام ٹائمز" سے گفتگو میں کہا کہ ہم نے روزِ اول سے دہشتگردی اور فرقہ واریت کی مخالفت کی ہے۔ ہم نے وحدت کے فروغ کیلئے تمام مکاتب فکر کو ایک میز پر لانے کیلئے کردار ادا کیا ہے۔

علامہ اسدی کہتے ہیں تکفیری گروہ کا رکن ملک میں دوبارہ 80ء کی دہائی کا ماحول پیدا کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے گورنر پنجاب کو فوری خط لکھا کہ وہ اس بل پر دستخط نہ کریں، بلکہ اسے فوری طور پر واپس اسمبلی میں بھجوائیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ بل اسلام اور آئین پاکستان سے متصادم ہے، اس میں کوئی ترمیم نہیں بلکہ اس کا مکمل خاتمہ چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عجلت میں پیش کیا گیا بل بتا رہا ہے کہ اس کے پیچھے کوئی سازش تھی، ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ایوان کو پابند بنایا جائے کہ کوئی بھی بل اگر پیش ہوتا ہے تو اس کی منظوری کیلئے باضابطہ طور پر ایوان سے رائے لی جائے اور قانونی تقاضے پورے کئے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ اس سازش کے تمام کرداروں کو بھی بے نقاب کیا جائے، چونکہ اس بل کے محرکین نے توہین رسالت (ص) کی ہے، ان کیخلاف توہین رسالت (ص) ایکٹ کے تحت کارروائی عمل میں لائی جائے۔

شیعہ علماء کونسل پنجاب کے صدر علامہ سبطین سبزواری نے "اسلام ٹائمز" سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے سپیکر پنجاب اسمبلی سے ملاقات کی ہے۔ اس ملاقات میں ہم نے اس بل کے حوالے سے اپنے تمام تحفظات شق وار پیش کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چودھری پرویزالہیٰ نے ہمیں یقین دلایا ہے کہ اس بل پر وہ مشاورت جاری رکھیں گے اور تحفظات دور کریں گے۔ علامہ سبزواری کا کہنا تھا کہ اس بل سے صرف مذہبی کتابوں کی اشاعت ہی متاثر نہیں ہوگی بلکہ تمام عمومی کتب کیلئے بھی مسائل پیدا ہوں گے۔ اس قانون کے تحت باہر سے کوئی کتاب نہیں آسکے گی، یہ تو عوام کو جدید علوم، ریسرچ اور دنیا کے لٹریچر سے محروم کرنے کی سازش ہے۔ علامہ سبزواری نے کہا کہ ہماری بہت سے کتب ایران یا عراق سے آتی ہیں، اہلسنت برادران کی کچھ کتب سعودی عرب سے امپورٹ ہوتی ہیں، دونوں ممالک کے عقائد مختلف ہیں، کیا سعودی عرب والے اہلبیت اطہارؑ کے ناموں کیساتھ علیہ السلام لکھیں گے؟ یقیناً نہیں، تو اس کا مطلب ہے کہ علم کو پاکستان میں داخل ہی نہیں ہونے دیا جائے گا۔ یعنی ایران یا سعودی عرب میں شائع ہونیوالی کتاب پنجاب میں داخل نہیں ہوسکے گی، یعنی اسے پنجاب میں آنے کیلئے تکفیری گروہ کا کلمہ پڑھ کر "مسلمان" ہونا پڑے گا۔؟

انہوں نے کہا کہ ہمارے خیال سے یہ بل سرے سے ہی غلط ہے۔ اس میں بہت سے معاملات حساس ہیں، ظاہر ہے کہ ابتدائے اسلام میں صحابہ میں بھی اختلافات تھے، تو کیا اس بل کی رو سے ایک صحابی کی مخالفت کرنیوالا دوسرا صحابی کیا ہوگا؟؟، اُسے کیا سٹیٹس دیں گے؟ علامہ سبزواری کہتے ہیں کہ یہاں تو طاہر اشرفی کہتا ہے کہ صحابہ کا منکر کافر ہوگا، تو ایک صحابی جب دوسرے صحابی کا منکر ثابت ہوگیا تو اس صحابی کیلئے بھی کوئی ایسا ٹائٹل استعمال کیا جائے گا؟؟ یہ وہ مسائل ہیں جو اتحادِ اُمت کی خاطر جید علمائے کرام نے نہاں خانوں میں چھپا رکھے ہیں۔ انہیں نظرانداز کر دیا گیا ہے، معتدل نظریات پر ہی بات ہوتی ہے، اگر یہ قانون منظور ہوتا ہے تو یہ تو پورے کا پورا آوہ بگڑ جائے گا۔ یہ تکفیری رکن کی بہت بڑی سازش ہے، جس کا شکار پنجاب حکومت ہوگئی ہے۔ پنجاب حکومت کو مِس گائیڈ کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس قانون کا مقصد عوام کے نظریات کو روکنا اور ان پر قابو پانا ہے، یعنی ایک گروہ اپنی سوچ اور نظریہ دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جو کسی جمہوری حکومت یا ملک میں نہیں ہوسکتا، ایسا دور آمریت میں بھی نہیں ہوتا۔

علامہ سبزواری کہتے ہیں ہم نے کھل کر چودھری پرویزالہیٰ کو اپنے تحفظات سے آگاہ کر دیا ہے کہ یہ بل آئین پاکستان کے آرٹیکل 19، 20 اور 227 سے متصادم ہے۔ ملک کا آئین ہر مسلک، فرقے اور مذہب کو اپنے عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے کا حق دیتا ہے، جبکہ یہ قانون اس حق کو صلب کر رہا ہے۔ دوسری جانب سینیئر صحافی عامر سہیل نے "اسلام ٹائمز" سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ بل غیر قانونی، غیر اسلامی اور غیر آئینی ہے۔ اس کی ضرورت ہی نہیں تھی، بلکہ اس بل کو دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ کسی اور مقصد کیلئے پیش کیا گیا ہے۔ عامر سہیل کا کہنا تھا کہ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے اور ایک اسلامی جمہوری ریاست میں شعائر اسلام کیلئے 70 سال بعد قانون سازی کرنا بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ انہوں نے کہا کہ حضور نبی کریم (ص) کا تمام مذاہب احترام کرتے ہیں، ہندو، سکھ، عیسائی تمام آپ (ص) کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، دراصل یہ بل پیش کرنا بذات خود ہمارے ایمان کی کمزوری کی دلیل ہے۔ انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف کے دور میں ملائیت کا جن بوتل میں بند کر دیا گیا تھا، ملک میں امن بھی ہوگیا تھا، مگر اب نجانے کس ضرورت کے تحت ملائیت کے جن کو دوبارہ بوتل سے نکالا جا رہا ہے۔؟

عامر سہیل کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اہل تشیع کا ایک کردار ہے، جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، دہشتگردی کیخلاف جنگ میں ان لوگوں نے بھی قربانیاں دی ہیں، ماضی میں ان کے اہم ڈاکٹرز، انجیئرز، ماہرین تعلیم، جید علمائے کرام کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کی تکفیر کی جاتی رہی، مگر انہوں نے پاکستان سے محبت کیلئے جواب میں خانہ جنگی شروع نہیں کی، بلکہ تحمل سے اس کا مقابلہ کیا۔ اس طرح ایک متنازع بل اہل تشیع کو کارنر کرنے اور ان پر دوسرے فرقے کی سوچ مسلط کرنے کی کوشش ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ بل علم و تحقیق کی راہ میں رکاوٹ بنے گا، یعنی کسی کے پاس اگر کوئی ایسی کتاب ہوگی، جس میں رضی اللہ یا امیر المومنین یا حضور نبی کریم (ص) کے نام کیساتھ خاتم النبین نہیں لکھا ہوگا تو اسے گرفتار کر لیا جائے گا۔؟ پانچ سال قید یا پانچ لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جائیں؟ کمال ہے۔ عامر سہیل کہتے ہیں یہ بل بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

اہلسنت علماء کی تنظیم مرکزی علمائے اہلسنت کے رہنما مفتی علامہ شبیر انجم کہتے ہیں کہ ہم اس بل کو بنیاد اسلام بل نہیں بلکہ بنیاد خارجیت بل کہتے ہیں، اگر بل ایکٹ بن جاتا ہے تو ہم پھر کوئی دینی بات ضابطہ تحریر میں نہیں لاسکتے، یہ بل اہلسنت کی نسلوں کو تبدیل کرنے کی سازش ہے، جسے مسترد کرتے ہیں۔ "اسلام ٹائمز" سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ صحیح بخاری و مسلم جو کہ اہلسنت کی معتبر کتب ہیں، ان میں حضرت امام حسن علیہ السلام لکھا ہوا ہے، خاتونِ جنت حضرت فاطمہ کو سلام اللہ علیہا کہہ کے لکھا گیا ہے، ہمارے اکابرین بھی اہلبیت کیلئے علیہ السلام کے الفاظ ہی استعمال کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ بل کے محرکین اپنا عقیدہ و تکفیری نظریات دوسرے مکاتب فکر پر مسلط نہیں کرسکتے، یہ پاکستان اہل تشیع اور اہلسنت نے مل کر بنایا تھا اور آج جو لوگ فرقہ واریت کے بیج بونے جا رہے ہیں، ان کے اجداد نے قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی۔

منبع: اسلام ٹائمز

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬