04 September 2020 - 18:57
News ID: 443638
فونت
کیا ہمارے دشمن چاہتے ہیں کہ پاکستان میں ویسے ہی حالات پیدا ہوجائیں اور ایک مسلک کی عددی اکثریت کو دوسرے مسلک کے خلاف استعمال کرکے فضا کو تیرہ و تار کردیں۔ کیا مردانِ رشید جاگ رہے ہیں؟ کیا اہل تدبر اس صورتحال پر غور کرینگے؟ کیا مردان کار میدان میں آئیں گے؟

تحریر: ثاقب اکبر

متحدہ عرب امارات کی طرف سے جب اسرائیل کو تسلیم کرنے کا منصوبہ آشکار ہوا تو عالم اسلام میں ایک ردعمل پیدا ہوا۔ امارات کے اس فیصلے کے خلاف پاکستان میں بڑے بڑے مظاہرے ہوئے۔ ترکی نے بھی اس کے خلاف بھرپور آواز اٹھائی۔ اس کے بعد محرم الحرام آگیا اور حسب معمول امام حسینؑ اور ان کے اعوان و انصار کی یاد میں مجالس اور جلوسوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس دوران میں صہیونی اور استعماری قوتوں نے اپنا کھیل جاری رکھا۔ سعودی عرب سے پرواز کرکے اسرائیل کا پہلا طیارہ امارات میں اترا۔ اس سے پہلے اسرائیلی انٹیلی جنس موساد کے سربراہ نے بھی امارات کا دورہ کیا اور اب اس امر کی تیاری ہو رہی ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم اور متحدہ عرب امارات کے ولی عہد محمد بن زید امریکی صدر ٹرمپ کی خدمت میں پہنچیں اور مل کر اس دستاویز پر دستخط کریں، جس کے نتیجے میں امارات باقاعدہ اسرائیل کو تسلیم کر لے گا۔

بی بی سی کے مطابق پیر (31) اگست کو اسرائیل سے امارات پہنچنے والی سرکاری پرواز کی اڑان ایک تاریخی واقعہ تھا، جس میں اسرائیلی عہدیداروں کے علاوہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد جیریڈ کشنر بھی موجود تھے۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے ہی مشرق وسطیٰ کا تازہ سکرپٹ لکھا ہے۔ اس دوران میں صہیونی اور استعماری طاقتوں نے یہ ضروری سمجھا کہ مسلمانوں کو دیگر مسائل میں الجھا دیا جائے، تاکہ وہ اپنے ایجنڈے پر آرام اور اطمینان سے عمل کرسکیں۔ پاکستان میں ایک طویل عرصے بعد جو فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی فضا پیدا ہوگئی تھی، اسے نشانہ بنایا گیا اور آج پھر فرقہ واریت کے شعلے ابھرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مختلف مسالک سے وابستہ بعض افراد نامعقول باتیں کرتے رہتے ہیں اور ان کے خلاف قانون بھی حرکت میں آتا رہتا ہے لیکن اس کے نتیجے میں ایک مسلک پورے مسلک کے خلاف کھڑا ہو جائے، یہ روایت پاکستان میں ختم ہوتی جا رہی تھی، لیکن محرم الحرام میں اسے پھر زندہ کر دیا گیا ہے۔

شیعہ سنی مسالک میں بعض پیشہ ور، انتہاء پسند اور حقائق سے نابلد عناصر نے ایسی باتیں کی ہیں، جو قابل گرفت بھی ہیں اور ناپسندیدہ بھی، لیکن وہ افراد جنھیں اس ملک کا امن منظور نہیں ہے، انھوں نے ایسے واقعات کو اپنے منفی ایجنڈے کے لیے بنیاد بنا کر شدت پسندی کو فروغ دینے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ بعض جماعتیں جن کی پیدائش کا محرک ہی تکفیری اور تشدد پر مبنی فضا پیدا کرنا تھا، انھیں لگ رہا تھا کہ ان کے وجود کا اب کوئی جواز باقی نہیں رہا۔ اسی طرح بعض لوگوں کو موجودہ حکومت سے کچھ شکایات ہیں، بعض نے اپنے مناصب سے محرومی کا بدلہ لینے کے لیے مذہبی اور مسلکی امور کو استعمال کرنا شروع کر دیا ہے، جبکہ وہ عوام کے سامنے اپنا مذہبی تاثر قائم کرنے کے لیے کوشاں ہیں اور ظاہر کر رہے ہیں کہ ان کا کوئی سیاسی اور مادی ایجنڈا نہیں ہے۔ افسوس کہ بعض ایسی جماعتوں اور شخصیات کہ جو ایک عرصے سے اتحاد امت کے لیے سرگرم عمل دکھائی دے رہی تھیں، وہ بھی اس فضا سے متاثر دکھائی دے رہی ہیں۔

ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ ہزاروں لاکھوں افراد کے خطابات میں اگر ہم آہنگی کا پیغام موجود تھا یا پھر ہم آہنگی کے خلاف کوئی بات نہیں تھی تو اسے نمایاں کرنے کی ضرورت تھی۔ اگر چند افراد نے توہین آمیز باتیں کی ہیں تو انھیں ان کا انفرادی فعل شمار کیا جانا چاہیے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ایسے افراد جن کے بارے میں شکایات کی جا رہی ہیں، ان میں سے متعدد کے خلاف مقدمات بھی قائم ہوگئے ہیں اور بعض کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک شخص کے خلاف مقدمہ قائم ہوا تو وہ ملک سے نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔ ایسے تمام مسائل کی بنیاد پر کسی پورے مکتب فکر کو نشانہ بنانا کسی طور بھی معقول قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنے آپ کو شیعہ ظاہر کرنے والے اکا دکا افراد نے بعض توہین آمیز باتیں کی ہیں، لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ دوسری طرف اپنے آپ کو اہل سنت ظاہر کرنے والے بعض افراد نے امیرالمومنین امام علیؑ کی توہین کی ہے اور بعض نے تو یزید کی حمایت میں تقریریں کی ہیں اور اس کے لیے رحمة اللہ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ یزید کی تعریف کرنا بھی ایک لحاظ سے رسول اللہ اور اہل بیت اطہارؑ کی توہین کے مترادف ہے۔ جب اہل بیتؑ کے دشمنوں سے اظہار محبت کیا جائے گا تو اس کا اہل بیتؑ کی توہین کے علاوہ کیا مطلب نکل سکتا ہے۔ اس کے باوجود ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ان افعال اور اظہارات کو انفرادی افعال میں شمار کیا جائے اور اسے پورے مسلک پر تھونپنے سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔ مختلف مسالک صدر اول اسلام سے موجود ہیں، ان میں فکری اور نظری اختلافات بھی ہیں۔ ماضی میں خود اہل سنت کے مختلف مسالک میں خونریز معرکے ہوچکے ہیں۔ تاریخ کے صفحات مسلکی اختلافات کے خونیں نتائج سے آلودہ ہیں۔ مسلمانوں کے انتشار نے انھیں زوال کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ اغیار کا تسلط اسی انتشار کا نتیجہ ہے۔ آج بھی اسرائیل قدم بہ قدم آگے بڑھ رہا ہے۔ امریکہ اپنے منحوس مقاصد پورے کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کر رہا ہے۔ وہ اعلانیہ طور پر پاکستان میں سی پیک کا مخالف ہے۔

ہندوستان میں مسلمانوں کی زندگی کو اجیرن کر دیا گیا ہے۔ کشمیریوں پر ظلم و ستم جاری ہے۔ پاکستان کے خلاف دھمکیوں کا سلسلہ ابھی تک ختم نہیں ہوا۔ ہمارے وزیراعظم کہہ چکے ہیں کہ بھارت کسی وقت بھی پاکستان کے خلاف کوئی کارروائی کرسکتا ہے۔ ان حالات میں کیا یہ دانشمندی ہے کہ بعض انفرادی واقعات کو بنیاد بنا کر پاکستان میں نئے سرے سے مسلکی جنگ کا آغاز کر دیا جائے۔ اختلافات کو ایک سلیقے اور حدود میں رکھنے پر پہلے بھی ہم اتفاق کرچکے ہیں، اس اتفاق کو گہرا بنانے کی ضرورت ہے۔ اکا دکا واقعات کا نوٹس لینا بھی ضروری ہے لیکن ہم آہنگی اور یکجہتی کی فضا کو خراب کرنا کسی صورت اسلام اور مسلمانوں کے فائدے میں نہیں۔ اس وقت تک کئی مسلمان ممالک کو تباہ و برباد کیا جا چکا ہے۔ پاکستان پر بھی دہشت گردی کا عفریت ایک مدت تک مسلط رہا ہے۔ اس کے خلاف ہمارے ریاستی اداروں کے علاوہ علماء نے بھی اپنا مثبت کردار ادا کیا ہے۔ ملی یکجہتی کونسل اسی مثبت کردار کی ایک علامت ہے، پیغام پاکستان جیسی دستاویز بھی ہم آہنگی اور ملکی سلامتی کے حوالے سے ایک اہم دستاویز ہے۔ ہمیں ان بنیادوں پر واپس آنا ہوگا۔ ایسا نہ ہو کہ پھر بہت کچھ گنوا کر ہمیں پھر ان دستاویزات پر واپس آنا پڑے۔

آخر میں ہم توجہ دلانا چاہیں گے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ پاکستان میں تعداد کے لحاظ سے جس مسلک کے ماننے والے کم ہیں، ان کے اندر وہی احساس پیدا ہو جائے جو بھارت میں مسلمانوں کے اندر پیدا ہوچکا ہے۔ بی جے پی نے ہندوﺅں کی عددی اکثریت کو اپنے سیاسی ایجنڈے کے لیے مسلمان اقلیت کے خلاف وحشیانہ انداز سے استعمال کیا ہے۔ کیا ہمارے دشمن چاہتے ہیں کہ پاکستان میں ویسے ہی حالات پیدا ہو جائیں اور ایک مسلک کی عددی اکثریت کو دوسرے مسلک کے خلاف استعمال کرکے فضا کو تیرہ و تار کر دیں۔ کیا مردانِ رشید جاگ رہے ہیں؟ کیا اہل تدبر اس صورت حال پر غور کریں گے؟ کیا مردان کار میدان میں آئیں گے؟ کیا اتحاد و یکجہتی کی ضرورت کا احساس کیا جائے گا؟ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر شام، عراق اور لیبیا کی مثال بننے سے ہمیں کون روک سکتا ہے۔ خدا نہ کرے ایسا ہو۔ یہ بات کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ جنگ اور دھونس کے ذریعے ایک مسلک دوسرے مسلک کو ختم نہیں کرسکتا۔ جب صدیوں میں ایسا نہیں ہوسکا تو اب بھی نہیں ہوگا۔ ظلم کرنے والے رسوا ہو جائیں گے، عدل و انصاف کے حامی آخر کار کامیاب ہوں گے۔/

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬