03 May 2010 - 13:30
News ID: 1276
فونت
سید محمد جابر باقری جوراسی :
رسا نیوز ایجنسی ۔ مولانا سید محمد جابر باقری جوراسی ایڈیٹر ماہنامہ اصلاح نے خواتین ریزر ویشن بل کو ہندوستانی سیاست میں مسلمانوں کی نمائندگی کم کرنے والا بتایا
جابير جوراسي

 

رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کے مطابق مولانا جابر باقری جوراسی نے کہا : لگ بھگ ١٥سال کی قیل و قال کے بعد پارلیمنٹ کے رواں اجلاس میں خواتین کا ٣٣ فیصد ریزرویشن بل پیش ہوکر راجیہ سبھا میں شورو ہنگامہ کے بعد پاس ہوگیا، اب اس بل کے قانون بننے کے سفر میں لوک سبھا ، نصف صوبائی اسمبلیوں اور صدر جمہوریہ کی دستخط کے مراحل ہیں جس میں ابھی کئی مہینے لگ سکتے ہیں، ابھی تو یہ بل بڑا خوش آئند ، عورتوں کو ان کے حقوق دلانے ولا اور بادی النظر میں انصاف کا پرچم لہرانے والا ہے۔

جابر جوراسی نے کہا : ٣٣ فیصد کی شرط بتارہی ہے کہ انصاف کی نوعیت کیا ہے ؟ جس ملک میں عورت و مرد کی آبادی تقریباً مساوی ہو وہاں پچاس فیصد کے بجائے ٣٣ فیصد کی بات کرنا خود اس بل کے غیر عادلانہ ہونے کا ثبوت ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ عورتیں آزاد ہیں ٦٧فیصد میں یہ اپنی مزید جگہ بنالیں تو پھر حق یہ ہے کہ کوئی شرط ہونا ہی نہ چاہئے۔ صد فی صد میں جس سے جو ممکن ہو وہ اپنی جگہ بنالے۔

انہوں نے کہا :  ملک کے ساتھ انصاف یہ ہے کہ ریزرویشن کے بجائے صلاحیتوں کے لحاظ سے ممبران کا انتخاب ہو البتہ بشکل مجبوری اگر ٣٣فیصد ریزرویشن دینے کا تہیہ ہی کرلیا گیا ہو تو پھر اس میں مسلم اور دولت خواتین کا کوٹہ مقرر کرنے کا مطالبہ نامناسب نہیں، اس لئے کہ خواتین کی نمائندگی میں کمی کی تشویش سے زیادہ یہ بات قابل تشویش ہے کہ ملک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ یعنی مسلمان ان کی پارلیمنٹ میں نمائندگی برائے نام ہے اور اب یہ ٣٣ فیصد خواتین کے ریزرویشن کے بعد یہ برائے نام نمائندگی بھی خطرہ میں ہے۔

ایڈیٹر ماہنامہ اصلاح نے وضاحت کرتے ہوئے کہا : ماضی کے تلخ تجربات اس تشویش میں مبتلا کرتے ہیں کہ چاہے وہ ایٹمی معاہدہ کا معاملہ ہو، ایران سے براہ پاکستان گیس کی فراہمی کے معاہدہ کا تعطل ہو یا خواتین کا ریزرویشن بل کہیں ان سب باتوں کی منصوبہ بندی حدود ملک سے باہر کی تو نہیں؟۔

مولانا جابر جوراسی نے کہا : ہندوستان کی ایک ارب سے زائد آبادی کی کل کی کل نمائندگی ناممکن ہے۔ اسی مجبوری کی وجہ سے علاقوں کی حد بندی ہوتی ہے اور عوام اپنے اپنے علاقوں سے نمائندے منتخب کرکے بھیجتے ہیں ، بعینہ یہ کوئی محرومی نہیں ہے کہ زیادہ عورتیں ممبر نہیں بن پاتی ہیں اس لئے کہ جو مرد ممبر بنتے ہیں وہ زیادہ تر کسی عورت کے بیٹے باپ شوہر یا بھائی ہوتے ہیں اور اس طرح عورتوں کی مکمل نمائندگی ہوتی ہے۔ اگر یہ مان بھی لیاجائے کہ شوہر بیویوں کے وفادار نہیں ہوتے تو یہ تو کہا ہی نہیں جاسکتا کہ نمائندہ منتخب ہوکر جو حضرات آتے ہیں وہ اپنی ماں بیٹی بہن کے دشمن ہوتے ہیں شوہر و بیوی کے مسئلہ میں بھی عملاً یہ دیکھا گیا ہے کہ نسبتاً عورتیں شوہروں کی کم فرمانبردار ہوتی ہیں جبکہ شوہر بیویوں کے کچھ زیادہ ہی فرمانبردار ہوتے ہیں بلکہ زیادہ تر شوہر بیویوں کے ابروؤں کے اشارہ پر چلتے ہیں ۔

انہوں وضاحت کی : دو ایک غیر ملکی نمائندوں کو چھوڑ کر خواتین کے مخصوص کوٹہ کی بات اٹھانے والے عورتوں کے نام نہاد حقوق کی دہائی دینے والے زیادہ تر مرد ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر خود عورت ان عوامی اداروں میں زیادہ پہنچی تو اسی نوبت کے مناظرآئے دن سامنے آئیں گے جو ایک صوبائی وزیر اعلیٰ اور ایک پارٹی کی صوبائی صدر کے درمیان تو تو میں میں اور نوک جھونک کے مناظر ہم ماضی میں دیکھ چکے ہیں۔ اس کے برعکس اگر ان عورتوں کے نمائندے بن کر مرد منتخب ہوئے تو وہ کمال سعادت مندی کے ساتھ عورتوں کی نمائندگی اور ان کے حقوق کی پاسداری کا فریضہ انجام دیتے رہیں گے ۔ اگر اعدادو شمار پر سرسری نظر ڈالی جائے تو کسی علاقہ کسی صوبہ اور کسی قوم کے اتنے نمائندے ہیں ہی نہیں جتنے عورتوں کے نمائندے ہیں بلکہ یہ نمائندگی تقریباً صد فی صدہے اس لئے کہ یا تو منتخب ہوکرخود عورتیں نمائندہ بنتی ہیں یا ان عورتوں کے فرمانبردار کے مرد نمائندے ہیں اور جو اس خواتین بل کی مخالفت کربھی رہے ہیں وہ مسلم یا دلت عورتوں کے کوٹہ کی بات کرکے خود کے عورتوں کے وفادار ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ عورتوں کے مخالف ہونے کا نہیں۔ عورتوں کا کام مردوں کے ذریعہ کس طرح چلتا ہے اس کا ثبوت پنچایتیں ہیں جہاں بعض محفوظ نشستوں میں پردھان یا چیئرپرسن عورتیں ہیں لیکن سارام کام ان کے شوہر انجام دیتے ہیں اوریہ عورتیں فقط صدر و گورنر کی طرح کسی فیصلہ پر دستخط کردینے پر اکتفا کرتی ہیں۔ مردوں کے ہاتھ میں کام ہوتا ہے تو معمول کے مطابق ہوبھی جاتا ہے لیکن پارلیمنٹ یا اسمبلی میں موقع پر شوہر باپ بھائی یا بیٹے مہیا نہ ہوں گے عورتوں کو خودفیصلہ کرنا ہوگا اور تجربہ کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ سنجیدہ مسائل میں جذباتی فیصلے ہوں گے جو ملک کے حق میں مفید نہ ہوں گے۔

انہوں نے زور دیا : اقلیتوں کو اس بل پر زیادہ توجہ دینے کی اس لئے ضرورت ہے کہ آج اگر ملک میں چند فیصد اقلیتوں کی بات سنی بھی جاتی ہے تو وہ صرف اس لئے کہ ان کے ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے اور جب کوٹہ مقرر ہونے کے بعد اقلیتوں کے ووٹ تقریباً بے اثر ہوجائیں گے تو مستقبل  ان اقلیتوں کے لئے انتہائی تشویشناک و خطرناک ہوگا ۔ یہ کہنا کہ پارٹیاں ٹکٹ دینے میں کوٹہ میں مسلم و دلت خواتین کا کوٹہ مقرر کرلیں صرف بھلاوا ہے اس لئے کہ کوئی پارٹی اگر کسی کو ٹکٹ دیتی ہے تو کوئی گارنٹی نہیں ہوتی ہے کہ وہ جیت بھی جائے گا۔ لہٰذا خواتین ریزرویشن بل کی پرزور مخالفت ہونا چاہئے اور ملک کو کسی کا یرغمال بننے سے بچانا چاہئے۔

 

 

 

 

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬