20 May 2012 - 16:38
News ID: 4081
فونت
عورت اور اسلام : (1) / پيشکش : اشھد نقوي
رسا نيوز ايجنسي - قرآن تخليق سے لے کر تدفين تک اور عمل سے لے کر حشر تک بغير کسي امتيازي رويہ اور فرق جنس کے مرد و عوت کے لئے ايک طرح کي حيثيت سے معاملہ رکھتا ہے?
عورت

قران کريم نے نے سورہ حجرايت ??-?? ميں تخليق انسان کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا : اِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَل??ئِکَ?ِ اِنِّيْ خَالِقٌم بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ o فَاِذَا سَوَّيْتُہ وَ نَفَخْتُ فِيْہِ مِنْ رُّوْحِيْ فَقَعُوْا لَہ س?جِدِيْنَ o فَسَجَدَ الْمَل??ئِکَ?ُ کُلُّھُمْ اَجْمَعُوْنَ o اِلَّآ اِبْلِيْسَ اَب??ي اَنْ يَّکُوْنَ مَعَ السّ?جِدِيْنَ o قَالَ ي??اِبْلِيْسُ مَا لَکَ اَلَّا تَکُوْنَ مَعَ السّ?جِدِيْنَ o قَالَ لَمْ اَکُنْ لِّاَسْجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقْتَہ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ o قَالَ فَاخْرُجْ مِنْھَا فَاِنَّکَ رَجِيْمٌ ?

بالا آيات کريمہ ميں لفظ ’’بشر‘‘ سے مراد انسان ہے، جو مردوعورت دونوں ہي کے ليے استعمال ہوتا ہے، اگريہاں لفظ ’’رجل‘‘ يا لفظ ’’امرا?‘‘ کا استعمال ہوتا تو تب يہ آيت کسي ايک صنف کے ليے مخصوص ہوتي، ليکن لفظ ’’بشر‘‘ نے يہ حقيقت بالکل واضح کر دي ہے کہ ايک ايسي شخصيت تخليق کي جا رہي ہے جس ميں مردوں کي جيسي طاقت اور خصوصيت کے ساتھ عورت جيسي تخليقي صفت بھي ہو ?
اس تخليق کي تعريف ميں اللہ تعالي? نے سورہ تين کي ايت 4 ميں يوں فرمايا : لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِِنْسَانَ فِيْ? اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ?

يہاں بھي لفظ ’’انسان‘‘ کا استعمال ہوا ہے جو مردوعورت دونوں ہي کے ليے مستعمل ہے? مندرجہ بالا آيات ميں ’’بشر‘‘ اور ’’انسان‘‘ کے الفاظ استعمال کرنے کي وجہ يہ ہو سکتي ہے کہ تخليق کي بحث ميں کسي ايک صنف کو خصوصيت نہ دي جائے? اسي امتياز کو مٹانے کے ليے اللہ تبارک و تعالي? نے تخليق کے وقت ’’مرد ياعورت‘‘ کے پيدا کرنے کي بات نہيں کي بلکہ ’’بشر اور انسان‘‘ جيسے منفرد الفاظ سے اپني تخليق کو موسوم کيا?

اس ميں شک نہي کہ پہلا بشر يا انسان حضرت آدم عليہ السلام ہي تھے ليکن تقدم وتاخر نے درجہ نبوت دے کرماقبل ومابعد کي فضليت سلب کرلي اس طرح کسي مرد کو کسي عورت پر يا کسي عورت کو کسي مرد تخليق کے حوالے سے فضليت نہي رہي بلکہ دونوں ہي ايک دوسرے کے لازمہ ہيں ?

خداوند متعال نے سورہ نساء کي ايت 1 ميں فرمايا : ي??اَيُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِيْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَ?ٍ وَّ خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا وَ بَثَّ مِنْھُمَا رِجَالًا کَثِيْرًا وَّ نِسَآئً وَ اتَّقُوا اللّ?ہَ الَّذِيْ تَسَآئَ لُوْنَ بِہ وَ الْاَرْحَامَ اِنَّ اللّ?ہَ کَانَ عَلَيْکُمْ رَقِيْبًا?

اے لوگو اپنے رب سے ڈرو، جس نے تمہيں ايک نفس سے پيدا کيا پھر اس کا جوڑا بنايا اور يہي دونوں تمام مرد وزن کي ولادت کا سبب ہيں ?

سني عالم دين امام فخر الدين رازي تفسير کبير ميں تحرير فرماتے ہيں : لا يتفاخر البعض علي البعض لکونھم ابناء رجل واحد وامرأ? واحد?? (التفسير الکبير،??/???) کوئي ايک دوسرے پر فخر نہ کرے کيونکہ تم سب ايک ہي مرد اور ايک ہي عورت کي اولاد ہو?

شميمہ محسن کتاب (عورت قرآن کي نظر ميں ) ص ?? پر اس آيت کي تشريح ميں لکھتي ہيں : جہاں اس ايت ميں اللہ سے ڈرنے اور اس کي ناراضگي سے بچنے کي تاکيد کي گئي ہے وہيں يہ بات بھي ذہن نشين کرائي گئي ہے کہ تمام انسان ايک نسل سے ہيں اور ايک دوسرے کا خون اور گوشت پوست ہيں?

قران نے تخليق کے ارتقائي مراحل ميں اگر کبھي صنف کے حوالے کے ساتھ تذکرہ کيا تو اس ميں بھي صرف مرد يا صرف عورت کو تخليق کا ذمہ دار نہيں ٹھہرايا گيا بلکہ مرد وعورت دونوں کے يکساں کردار کا اظہار کيا جيسا کہ سورہ حجرات ايت ?? ميں بيان کيا : ياََيُّہَا النَّاسُ اِِنَّا خَلَقْن?کُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنْث?ي وَجَعَلْن?کُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا اِِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّ?ہِ اَتْق?کُمْ اِِنَّ اللّ?ہَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ?

اے لوگو! ہم نے تمہيں مرد و عورت سے تخليق کيا اور تمہارے خاندان اور قبائل بنائے تاکہ تمہارا تعارف ہو سکے بے شک تم ميں سے اللہ کے نزديک عزت والا وہ ہو گا جو زيادہ تقوي رکھتا ہو گا?

تخليق کے بعد جب مقصد تخليق بتانے کي بات کي گئي تو اس ميں بھي کسي ايک صنف کے ذمہ يہ مقصد نہيں لگايا گيا اور نہ ہي کسي ايک صنف کو مخاطب کيا گيا جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ تخليق ہويا مقصد تخليق مرد و عورت کے ليے يکساں ہے? جيسا کہ سورہ الذاريات ايت 56 ميں ارشاد باري تعالي? ہے : وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِِنْسَ اِِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ ? اور ہم نے جن و انس کي تخليق نہيں کي سوائے اس کے کہ وہ عبوديت کے تقاضے پورے کريں ?

اس کے بعد جب حقوق کي باري آئي تو اس ميں بھي اسلام دونوں صنفوں کو يکساں اہميت ديتا ہے، اور باہمي حقوق کے لحاظ سے واضح کرتا ہے کہ: ولھن مثل الذي عليھن بالمعروف? سورہ البقرہ ايت ??? ? اور عورتوں کے ليے بھي وہي حقوق ہيں جو مردوں کے حقوق اُن پر ہيں ?

مقصد تخليق اور حقوق ميں يکسانيت کے بعد يہ حقيقت بھي آشکار کر دي گئي کہ انجام کي دنيا ميں بھي مرد اور عورت دونوں ہي برابر ہيں کسي کو کسي سے کم يا کسي سے زيادہ حصہ نہي ديا جائے گا يا کسي کو کسي کا بوجھ نہي اٹھانا پڑے گا جيسا کہ سورہ نساء ايت 32 ميں کہا : وَ لَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّ?ہُ بِہ بَعْضَکُمْ عَل?ي بَعْضٍ لِلرِّجَالِ نَصِيْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبُوْا وَ لِلنِّسَآئِ نَصِيْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبْنَ وَسْئَلُوا اللّ?ہَ مِنْ فَضْلِہ اِنَّ اللّ?ہَ کَانَ بِکُلِّ شَيْئٍ عَلِيْمًا? مردوں کے ليے وہي کچھ ہے جو انہوں نے کمايا، اور عورتوں کے ليے وہي ہے جو انہوں نے کمايا?

امام قرطبي نے الجامع لاحکام القرآن،ج 5 ص 164 پر اس ايت کي تفسير ميں فرماتے ہيں: وللرجال نصيب مما اکتسبوا يريد من الثواب والعقاب (وللنساء) کذلک، قالہ قتادہ فللمرا? السجزاء علي الحسن? بعشر امثالھا کما للرجال ? ثواب و عقاب کي دنيا ميں مردوں کا کمايا ان کے لئے اور عورتوں کمايا ان کے لئے ليے ? قتادہ نے کہا کہ عورت کے ليے بھي مرد کي طرح ہر نيکي کا دس گناہ اجر ہے?

امام بيضاوي تفسير بيضاوي 5 ص 110 پر لکھتے ہيں : اي لکل من الرجال والنساء فضل ونصيب بسبب ما اکتسب ومن اجلہ فاطلبوا الفضل بالحمل لا بالحسد والتمني? يعني ہر مرد اور عورت کي فضيلت اور ان کا حصہ اس کي کمائي کرنے کے لحاظ سے ہے لہذا اس کے ليے محنت اور کوشش کي جائے نہ کہ حسد اور حرص?
خداوند متعال نے سورہ ال عمران کي ايت 195 ميں فرمايا : فَاسْتَجَابَ لَھُمْ رَبُّھُمْ اَنِّيْ لَآ اُضِيْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْث?ي بَعْضُکُمْ مِّنْ بَعْضٍ فَالَّذِيْنَ ھَاجَرُوْا وَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِھِمْ وَ اُوْذُوْا فِيْ سَبِيْلِيْ وَ ق?تَلُوْا وَ قُتِلُوْا لَاُکَفِّرَنَّ عَنْھُمْ سَيِّا?تِھِمْ وَ لَاُدْخِلَنَّھُمْ جَنّ?تٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھ?رُ ثَوَابًا مِّنْ عِنْدِ اللّ?ہِ وَ اللّ?ہُ عِنْدَہ? حُسْنُ الثَّوَابِ? ميں کسي عمل کرنے والے کا عمل ضائع نہيں کرو گا خواہ مرد ہو يا عورت تم سب ايک دوسرے کي جنس ميں سے ہو?

اسي طرح قرآن حکيم نے بخشش اور کاميابي و کامراني کے ليے جو اصول بيان فرمائے اس ميں مرد و عورت دونوں کو مخاطب کيا جو اس بات کي علامت ہے کہ مرد و عورت کي حيثيت، فضيلت اور قدرومنزلت مساوي ہے ?

سورہ احزاب ميں خطاب کر کے کہا : اِنَّ الْمُسْلِمِيْنَ وَ الْمُسْلِم?تِ وَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَ الْمُؤْمِن?تِ وَالْق?نِتِيْنَ وَالْق?نِت?تِ وَالصّ?دِقِيْنَ وَالصّ?دِق?تِ وَالصّ?بِرِيْنَ وَالصّ?بِر?تِ وَالْخ?شِعِيْنَ وَالْخ?شِع?تِ وَالْمُتَصَدِّقِيْنَ وَالْمُتَصَدِّق?تِ وَالصَّآئِمِيْنَ وَالصّ?ئِم?تِ وَالْح?فِظِيْنَ فُرُوْجَھُمْ وَ الْح?فِظ?تِ وَ الذّ?کِرِيْنَ اللّ?ہَ کَثِيْرًا وَّ الذّ?کِر?تِ اَعَدَّ اللّ?ہُ لَھُمْ مَّغْفِرَ?ً وَّ اَجْرًا عَظِيْمًا? بے شک فرماں بردار مرد اور فرمانبردار عورتيں، مومن مرد اور مومن عورتيں، اطاعت گزار مرد اور اطاعت گزار عورتيں، اور سچ بولنے والے مرداور سچ بولنے والي عورتيں، اور صبرکرنے والے مرد اور صبر کرنے والي عورتيں، خشوع کرنے والے مرد اور خشوع کرنے والي عورتيں، صدقہ کرنے والے مرد اور صدقہ کرنے والے عورتيں، روزہ رکھنے والے مرد اور روزہ رکھنے والي عورتيں، عزت کي حفاطت کرنے والے مرد اور عزت کي حفاطت کرنے والي عورتيں، اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والي عورتيں، ان کے ليے اللہ کے ہاں بخشش اور اجر عظيم ہے?
قرآن کے نزديک صلاح و تقوي اور آخرت کي کاميابي کا جو معيار مرد کے ليے ہے وہي معيار عورت کے ليے، اس معيار کو پورا کئے بغير نہ مرد اپني منزل کو پا سکتا ہے اور نہ عورت? جيسا کہ سورہ توبہ ايت 71 ميں ارشاد باري تعالي? ہے: وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِن?تِ بَعْضُھُمْ اَوْلِيَآئُ بَعْضٍم يَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ يَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ يُقِيْمُوْنَ الصَّل?و?َ وَ يُؤْتُوْنَ الزَّک?و?َ وَ يُطِيْعُوْنَ اللّ?ہَ وَ رَسُوْلَہ اُول??ئِکَ سَيَرْحَمُھُمُ اللّ?ہُ اِنَّ اللّ?ہَ عَزِيْزٌ حَکِيْمٌ? مومن مرد اور مومن عورتيں، ايک دوسرے کے ہيں، وہ بھلائي کا حکم ديتے ہيں اور برائي سے روکتے ہيں، نماز قائم کرتے ہيں اور زکو? ادا کرتے ہيں اور اللہ اور اس کے رسول? کي اطاعت کرتے ہيں ان لوگوں پر اللہ ضرور رحم کرے گا بلاشبہ اللہ غالب اور حکمت والا ہے?

شميمہ محسن اپني کتاب ( عورت قرآن کي نظر ميں ) ص 22 پر تحرير کرتے ہوئے لکھتي ہيں کہ اس آيت ميں مومن اور مومنات کے تعاون کا ذکر کيا گيا ہے کہ دونوں نيکي کا رويہ اختيار کرنے ميں ايک دوسرے کے مددگار ہيں، اس حقيقت کو تسليم کرنا پڑے گا کہ تہذيب وتمدن کے انقلابات عورت اور مرد کي کوششوں کا نتيجہ ہيں، زمانہ کي صلاح اور بگاڑ ميں دونوں کا ہاتھ ہے? اس ليے دونوں ميں سے کسي ايک کو کارگاہ تمدن سے خارج کرنا حماقت ہے?

المختصر اسلام نے عورت کو جو عزت ومرتبہ عطا کيا اور اسے معاشرے کا ايک لازمي اور يکساں اہميت کا حامل قرار ديا وہ دنيا کے کسي اور مذہب اور نظام نے نہيں ديا?

اسلام نے عورت کے حقوق کي حفاظت کر کے انساني سوسائٹي ميں اسے ايک اہم مقام پر رکھا ہے، اور اسے گھر کي ملکہ بنا کر انسانيت کي ابتدائي تعليم و تربيت کے عہدہ سے نوازا ہے، اسلام نے عورت کو سکون و قرار کا ذريعہ بنايا ہے اور اسے مردوں کے ليے اور مردوں کو اس کے ليے وج? زينت، باعث تسکين اور شريک حيات گردانا?

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬