19 June 2012 - 13:12
News ID: 4239
فونت
28 رجب سن 60 :
رسا نيوزايجنسي - 28 رجب المرجب سن 60 ھجري قمري اھل بيت اطھار عليھم السلام اور محلہ بني ھاشم کي تاريخ کا وہ ورق جس پر درد ، بے چيني اور کرب کے سوا کچھ بھي نہيں ?
عماري


اس کي ابتداء اس روز سے ہوئي جب مروان نے شب کي تاريکي ميں مدينہ ميں يزيد بن معاويہ کے بھيجے ہوئے خط کے مطابق حسين بن علي عليہ السلام کو دربار ميں بلايا ? پدر و برادر کا غم ابھي مندمل نہ ہو سکا تھا حالات اب بھي پر آشوب تھے ? جب پنجتن کي آخري کڑي کے بلا وے کو دل شکستہ غم زدہ بہن نے سنا تو گھبرا گئي حسين کو جانے سے روکا تو نہيں مگر تنھا بھي نہيں جانے ديا ? بني ھاشم کے دليروں کو بلا کر ھمراہ کر ديا حسين محافظوں کے حلقے ميں دربار کي جانب بڑھتے چلے گئے دليروں کے اصرار کے با وجود انھيں دربار سے باھر ہي رکنے کو کہا اور عباس بن علي عليہ السلام کو مخاطب کر کے کہا کہ ہماري آواز ميں تندي سنو ميري آواز تمہارے کانوں تک پہنچ جائے تو دربار ميں داخل ہو جانا ?

حسين بن علي عليہ السلام جب دربار ميں پہنچے تو وليد نے يزيد لعين کا بھيجا ہوا وہ خط ان کے سامنے رکھا جس ميں ان سے بيعت کا مطالبہ تھا اور انکار کي صورت ميں اس شمع امامت کے بھجا دينے کے لئے حکم ديا گيا تھا ?

حسين بن علي عليہ السلام نے اس معاملہ يہ کو کہہ کر ٹال ديا کہ اس وقت رات کا سناٹا ہے اور کل کے اجالے ميں اسي سلسلے ميں گفتگو ہوگي ?

ليکن اسي بزم ميں حاضر مروان نے وليد سے کہا کہ تو ايسي غلطي نہ کر يا حسين سے ابھي بيعت لے لے يا ان کا سر کاٹ کر يزيد کو بھيج دے ? دو اماموں کے خون بہانے والوں کے دل زيادہ جري ہو گئے تھے حسين بن علي عليہ السلام کے لئے بھي انھوں نے يہي خواب ديکھ رکھا تھا مگر انھيں آنے والے لمحے کي خبر نہ تھي يکايک حسين بن علي عليہ السلام کي صدا بلند ہو ئي اور ناگھان آواز کے بلندي کو سن کر بني ھاشم کے جوان دربار ميں داخل ہو گئے اس پر عالم يہ تھا کہ عباس اور ديگر دلير شھزادوں کے چہرے ديکھتے ہي سب دنگ رہ گئے اور عباس علمدار نے شمشير نکال کر چاہا کہ گستاخ وليد کے نجس وجود کو اس صفحہ ھستي سے مٹاديں مگر زھرا عليہا السلام کے لال نے انھيں روک ديا اور يہ کہہ کر باھر بھج ديا کھ بھيا ابھي اس کا وقت نہيں آيا ?

حسين ابن علي عليھما السلام دوسرے ہي روز سب سے پہلے نانا کي قبر پر پہنچے اور امت کي بے وفائيوں کا شکوہ کيا اور اپنے سفر کي اطلاع دے کر نانا کي قبر سے خدا حافظي کر لي اور اس کے بعد ماں کي قبر پر پہنچے کچھ دير تک تڑپتے اور بلکتے رہے اور اسي مجاور کے اب دوبارہ قبر پر نہ آنے کا عذر کر کے ان سے بھي خدا حافظي کر لي اور بني ھاشم سے سامان سفر باندھنے کو کہا ?

راوي لکھتا ہے کہ ہم کوفھ سے حسين بن علي عليہ السلام کي خدمت ميں خط لے کر آئے تھے اور آپ نے بھي خط لے کر ہم سے رکنے کو کہا تھا جب اٹھائيس رجب آئي تو ميں آپ کے کاشانہ پر پہنچا تو عجب منظر ديکھا اھل مدينھ آپ کے گھر کے ارد گرد حلقھ بنائے ہوئے تھے اور حسين بن علي عليہ السلام کرسي پر تشريف فرما تھے سامان سفر تيار ہو چکا تھا ايک ايک کر کے سبھي سوار ہو رہے تھے ناگاہ ايک آواز گونجي کھ اھل مدينھ اپني اپني نگاھيں نيچي کر لو سب نے حکم کي تعميل کي ھم نے ايک آدمي سے سوال کيا کھ يھ کون ہے اور يھ حکم کيوں ديا ہے ؟ تو اس نے جواب ديا کھ يہ عباس بن علي عليہ السلام ہيں اور اب زينب بنت علي سوار ھونے والي ھيں اور پھر ھم نے يھ ديکھا کھ جب وہ بي بي آئيں تو خود عباس آگے بڑھے اور انھيں سوا کر ديا اور اس کے ساتھ قافلھ نے مدينے کو چھوڑ ديا ھم وہ منظر نہ بھول سکے کھ اھل مدينھ ميں کہرام مچا تھا اور کوئي ندا دے رھا تھا کھ يھ قافلھ آگے آگے جا رھا ہے اور موت اس کے پيچھے پيچھے جا رہي ہے ?

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬