31 August 2009 - 16:33
News ID: 202
فونت
آیت الله سبحانی :
رسا نیوز ایجنسی - حضرت آیت الله سبحانی نے کہا : جو لوگ ظاھر کو دیکھتے ہیں وہ قران کے متشابہ آیات کو خداوند عالم کے رؤیت ہر حمل کرتے ہیں ۔


رسا نیوز ایجنسی کے خبرنگار کے رپورٹ کے مطابق ، حضرت آیت الله جعفر سبحانی مراجع تقلید عظام نے قم کے مدرسہ علمیہ حجتیہ میں روزہ دار کے درمیان آج ظھر سورہ حدید کی تفسیر اپنے تفسیری جلسہ میں کرتے ہوئے کہا :  «ثم استوی علی العرش» یہ سوره حدید کی چوتھی آیت کا دوسرا فقرہ ہے جس کے بارے میں سلفی مسلک والے معتقد ہیں کہ خدا وند عالم جب عرش کے اس تخت پر بیٹھتا ہے تو اس کے وزن کی وجہ سے اس تخت سے آواز نکلتی ہے ۔


انہوں نے کہا : جو لوگ ظاھر بین ہیں عرش پر استوای کا معنی بیٹھنے کا لیتے ہیں اگر آیت کو اس معنی میں لیتے ہیں تو آیت کا باقی حصہ بے نظم ہو جائیگا اور یہ قران کے بلاغت سے بعید ہے ۔
 
حوزه میں فقه اور اصول کے درس خارج کے استاد نے بیان کیا : «ثم استوی علی العرش» میں تین نکتہ پایا جاتا ہے اس کی تحقیق سے ہمارے اور وہابیوں کے درمیان جو اختلاف ہے وہ مشخص ہو گا ۔ پہلا استوی کا معنا ، دوسرا عرش کا فرق سریر ( تخت ) سے اور تیسرا مشابه آیتوں کے بعد یہ آیت قرآن میں کس مطلب کے لئے آیا ہے ۔

انہوں نے کہا : استوی استقرار کے معنی میں ہے ۔ قرآن میں بھی استوی استقرار کے معنی میں استعمال ہوا ہے ، جہاں فرماتے ہیں« نوح کی کشتی جودی کے پہاڑی پر مسقر ہوا ۔ » اور دوسری جگہ فرماتے ہیں « پیغمبر کے دوست پودہ کی طرح ہیں جو زمین سے باہر نکلتے ہیں جو ابتدائی مرحلہ میں نازک اور متزلزل ہیں بعد میں قدرت اور استقرار پیدا کرتے ہیں ۔ »

آیت الله سبحانی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا : پھر کلمه استوی کا معنی بیٹھنا نہی ہے بلکہ وہ جامعی معنی رکھتا ہے جو کہ ارادہ کے استقرار اور توانائی کا ہے ۔

انہوں نے اضافہ کیا : عرب کے اشعار میں اور لغت ناموں میں بھی استوی کا معنی بیٹھنا نہی ہے بلکہ استقرار کے معنی ہیں ۔


قم کےحوزه علمیہ کے نمایہ استاد نے کلمه عرش کے سلسلہ میں کہا : عرش اور سریر میں فرق یہ ہے کہ سریر وہاں پر استعمال ہوتا ہے جہاں پر بیٹھنا نگاہ میں ہو اور قرآن کے آیتوں میں بھی اسی طرح سے آیا ہے ۔ جہاں پر قدرت کی گفتگو کی ہے وہاں عرش کا استعمال کیا گیا ہے جیسا کہ اس آیت میں فرماتا ہے « سلیمان نے پوچھا تم میں سے کون عرش ( بالقیس ) کو لا سکتا ہے » ، یہاں پر عرش سے مراد تخت قدرت اور سلطه ہے نہ بیٹھنے اور سونے والا تخت ۔

انہوں نے بیان فرمایا : جہاں بھی «استوی علی العرش» استعمال ہوا ہے ، خداوند عالم کا افعال بیان ہوا ہے جیسے سوره اعراف، یونس، رعد، جو کہ خدا کی طرف سے حاکمیت اور تدبیر امور کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔

آیت الله سبحانی نے فرمایا : ممکن ہے عرش کا دوسرا معنی بھی لیا جا سکتا ہے کہ جس معنی کا ربط عالم ماور سے ہے اور وہ بھی خدا کے تحت نظر ہے ۔

انہوں نے آخر میں دین اور خدا کے سلسلہ میں سلفیوں کے نظریہ کو دین سے دوری کا سبب بتایا اور کہا : احمد بن حنبل معتقد ہے کہ خداوند عالم تخت پر بیٹھتا ہے اس کو ہاتھ ، پاؤں اور کان ہے ، جب وہ اپنا پاؤں جہنم میں ڈالتا ہے تو جہنم کا شعلہ زیادہ ہو جاتا ہے اگر یہ معنی ایک مغربی مفکر کے سامنے پیش کیا جائے تو کہتا ہے ہم ایسے خدا پر اعتقاد نہ رکھے وہ بھتر ہے ۔
 

 

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬