21 September 2009 - 12:59
News ID: 301
فونت
دوسرا حصہ:
شیعوں کا تعارف بین الاقوامی سطح پر ہم لوگ نہیں کر رہے ہیں!
محمد حسيني قزويني
 
رسا نیوز ایجنسی : ولی عصر تحقیقاتی ادارہ کے ذمہ دار ( ناظم ) نے کہا : ہمارے جائزہ کے مطابق یہ معلوم ہوتا ہے کہ اہل سنت اور وہابی کے جوان نسل مذہب شیعہ کی طرف مائل ہوتے جا رہے ہیں آج کل اگر ہم لوگ شیعی تہذیب کو بین الاقوامی سطح پر بہت اچھے طریقے سے پیش کر سکے تو ہم لوگوں کو بہت بڑی کامیابی حاصل ہو گی آج کی علمی دنیا معارف اہل بیت عصمت و طھارت کی تشنہ نظر آتی ہے حجۃ الاسلام والمسلمین جناب سید محمد حسینی قزوینی صاحب کی تمام گفتگو سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ علماء و بزرگان حوزہ علمیہ اور یونیورسٹی میں بین الاقوامی سطح پر مذہب شیعہ کی ترویج و تبلیغ کی جائے اب ہم ان کی گفتگو کا دوسرا آپ قارئین محترم کے سامنے پیش کر رہے ہیں :
رسا : کیا آپ کے پاس اس کی دقیق ارقام و تعداد ہے جس سے یہ پتہ چل سکے کہ کتنے فیصد وہابی نو جوان شیعیت کی طرف مائل نظر آتے ہیں ؟
ہاں ! ہمارے پاس جو اعداد و ارقام ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ادھر بیس سالوں میں شاید پانچ ہزار گنا اہل سنت و وہابیت کے نو جوان شیعیت کی طرف مائل ہوئے ہیں ۔ حقیر آپ کے سامنے ان کی عبارتوں کو پڑھ کر سناتا ہے جس سے معلوم ہوگا کہ وہابیت کے بزرگ رھنما وہ لوگ جن کے ہاتھوں میں قلم ہے اور شیعوں کی مخالفت کی محاذ میں سب سے آگے رہتے ہیں اسی طرح شیعوں کی تعلیم و تربیت و تہذیب و تمدن کی وسعت سے خوف کھاتے ہیں ۔ مدینہ اور ریاض کی یونیورسٹی کے استاد جناب ڈاکٹر غنیمان کہتے ہیں وہابی حضرات کو بھی یقین حاصل ہو چکا ہے کہ مستقبل قریب میں صرف مذہب شیعہ اثنا عشریی ہے جو تمام اھل سنت اور وہابیوں کو اپنی طرف جذب کر سکتا ہے اور انھیں اپنی طرف کھینچ سکتا ہے ۔
جناب شیخ محمد ربیع بن محمد سعودی عرب کے علمی حلقہ میں مقام رکھتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ وہ چیز جو ہمارے لئے تعجب کا باعث بنی ہے وہ یہ ہے کہ ایک وہابی کا گروہ اور کچھ علمی شخصیت کی اولاد اور کچھ کالج کے طلبہ جو کہ ہمیشہ ہمارے جلسات میں شرکت کیا کرتے تھے اور کچھ ایسے افراد جن کے بارے میں میں بہت خوش بین تھا وہ سب کے سب ادھر کچھ دنوں میں مکتب تشیع کی طرف چلے گئے ابھی جلد ہی ایک ہنگامہ جناب قرضاوی ( عالمی علمائے اسلامی کمیٹی کے صدر ) کی طرف سے شروع ہوا جو شیعوں کے مقابلے میں تھا کہ شیعہ بدعت پھیلاتے ہیں بہت پیسہ خرش کیا کرتے ہیں لوگوں کو تربیت کر کے اسلامی ممالک میں بھیجتے ہیں ہم شیعوں کو کافر نہیں مانتے ہیں لیکن بدعت پھیلانے والا مانتے ہیں و۔۔۔۔
رسا : ظاہراً جناب قرضاوی صاحب کے فرزند ارجمند شیعہ ہو گئے ہیں ؟
اتفاق سے لبنان کی مسجد قدس کے ایک امام جمعہ نے اسی بات کو بتایا کہ جناب قرضاوی صاحب کا غم و غصہ صرف اس بات پر تھا کہ ان کا بیٹا عبد الرحمن یوسف قرضاوی شیعہ ہو گیا تھا ۔
رسا : ان کی بیٹے کی خود شخصیت کیسی ہے ؟
قرضاوی صاحب کے بیٹے مصر کی نمایاں شخصیتوں میں سے ہیں اور مصر کے بہترین شعراء میں ان کا شمار ہوتا ہے انھوں نے اس مطلب کا انکار نہیں کیا ہے کچھ دن پہلے ایک سعودی عرب اخبار نے ان کے شیعہ ہونے کو جھٹلایا ہے اور لکھا ہے کہ قرضاوی صاحب کے بیٹے شیعہ نہیں ہوئے ہیں لیکن اسی وقت بغیر کسی تاخیر کے ان کے دفتر سے یہ اطلاع دی گئی کہ جو شخص ہماری طرف سے خبر دے رہا ہے اس کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس قصہ سے ان کا کوئی ربط نہیں ہے اگر ضروری سمجھوں گا تو میں خود ہی خبر دے دوں گا اور جو خبر میرے دفتر کے علاوہ کہیں اور سے نقل کی جائے تو آپ لوگ جان لیجئے کہ وہ جھوٹی اور بے اعتبار ہے ۔ حالانکہ وہ ایک بہت ہی با اخلاق شخص ہیں وہ اپنے والد محترم کے احترام میں اس قصہ کو علناً پیش نہیں کر رہے ہیں لیکن دوسرے دن جس سائٹ سے ان کے شیعہ ہونے کی بات پیش کی گئی تھی وہ فیلٹر ہو گئی ۔
رسا : پھر تو وہابی اور سنی جوانوں کے درمیان شیعیت کی ترویج و توسیع ایک بہت ہی سنجیدہ مسئلہ ہے ؟
ہاں ! جناب شیخ محمد مغروای جو سعودی عرب کے بڑے مصنفوں میں سے مانے جاتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ مشرقی خطہ کے جوانوں میں مذہب شیعیت کی توسیع اور اضافہ سے مجھے ڈر ہے کہ کہیں یہ ثقافت و تہذیب مغرب زمین کے جوانوں کو بھی اپنی گرفت میں نہ لے لے ۔
جناب شیخ مجدی محمد علی محمد وہابیوں کے مشہور و معروف مصنف اچھی بات کہتے ہیں کہ ایک سنی جوان میرے پاس متعجب و متحیر آیا جب اس سے میں نے تعجب و حیرت کا سبب پوچھا تو مجھے لگا کہ کسی شیعہ تک اس کی رسائی ہو گئی ہے وہ شیعی تہذیب سے آشنا ہو چکا ہے اور وہ سنی جوان یہ سمجھ رہا ہے کہ شیعہ ملائکہ رحمت و حق کے طرفدار اور حقانیت کے مالک ہیں ۔
رسا : شیعہ بین الاقوامی یا عالمی سطح پر اپنی حقانیت کا دفاع کس حد تک کر رہے ہیں ؟
میں آپ لوگوں کی خدمت میں اس بات کا اعتراف کر رہا ہوں کہ ہم لوگ عالمی سطح پر تعلیمات آل محمد و شیعی ثقافت وتہذیب کا تعارف نہیں کرا سکے ہیں امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں کہ " اذا عرف الناس محاسن کلامنا لاتبعو نا " یعنی اگر لوگ ہمارے کلام کی اچھائیوں کو سمجھ جائیں تو ہماری اطاعت کریں گے لیکن ہم لوگ اس کلام کی خوبصورتی کو عالمی سطح پر دنیا والوں کے سامنے پیش نہیں کر سکے ہیں اگر صرف یہی بات دنیا والوں کے سامنے پیش کی جائے تو مجھے یقین ہے کہ وھابیت و اھل سنت کے جوان فوج در فوج شیعیت کی طرف کھنچے چلے آئیں گے ۔
رسا : ابھی کچھ دنوں سے وھابی ایک خاص مسئلہ جو حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت کے اوپر ہے بہت زور دے رہے ہیں ؟ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں ؟
میں کچھ دنوں پہلے المستقلہ سیٹ لائٹ چینل پر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کی شہادت پر ایک مناظرہ میں تھا ایک بحث جو آج کل انٹر نیٹ سیٹ لائٹ پر ہو رہی ہے جو آپ نے بھی فرمایا کہ یہ ادھر دو تین سال سے ہے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت کے سلسلے میں ہے ۔ یہاں تک کہ زاہدان کے امام جمعہ نے رسمی طور پر نماز جمعہ کے خطبہ میں قسم کھا کر کہہ رہے تھے کہ میں خدا کی قسم ، اس کے اسماء حسنی کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ شیعہ جو کچھ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت کے سلسلے میں خلیفہ اول و دوم کے بارے میں جو کچھ کہتے ہیں کاملاً جھوٹ ہے کوئی ایسا واقعہ رونما نہیں ہوا ہے ۔ کوئی نہیں ہے جو ان کو کہے کہ یہاں قسم کھانے کی جگہ نہیں ہے اگر دلیل ہے تو یہاں دلیل لے کر آئیں شیعہ جو کچھ کہہ رہے ہیں ان کے پاس دلیل قطعی ہے مثلاً جوینی صاحب کی کتاب جن کو ذہبی صاحب امام کے نام سے یاد کرتے ہیں اس میں مطالب بھرے پڑے ہوئے ہیں کہ جو تاکید کرتے ہیں کہ وہ لوگ خانہ وحی پر حملہ ور ہوئے اور حضرت صدیقہ زہرا سلام اللہ علیہا کے اوپر جلتا ہوا دروازہ گرایا گیا جس کی وجہ سے ان کی پسلیاں ٹوٹ گئیں ۔
رسا : المستقلہ چینل میں شرکت کرنے کی کیا وجہ تھی اور اس کا اصل محرک کیا تھا ؟
مناظرہ کے کچھ جلسے گزر چکے تھے کہ نجف کا ایک طالب علم اس چینل میں وارد ہوا اور جس طرح اس کو فاطمی تہذیب و ثقافت کا دفاع کرنا تھا نہیں کر سکا اور کمزور مطالب کو بیان کرنے لگا اور کچھ وھابی جو وہاں موجود تھے انھوں نے شبیہ و شکوک ایجاد کرنا شروع کر دیا ۔ نزدیک تھا کہ یہ مسئلہ اور یہ بات بہت ہی باریک مرحلہ میں داخل ہونے والی تھی کہ آیۃ اللہ مکارم شیرازی دامت برکاتہ نے مجھے فون کیا اور مجھے حکم دیا  کہ میں اس مناظرہ میں شریک ہوں مجھے بھی تین جلسہ اس میں شرکت کرنا پڑی اھل سنت کی کچھ روایتوں کو پڑھا اور ان روایات کی سندی کاروائی کی کہ اس روایت کے راوی وہ ہیں جن کو آپ کے بزرگ علمائے رجال نے ثقہ کہا ہے ان کے مطابق وہ معتبر ہیں اور یہ روایت جو پڑھی ہے وہ صحیح ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ان لوگوں نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے گھر پر حملہ کیا اور ان کو ڈرایا و دھمکایا اور فرائد السمطین جوینی کے مطابق جن کی توثیق خود ذہبی نے کی ہے اور ان کو ذھبی نے معتبر مانا ہے اور امام بھی کہا ہے وہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے گھر پر حملہ کرنے ان کے پہلو کو توڑنے اور جناب محسن کی شہادت کا واقعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کیا ہے ۔ ہماری بحث تین رات تک چلتی رہی یہاں تک کہ میں نے جو حدیث خود ان کی کتاب سے نکال کر پیش کیا تھا وہ لوگ کسی ایک مسئلہ پر بھی اعتراض نہیں کر سکے ۔
رسا : آپ کے اس مناظرے کا عکس العمل اسلامی معاشرہ میں کیسا رہا ؟
میرے اس مناظرے کے تمام ہونے کو ابھی دو ہی دن گزرے تھے کہ میرے ایک دوست کا فون آیا کہ کچھ جوانان دبئی سے قم آئے ہوئے ہیں وہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں بہر حال وہ کسی طرح میرے پاس آئے اور انھوں نے کہا ہم لوگ آپ کے مناظرے کو المستقلہ چینل پر سنا اور ہم لوگوں کو احساس ہوا کہ شیعہ حضرات کے پاس کہنے کی باتیں ہیں ہم لوگوں نے آپ کی گفتگو سنی اور وھابی حضرات کی بھی گفتگو سنی کچھ سوالات میرے پاس ہیں فقط اس لئے میں ایران آیا ہوں کوئی اور کام نہیں ہے ان کے سوالوں کا جواب دیا وہ لوگ بھی با ضابطہ مذھب شیعہ سے مشرف ہوئے ان میں سے ایک نے کہا کہ میرے والد اسلامی ممالک کے ایک ملک کے درجہ ایک کے علماء میں سے ہیں ان کا حوزہ علمیہ ہے وہ اس ملک کے زبردست خطباء و مقرر میں سے ہیں اگر آپ سے دو گھنٹہ گفتگو کر لیں تو وہ بھی ضرور مذھب شیعہ کو قبول کر لیں گے اگر وہ شیعہ ہو گئے تو سیکڑوں ہزاروں لاکھوں جوان حضرات اس ملک کے شیعیت سے شرفیاب ہو سکتے ہیں آپ سے ایک گزارش ہے کہ میرے والد کے نام ایک دعوت نامہ بھیجیے تاکہ وہ قم آئیں ۔ روز کچھ گھنٹہ آپ سے گفتگو کر سکیں میں نے بھی ان سے کہا کہ میرے جو اس وقت حالات ہیں یہ کام ہم نہیں کر سکتے مگر ہاں اگر خود وہ یہاں قم تشریف لاتے ہیں تو میں ان کی مہمانی کے لئے حاضر ہوں ان کی مہمان نوازی کروں گا ان کا احترام کروں گا اور ان سے گھنٹہ دو گھنٹہ نہیں جتنی دیر وہ گفتگو کریں گے میں بھی گفتگو کروں گا ۔
رسا : دنیائے اسلام مذھب شیعہ سے کس حد تک توقع رکھتا ہے کہ وہ ان کے مسائل و شکوک و شبھات کا جواب دے سکتا ہے ؟
میری سمجھ سے اگر ہم لوگ اچھی طرح اور خوبصورت انداز میں بیان کر سکیں تو شیعی ثفاقت و تہذیب کو عالمی سطح پر دنیا والوں کے سامنے پیش کریں تو بہت بڑی کامیابی حاصل ہو گی آج کل دنیا کا علمی معاشرہ اھل بیت عصمت و طھارت اور اسلامی تعلیمات کا پیاسہ ہے اسی پروگرام کو جو دو سال سے سیٹ لائٹ چینل ( سلام ) پر چل رہا ہے اگر چہ میں اس حد تک اس سے راضی نہیں ہوں کیونکہ اس سے بہتر انداز میں اور اچھے انداز میں کام کیا جا سکتا تھا ۔ مگر خدا شاہد ہے کہ ہر ھفتہ اندرون و بیرون ملک سے لوگ فون کرتے ہیں کچھ سوال کرتے ہیں یا بغیر سوال کئے ہوئے بھی اپنے شیعہ ہونے کا با قاعدہ اعلان کرتے ہیں ایسے بہت سارے مواقع بھی پیش آئے ہیں کہ لندن ، جرمنی ، کناڈا ، اور دیگر ممالک سے فون آئے ہیں یا میری سائٹ پر ای میل بھیجے ہیں اور شکریہ ادا کیا ہے اور کہتے ہیں کہ آپ کے مناظرے کی وجہ سے ہم شیعی تہذیب و ثقافت و تمدن سے آشنا ہو سکے ہیں اور وہ لوگ بہت ہی مہربانی اور شکریہ کا اظہار کرتے ہیں ۔
رسا : کیا ابھی آپ کے پاس ان لوگوں کی لیسٹ ہے جو شیعہ ہو چکے ہیں ؟
میں کچھ دن پہلے ایک مرجع تقلید کے پاس تھا انھوں نے بہت اصرار کیا کہ جو لوگ شیعہ ہو رہے ہین ان کی لیسٹ بناتے جاؤ تاکہ کسی دن اگر ہم سے مطالبہ کیا جائے تو ہم بتا سکیں کہ کتنے لوگ ابھی تک شیعہ ہو چکے ہیں میں نے بھی ان کی خدمت میں عرض کی کہ میرے پاس تمام موبائل نمبر ای میل ایڈریس موجود ہے حتی میرے پاس لیسٹ بھی موجود ہیں کہ کتنے لوگوں نے مجھ سے ای میل کے ذریعہ اور کتنوں نے موبائل کے ذریعہ ہم سے ملاقات کی اور فون پر ہی بات کی ہے ۔ حتی ایک دن ہمارے مشرقی ملک کے ایک صوبہ سے ۲۵ نوجوان قم آئے اور کہنے لگے کہ ہم نے آپ کی باتوں کو سنا جو اہل بیت علیہم السلام کے بارے میں بیان کی تھی اور افسوس ہوا کہ کیوں ہمارے علماء ان باتوں کو بیان نہیں کرتے اور رسمی طور پر انھوں نے اپنے شیعہ ہونے کا اعلان کر دیا اس کے بعد سے وہ ابھی تک ہمارے رابطہ میں ہیں اور کتابچہ و سی ڈیز وغیرہ لے جاتے ہیں ۔
رسا: پھر تو لگتا ہے بہت سے وھابی و سنی نو جوانوں کا غلط خبر دینے کی وجہ سے ان کے ذھنوں میں شیعیت کے لئے تعصب تھا وہ ختم ہوتا جا رہا ہے ؟
یہ بات صحیح ہے ایک روز ایک شخص نے شہر سقز سے مجھے فون کیا اور کہا آپ کی باتوں کو ہم لوگ بہت غور سے سنتے تھے اور اس کا مذاق اڑاتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ یہ شیعوں کے مولوی بھی ایک سے ایک چیزیں بنا کر پیش کیا کرتے ہیں ۔ میں بذات خود فلاں یونیورسٹی کا فارغ التحصیل ہوں اور میری بیوی بھی پڑھی لکھی ہے وہ سکریٹری ہے ۔ کچھ دنوں سے ہم آپ کے اس مناظرے و مباحثے کی کھوج بین کرنی شروع کر دی اور اپنی بیوی سے کہا یہ جو ہماری کتابوں کا حوالہ دے رہے ہیں کم سے کم ہم لوگ دیکھیں تاکہ ہم لوگوں کے لئے ثابت ہو جائے کہ شیعوں کا مولوی جھوٹ بولتا ہے لیکن جب کچھ مواقع کی تحقیق کی کتابوں کی طرف رجوع کیا تو دیکھا سب صحیح ہے ۔ تقریباً تین مہینہ تک آپ کی گفتگو کو سنتا رہا اور آپ کے دئے ہوئے حوالوں کو بھی غور سے پڑھتا رہا یہاں تک کہ میں اور میری بیوی اس نتیجہ پر پہنچے کہ مذھب شیعہ حق ہے اگر آپ اجازت دیں تو قم آؤں اور کسی ایک مراجع کرام کے دست مبارک سے شیعہ ہو جاؤں مگر آپ سے ایک گزارش ہے کہ میرے شناختی کارڈ پر میرا نام عمر ہے آپ ایک خط جو حوزہ علمیہ قم سے اس دفتر کے لئے جو ہمارے صوبے میں ہے دے دیجیے تاکہ میرا نام بدل جائے اور کسی ایک آئمہ کے نام پر رکھ دیا جائے ۔
رسا : کیا آپ کا ھدف یہ ہے کہ وھابی و سنی جوانوں کو شیعہ کر دیں ؟
جی نہیں ! ہمارا اس پروگرام میں شرکت کرنے کا یہ مقصد نہیں ہے کہ اھل سنت یا وھابی جوانوں کو شیعہ کر دیں یا شیعہ جوانوں کو سنی ہونے سے روک لیں ہمارا مقصد حقائق کو بیان کرنا اور اھل بیت علیہم السلام کی حقانیت کو بیان کرنا اور اپنی اتمام حجت کرنا ہے اگر ہم اپنے مقصد تک پہنچ گئے تو یہ نتیجہ ہے جو ہمارے سننے والے تک پہنچتا ہے مگر یہ کہ آدمی حق سے کٹ جائے ، نور سے الگ ہو جائے تو ہمارے لئے افسوس کا باعث ہو گا یا اگر ایک آدمی نور سے مل جائے تو یہ ہمارے لئے خوشی کا موقع ہے لیکن یہ ہمارا ھدف نہیں ہے بلکہ ہمارا مقصد کچھ اور ہے ہم چاہتے ہیں کہ جو تاریخ میں چھپی ہوئی چیز کو دوبالا کیا جائے اور پردہ کے پیچھے چھپے جو حقائق پوشیدہ ہیں اسے بیان کیا جائے جو چودہ صدیوں تک لوگوں تک نہیں پہنچ سکی ہے ہم لوگ اس کے تعاقب میں ہیں کہ وہ حلقہ جو تاریخ میں گم ہو گیا ہے کتابوں میں ثبت ہو گیا ہے لیکن آپ بزرگ اس سے گزر جاتے ہیں اس کو بیان کریں ۔
رسا : آپ نے ہماری اس گفتگو میں شرکت کی اور ہم کو اپنا قیمتی وقت دیا اس کے لئے ہم آپ کے شکر گزار ہیں ۔
تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬