08 September 2010 - 01:41
News ID: 1809
فونت
کتاب رؤیت هلال کے مولف :
رسا نیوزایجنسی – اگر کسی مرجع تقلید کے لئے ثابت ہوجائے کہ پہلی تاریخ ہے چاھے چاند اس نے اپنی انکھوں ہی سے کیوں نہ دیکھا ہو اختلاف کو روکنے کے لئے واجب تو کیا مستحب بھی نہی ہے کہ وہ رویت ھلال کا اعلان کرے، اورررویت ھلال کے سلسلے میں ولی فقیہ کا حکم معتبر ہے ۔
 هلال

رسا نیوزایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق ، رویت ھلال کی گفتگو اور اس میں موجودہ اختلاف گذشتہ زمانے سے دنیا کے مسلمانوں کے مورد توجہ رہا ہے ۔

حجت‌الاسلام رضا مختاری ، ضرورت احیای میراث فقهی کے عنوان سے مقالہ لکھنے والے اور« غنا و موسیقی » کےعنوان سے کتاب میراث فقهی1 و « رویت هلال» کےعنوان سے کتاب میراث فقهی 2 کے مولف کا رسا نیوزایجنسی کے رپورٹر سے انٹر ویو رویت ھلال کے سلسلے میں بہت سارے سوالات کا جواب ہے جسے ھم اپنے مخاطبین کی خدمت میں پیش کررہے ہیں ۔

رسا ـ اتحاد افق کے سلسلے میں آیت‌الله خوئی (رہ) کے نظریات کے جواب میں کتابیں یامقالےتحریر کئے گئے ہیں یا نہی ؟

جواب : علامہ تھرانی نے آیت‌الله خوئی (رہ) کے نظریات کے جواب میں مقالات لکھے ہیں اور آیت‌الله قدیری نےبھی اس نظریہ پہ تنقید لکھی ہے اس کے علاوہ مرحوم مروج صاحب شرح کفایه و مکاسب اور مرحوم ابطحی نے بھی اس نظریہ کے جواب میں رسالہ تحریر فرمایا ہے اور دوسری جانب آیت‌الله هاشمی شاهرودی ، عدلیہ کے سابق سربراہ نے آیت‌الله خوئی (رہ) کے نظریات کی تائید میں کتابچہ تحریر کیا ہے ۔

رسا ـ اعلان رویت ھلال کے حوالے سے حکم حاکم شرع کی کیفیت کے سلسلےمیں اپ کی کیا نظرہے ؟

جواب : حاکم شرع حکومت کی تشکیل سے پہلے فقیه جامع‌الشرائط ہے اوراس وقت کہ ایران میں اسلامی حکومت تشکیل پا چکی ہے حاکم شرع یعنی رھبرانقلاب اسلامی اوردیگر فقھاء اگر چہ فقیہ جامع الشرائط ہیں مگر اس سلسلے میں حکم نہی دیتے اور حکومت اسلامی کی تشکیل کے زمانے میں حکم حاکم شرع سے مراد ولی فقیہ کا حکم ہے ۔

اگر کسی مرجع تقلید کے نزدیک ثابت ہوجائےکہ ھلال کی رویت ہوچکی ہے تو اس پر واجب تو کیا مستحب بھی نہی کہ اعلان کرے یعنی جہاں کسی کو یقین ہو وہاں اظھار نظر کرنا ضروری نہی ہے جیسکا کہ اج بھی بعض مراجع کرام اثبات رویت ھلال کے باوجود اعلان کرنےسے پرھیزکرتے ہیں ۔

رسا ـ اعلان حاکم شرع کے سلسلے میں اختلافات موجود ہیں، سوال یہ ہے کہ اگر طریقہ اثبات رویت ھلال میں حکم حاکم شرع کو شمار کیا جاتا ہے تو پھر کچھ مراجع عظام کا یہ کہنا کہ اگر حاکم مرجع تقلید کے ھم نظرہو تو اس کی بات قابل قبول ہے وگرنہ نہی ، ان دونوں باتوں میں تناقض ہے کہ ایک طرف حکم حاکم کو اثبات رویت ھلال کے راستوں میں سے شمار کریں اور دوسری جانب حکم حاکم کو مرجع تقلید کے ھم نظر ہونے سے مقید کرتے ہیں ؟

جواب : اس سلسلے میں اکثر فقھاء فرماتے ہیں کہ حاکم کا حکم معتبر ہے اگر چہ رویت ھلال کے سلسلے میں مرحوم آیت‌الله خوئی نے گفتگو کرتے ہوئے حکم حاکم کو معتبر نہی جانا ہے اور معاصرین میں سے ‌ حضرت آیت‌الله شبیری زنجانی ودیگران کا بھی کہنا ہے کہ رویت ھلال کے سلسلے میں حکم حاکم شرع معتبر نہی ہے البتہ اس سے ہٹ کر کہ نظریات مختلف ہیں گفتگو اس جگہ ہے کہ حاکم کن باتوں میں حکم کرسکتا ہے اور کن باتوں کا حکم نہی دے سکتا مگر رویت ھلال کے سلسلے میں مشھور فقھاء کا نظریہ یہ ہے کہ حکم حاکم شرع معتبر ہے ۔

اور جو فقھاء حکم حاکم کو معتبر جانتے ہیں معتقد ہیں کہ حاکم کا حکم خود اس کے لئے ، دیگر فقھاء کے لئے اور دیگر مرجع تقلید کے مقلدین کے لئے معتبر ہے جب تک یہ فقھاء خطاء حاکم کے اسباب سے واقف نہ ہوجائیں اس لحاظ سے حاکم کا حکم معتبر ہے مگر یہ کہ کوئی خطاء کے اسباب سے واقف ہوجائے مثال کےطور پر بیس ادمیوں نے حاکم کے سامنے شھادت دی کہ چاند دیکھا گیا ہے اور حاکم بھی ان بیس ادمیوں کو عادل جانتا ہے مگر ھمیں یقین ہے کہ یہ بیس ادمی جنہوں نے رویت ھلال کی شھادت ہے دی عادل نہی ہیں یا انہیں وھم ہوا ہے یا یہ رویت ھلال کے سلسلے میں جھوٹ بولے ہیں ، یہاں پہ چوں کہ ھمیں علم حاصل ہے کہ حاکم کا منبع حکم واستناد غلط ہے یہاں ھمیں حق حاصل ہے کہ ھم حاکم کے حکم کی پیروی نہ کریں اور اس نظریہ کو گذشتہ ومعاصر فقھاء سبھی قبول کرتےہیں ۔

رسا ـ حاکم نے چشم مسلح کو قبول کرنے کی بنیاد پر عید کا اعلان کیا مگر وہ مرجع تقلید جو اس مبنی کو نہی مانتا اور دوسری جانب معتقد ہے کہ حکم حاکم کو ماننےکے لئے نظریا ت میں اتحاد ضروری ہے اس کی نظر میں یہ ھلال چشم غیر مسلح سے ثابت نہی ہوا ہے اورچوں کہ دونوں اپنے نظریات میں مختلف ہیں اس لحاظ سے حاکم کا اعلان ماننے کو تیار نہی ، لھذا حکم حاکم کو مقید کرنے کے سلسلے سے علم فقہ کا کیا موقف ہے ؟

جواب : یقینا یہ ایک اجتھادی وفقھی گفتگو ہے مگرعلاوہ بر یہ کہ اسے فقھی لحاظ سےحل کیا جائے اجتماعی ، سماجی اور روابط کے حوالے سے بھی حل کیا جانا ضروری ہے ھمیں سارے سوالات کے جوابات فقہ کے ائینے میں پانے کی توقع نہی رکھنی چاھئے کہ فقط فقہ ھمارے مسائل ومشکلات کو حل کرے ۔

فقھاء یہ فرماتے ہیں کہ عصر معصوم (ع) کے 250 سال گزر چکے ہیں اور دوسری جانب اس لحاظ سے شیعہ گذشتہ حاکم کے زمانےمیں مستقل نہی تھے مگر حاکم وقت جو بھی کہتے تھے اس پر عمل کرتے تھے اور کوئی حدیث بھی موجود نہی ہے کہ امام (ع) نے فرمایا ہوکہ تم خود جاکر تحقیق کرو، برخلاف اس کے احادیث موجود ہیں کہ امام نے فرمایا ہے وہ جوکچھ بھی کہیں اس پر عمل کرو ۔

اس زمانے میں بھی اتحاد کا راستہ کھلا ہوا ہے اور دفتر حضرت آیت‌الله شبیری زنجانی کی طرح سے عمل کیا جاسکتا ہے جب ان سے کوئی معلوم کرتا ہے تو کہتے ہیں کہ رھبر معظم نے کل عید کا اعلان کیا ہے جسے بھی اطمینان ہو عمل کرسکتا ہے۔ اور یہ کہ چار ادمی اکر کہیں کہ چاند دیکھا گیا ہے اوراس کے مقابل تمام منجمین یہ کہیں کہ رویت ممکن نہی ، ٹلسکوپ کے ذریعہ نہی دکھا ہے ، سیکڑوں ادمی جو اھل فن وماھر ہیں خاص نجومی قوانین کے تحت رویت ھلال کے مسئلہ پہ تحقیق کرکے کہ کہتے ہیں چاند نہی دیکھا ہے مگر وہ دو بوڑھے اوردو بوڑھیا مدعی ہیں کہ چاند دیکھا ہے کیا یہ بات ماننےکے لائق ہے ۔

رسا ـ عنوان رویت ھلال میں حاکم کا اعتبار عنوان رویت اور اجتماعی لحاظ سے ہے یا شرعی میعاروں کے تحت؟

جواب: رویت ھلال کی گفتگو ایک موضوعی وعنوانی گفتگو ہے مگر شرعی میعاروں کے تحت ہیں اس سلسلے میں جو چیز اھم ہے وہ باعظمت معاصر فقھاء امام‌ خمینی (ره)، حضرات آیات عظام گلپائگانی،‌ سیستانی و زنجانی کے نظریات ہیں کہ اول ماہ کے اثبات کے سلسلے میں امکان رویت ھلال ہے یعنی «امکانیة الرؤیة» یعنی ھلال اس نقطہ پر ہوکہ رویت ممکن ہو ولو عارضی اسباب ، بادل وغیرہ دیکھنے میں مانع بنے ہوں ، اڑے ارہے ہوں تو وہ دن مہینہ کا پہلا دن ہوگا ۔

رسا ـ چشم مسلح کے حوالے سے بھی سوالات اٹھتے ہیں کہ اگر کسی نے دوربین یا ا س طرح کے دیگروسائل سے چاند دیکھا ہوتو کیا رویت ھلال کے اعلان کا حق نہی رکھتا ؟

فقھاء نے اس سلسلے میں بھی گفتگو کی ہے کہ اگرموسم خراب ہو اور اسمان میں بادل ہو گویا کوئی بھی چاند نہ دیکھ پایا ہو مگر یہ چاند قابل رویت ہو تو سبھی یہ کہتے ہیں کہ چاند نکل چکا ہے کیوں کہ دیکھنا میعار نہی ہے بلکہ دیکھنا اثبات رویت کے لئے ایک وسیلہ ہے اور فقھاء اس وسیلے کے سلسلے میں فرماتے ہیں کہ رویت ھلال ماہ کے سلسلے جو روایات وارد ہوئی ہیں اس کا مقصود یہ ہے کہ چاند سورج سے اس فاصلے پر اجائے کہ قابل دید ہو تو اس روز پہلی تاریخ ہوگی ۔ مگر یہ کہ قابل رویت ہوتو کس چیز سےقابل رویت ہو ؟ چشم غیر مسلح سے یا چشم مسلح سے شارع مقدس کسی ایک کو قانون کے طورپر اعلان کرے کیوں دونوں کو ایک ساتھ قانونی نہی مانا جاسکتا جیسا کہ اگرکہا جائے کہ نماز یا تیس کیلومیٹر پر قصر ہوگی یا چالیس کیلومیٹر پریہ غلط ہوگا لھذا ضروری ہے کہ معین کیا جائے کہ نماز یا تیس کیلومیٹرپر قصر ہوگی یا چالیس کیلومیٹر پر ۔

رسا ـ اگر کسی نے ٹلسکوپ کے ذریعہ چاند دیکھا ہو تو کیا اس کی بات ماننا ضروری ہے ؟

جواب : ٹلسکوپ سے دیکھنے والا کہسکتا ہے کہ ھم نے چاند دیکھا ہے مگر یہ دیکھنا شارع کے مد نظر نہی ہے جیسا کہ حد ترخیص کے سلسلے میں کہا جاتا ہے کہ شھر سےاتنا نزدیک ہوجاو کہ شھر کی دیواریں دیکھنے لگیں اس کا مقصد یہ ہے شھرسے تقریبا ایک کیلو میٹرکی دوری کے فاصلہ پر ہو اور اگرٹلیسکوپ کے ذریعہ تیس کیلومیٹرکی دوری ہی سے شھر کی دیواریں دکھیں تو اسے دکھنا نہی کہا جاسکتا اوریہ دیکھنا شارع کے مورد نظربھی نہی ہے یعنی ٹلیسکوپ کے ذریعہ دیکھنا مورد توجہ اس وقت قرار پاسکتا ہے جب معمولی طور سے چاند کا دکھنا ممکن ہو ۔

ھم اپ کے اس قیمتی وقت کو دینے کے شکر گزار ہیں اوراس امید کے ساتھ سوالات کا سلسلہ ختم کررہے ہیں ایک روز وہ ائے گا جب رویت ھلال کے سلسلے میں سارے مراجع ایک نظر کے تحت وایک روز عید کا اعلان کریں گے اور مقلد عوام اس حیرانی وپریشانی سے نجات پائے گی ۔


تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬