12 June 2012 - 19:18
News ID: 4214
فونت
حضرت آيت الله جوادي آملي :
رسا نيوزايجنسي - حضرت آيت الله جوادي آملي نے کہا : انسان برائيوں اور ندامتوں کے ذريعہ نيکياں ضايع نہ کرے ، اگر انسان نے خدا کے لئے کام کيا ہو تو افسوس کيوں ؟ جس نے خدا کے لئے نيکي انجام دي ہو اسے خدا کي جانب سے جزاء ملے گي ?
حضرت آيت الله جوادي آملي

رسا نيوزايجنسي کے رپورٹر کي رپورٹ کے مطابق ، مفسر عصر حضرت آيت الله عبد الله جوادي آملي نے علماء وافاضل حوزہ علميہ قم کے مجمع ميں سورہ مبارکہ نمل کي تفسير کي ?

اس مفسر زمان نے ايت شريفہ « مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ خَيْرٌ مِنْهَا وَ هُمْ مِنْ فَزَعٍ يَوْمَئِذٍ آمِنُونَ » کي تفسير کرتے ہوئے کہا : حسنہ يعني يہ کہ عقل وروايت اسے قبول کرے ، شريعت اس پر راضي ہو اور اس کا حکم دے اوراس کے متعدد مصاديق ہيں مگر اس کا مصداق کامل ولايت اهل بيت عليهم ‌السلام ہے کہ سورہ مبارکہ شوري ميں ايت 23 کے ذيل ميں ايا ہے : « ذلِکَ الَّذي يُبَشِّرُ اللَّهُ عِبادَهُ الَّذينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ قُلْ لا أَسْئَلُکُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبى‏ وَ مَنْ يَقْتَرِفْ حَسَنَةً نَزِدْ لَهُ فيها حُسْناً » قرائن کي بنياد پر لفظ حسنہ کا مصداق کامل ‌مودّت و ولايت اهل بيت عليهم‌السلام ہے ?

انہوں نے يہ کہتے ہوئے کہ قيامت ميں يہ نہيں پوچھا جائے گا کہ کيا تھا بلکہ يہ پوچھا جائے گا کہ کيا لے کر ائے ہو کہا : ايت ميں «جاء بالحسنة» ايا ہے يعني نہيں کہا کہ اگر کوئي اچھا کام کرتے تو ايسا ہوتا بلکہ اس اچھے کام کي قيامت تک حفاظت بھي کرو ? امام خميني (رہ ) کي يہ فرمائش کہ معيار افراد کي موجودہ صورت حال ہے گذشتہ صورت حال نہيں ، قيامت ميں بھي لوگوں کي موجودہ صورت حال ہي ديکھي جائے گي ? اسي لئے خطاب ہو گا کہ کيا لائے ہو يہ نہيں خطاب ہوگا کہ کيا کيا تھا ، بہت سارے اچھے اعمال انجام دئيے تھے مگر انہيں بد اعماليوں سے بدل ديا ، ميعار يہ ہے کہ انسان اچھے اعمال انجام دے اور اس کي حفاظت کرے اور جب ميدان قيامت ميں پہونچے تو وہ اچھے اعمال اس کے ھمراہ رہيں جو اسان کام نہيں ہے ، انسان تمام اعمال خدا کے لئے کرے اور اس ميں کسي قسم کي کمي نہ چھوڑے ?

قران کريم کے اس نامور مفسر نے کہا : انسان برائيوں اور ندامتوں کے ذريعہ نيکياں ضايع نہ کرے ، اگر انسان نے خدا کے لئے کام کيا ہو تو پشيماني کيوں ؟ جس نے خدا کے لئے نيکي انجام دي ہو اسے خدا کي جانب سے جزاء ملے گي ?

حضرت آيت الله جوادي آملي نے ياد دہاني کي : اچھا عمل بجالانے والا اس عمل کي حفاظت کرے جيسے کہ باغبان گلوں کي پرورش کرتا ہے ليکن اگر مرتبا گلوں کي پنکھڑيوں کو لمس کرتا رہے تو وہ گل پژمردہ ہوجائيں گے ، روايات ميں موجود ہے کہ اگر اچھے اعمال خدا کے لئے انجام دئيے ہوں اور کسي سے اس عمل کا تذکرہ کرے تو يہ گلوں کي پنکھڑيوں کو چھونے کے مانند ہے اور ہاں اگر اسي کو دوسرے بيان کريں تو اس کي خوشبو سے معطر ہوجائے گا ?

حضرت آيت الله جوادي آملي نے بيان کيا : نيک اعمال کے بجالانے والے نے اتنا زيادہ اپنے اعمال کا خيال رکھا کہ موت ، برزخ ، قبر اور قيامت تک ضايع نہ ہوا کيوں کہ اس نے خدا کے لئے عمل انجام ديا تھا اور خدا کے لئے انجام ديا ہوا عمل محفوظ رہتا ہے « ما عند کم ينفد و ما عند الله باق » تو ايسا انسان قيامت کے دن تمام مشکلات جو سورہ انبياء کے مطابق سب سے بڑي مصيبت کا دن ہے سے امان ميں رہے گا ?

حوزہ علميہ قم ميں درس تفسير کے اس استاد نے ايت شريفہ «وَمَن جَاء بِالسَّيِّئَةِ فَکُبَّتْ وُجُوهُهُمْ فِي النَّارِ هَلْ تُجْزَوْنَ إِلَّا مَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ» کي جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا : برے اعمال انجام دينے والا اگر توبہ کے ذريعہ اپنے اعمال کي اصلاح نہ کرے تو وہ برے اعمال ايت شريفہ «سَيُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ» کے مطابق قيامت ميں طوق لعنت کي صورت ميں اس کے گلو گير ہوں گے ، وہ مغرور وفاسد انسان جس نے اپني تمام زندگي برائيوں ميں کاٹي ايات قران کے مطابق اپنے ماضي اور مستقبل کي اسے خبر نہيں اور چوں کہ سر سے پير تک زنجيروں ميں جکڑا ہوا ہے ، بے فکر (مُقمَح) و متحيررہے گا کيوں کہ اپنے پيروں تلے بھي نہيں ديکھ سکتا اور ايسے لوگوں کو جہنم ميں ڈال ديا جائے گا ?

انہوں نے مزيد کہا : حسنہ کے لئے جزاء کا استعمال نہيں ہوتا کيوں کہ جزاء عمل کے برابر ہے اور خداوند متعال حسنہ کے لئے کثير جزائيں دے گا اسي لئے جزا کي گفتگو نہيں ہے مگر سيئہ کے سلسلے ميں جزاء کي بات اتي ہے کيوں کہ سيئہ کي جزاء سيئہ ہے ?
تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬