15 September 2017 - 18:22
News ID: 429960
فونت
سن ہجري کا نواں سال تھا ، مکہ معظمہ اور طائف فتح ہو چکا تھا ، يمن ،عمان اور اسکے مضافات کے علاقے بھي توحيد کے زيرپرچم آچکے تھے اس بيچ حجاز اور يمن کے درمياں واقع علاقہ نجران جہاں عيسائي مقيم تھے اور شمالي آفريقہ اور قيصر روم کي عيسائي حکومتيں ان کي پشت پناہي کررہے تھيں ان ميں توحيد کے پرچم تلے آنے کي سعادت حاصل کرنے کا جذبہ نظر نہيں آتا اس پر رحم? للعالمين ان پر مہربان ہوگے ، عيسائيوں کے بڑے پادري کے نام اپنا خط روانہ کيا جس ميں عيسائيوں کو اسلام قبول کرنے کي دعوت دي گئي تھي ۔
عید مباھلہ


پیش کش:‌ سيد اشھد حسين نقوي:

رسول رحمت صلي اللہ عليہ وآلہ کا خط ايک وفد کے ہمراہ نجران روانہ ہوا ، جب مدينہ سے آنحضرت کا نمائندہ خط لے کر نجران پہنچا اور وہاں کے بزرگ پادري ابو حارثہ کو آنحضرت کا خط تقديم کيا ? ابوحارثہ نےخط کھول کر نہايت دقت کے ساتھ اس کا مطالعہ کيا اور پھر فکر کي گہرايوں ميں ڈوب گيا ۔

اس دوران شرحبيل جسکا درايت اور مہارت ميں شہرہ شہر تھا اسکو بلاوا بھيجا اس کے علاوہ علاقے کے ديگر معتبر اور ماہر اشخاص کو بھي حاضر ہونے کو کہا گيا ، سبھي نے اس موضوع پر بحث و گفتگو کي ، اور اس مشاورتي مجلس کا نتيجہ بحث يہ نکلا کہ ساٹھ افراد پر مشتمل ايک وفد حقيقت کو سمجھنے اور جاننے کے لئے مدينہ روانہ کيا جائے۔

نجران کا يہ قافلہ بڑي شان و شوکت اور فاخرانہ لباس پہنے مدينہ منورہ ميں داخل ہوا ، مير کارواں نے مرسل اعظم پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کے گھر کا پتہ پوچھا تو اسے مسجد کا پتہ بتا ديا گيا ۔

کارواں مسجد ميں داخل ہوا اور سبھي کي نظر يں ان پر ٹک گئيں ، پيغمبراسلام نے نجران سے آئے افراد کے بنسبت بے رخي ظاہر کي جو کہ ہر ايک کيلئے سوال بر انگيز ثابت ہوئي اور ظاہر سي بات ہے اھل کاروان کوبھي ناگوار گذرا کہ پہلے دعوت دي اوراب بے رخي دکھا رہيں ہيں ! آخر کيوں ۔

ہميشہ کي طرح اس بار بھي علي ہي نے اس گتھي کو سلجھايا ، عيسائيوں سے کہا آپ تجملات اور سونے کے جواہرات کے بغير، معمولي لباس زيب تن کرکے ائيں اور آنحضرت کي خدمت ميں حاضر ہوں يقينا آپکا استقبال ہوگا ۔

اب کارواں معمولي لباس پہنے حضرت کي خدمت ميں حاضر ہوا ، اس وقت پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے ان کا گرم جوشي سے استقبال کيا اور انہيں اپنے پاس بٹھايا ، مير کارواں ابوحارثہ نے گفتگو شروع کي کہ آپ کا خط پاتے ہي ھم سبھي مشتاقانہ آپ کي خدمت ميں حاضر ہوئے تاکہ آپ سے گفتگو کريں ۔

اپ نے فرمايا : جي ہاں وہ خط ميں نے ہي بھيجا تھا اور اس سے پہلے دوسرے ممالک کے حکام کے نام بھي خط ارسال کرچکا ہوں اور سبھي سے ايک بات کے سوا کچھ نہيں مانگا وہ يہ کہ شرک اور الحاد کو چھوڑ کر خداي واحد کے فرمان کو قبول کرکے محبت اور توحيد کے دين ، اسلام کو قبول کريں ۔

انہوں نے جواب ميں کہا : اگر آپ اسلام قبول کرنے کو ايک خدا پر ايمان لانے کو کہتے ہو تو ہم پہلے سے ہي خدا پر ايمان رکھتے ہيں ۔

حضرت نے فرمايا : اگر تم حقيقت ميں خدا پر ايمان رکھتے ہو تو عيسي کو کيوں خدا مانتے ہو اور سور کے گوشت کھانے سے کيوں اجتناب نہيں کرتے ۔

انہوں نے جواب ميں کہا : اس بارے ميں ہمارے پاس بہت ساري دلائل ہيں ، عيسي مردوں کو زندہ کرتے تھے اندھوں کو بينائي عطا کرتے تھے پيسان ميں مبتلا بيماروں کو شفا بخشتے تھے ۔

اپ نے فرمايا : تم لوگوں نے عيسي عليہ السلام کے جن معجرات کو گنا وہ صحيح ہيں ليکن يہ سب خداي واحد نے انہيں ان اعزازات سے نوازا تھا اس لئے عيسي کي عبادت کرنے کے بجائے اسکے خدا کي عبادت کرني چاہئے ۔

پادري يہ جواب سن کے خاموش ہوا? اور اس دوراں کارواں ميں شريک کسي اور نے ظاہرا شرحبيل نے اس خاموشي کو توڑا :عيسي، خدا کے بيٹے ہيں کيونکہ انکي والدہ مريم نے انہيں کسي سے نکاح کئے بغير انہيں جنم ديا ہے ۔

اس دوران اللہ نے اپنے حبيب کو وحي فرما ئي : عيسي کي مثال آدم کے مانند ہے کہ اسے (ماں ، باپ کے بغير) خاک سے پيدا کيا گيا ( إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِندَ اللّهِ کَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثِمَّ قَالَ لَهُ کُن فَيَکُونُ ) {آل عمران /59}

اس پر اچانک خاموشي چھا گئ اور سبھي بڑے پادري کو تک رہ گئے اور وہ خود شرحبيل کے کچھ کہنے کے انتظار ميں تھا تاھم خود شرحبيل خاموشي سے سرجھکائے بيٹھا تھا ۔

آخر کار اس رسوائي سے اپنے آپ کو بچانے کيلئے بہانہ بازي پر اتر آئے اور کہنے لگے ان باتوں سے ہم مطمئن نہيں ہوئےہيں اس لئے ضروري ہے کہ سچ کو ثابت کرنے کے لئے مباھلہ کيا جائے ، خدا کي بارگاہ ميں دست بہ دعا ہوں اور جھوٹے پر عذاب کي درخواست کريں ۔

ان کا خيال تھا کہ ان باتوں سے پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ اتفاق نہيں کريں گے ليکن ان کے ہوش آڑ گئے جب انہوں نے سنا:   اے عيسائيو! اپنے بيٹوں ، خواتين اور اپنے نفوس کو لے کر آو اور مباھلہ کرلو؛ اور جھوٹے پر الہي لعنت طلب کريں ? فَمَنْ حَآجَّکَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءکَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءکُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءکُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةُ اللّهِ عَلَى الْکَاذِبِينَ {آل عمران/61}

اس نشست ميں طے يہ ہوا کہ کل سورج طلوع ہونے کے بعد شہر سے باہر (مدينہ کے مشرق ميں واقع) صحرا ميں ملتے ہيں ، يہ خبر سارے شہر ميں پھيل گئ ، لوگ مباھلہ شروع ہونے سے پہلے ہي معينہ جگہ پر پہنچ گئے ، نجران کے نمائندے آپس ميں کہنے لگے : اگر آج محمد (صلي اللہ عليہ وآلہ) اپنے سرداروں اور سپاہيوں کے ساتھ ميدان ميں حاضر ہوتے ہيں ، تو معلوم ہوگا کہ وہ حق پر نہيں ہے اور اگر وہ اپنے عزيزوں کو لے آتے ہيں تواپنے دعوے ميں سچے ہيں ۔

سب کي نظريں شہر کے دروازے پر ٹکي تھيں دور سے مبہم سايہ نظر آنے لگا جس سے ناظرين کي حيرت ميں اضافہ ہوا ، اور کچھ ديرديکھتے ہي رہے انہيں اسکا تصور بھي نہيں تھا کہ پيغمبر خدا صلي اللہ عليہ وآلہ اپني آغوش مبارک ميں حسين عليہ السلام کو اور دوسرے ہاتھ سے حسن عليہ السلام کي انگلياں پکڑے ، آنحضرت کے پيچھے سيد? النساء العالمين حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ عليہا اور سب سے پيچھے آپ کے چچا زاد بھائي ، اور داماد علي ابن ابيطالب عليہ السلام ائيں گے ۔

صحرا ميں ہمھمے اور ولولے کي صدائيں بلند ہونے لگيں ، کوئي کہہ رہا ہے ديکھو ، پيغمبر اپنے سب سے عزيزوں کو لے کرآئے ہيں تو دوسرا کہہ رہا تھا انہيں اپنے دعوے پر اتنا يقين ہے کہ انھيں ساتھ لائے ہيں، اس بيچ بزرگ پادري نے کہا : افسوس اگر انھوں نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھايا تو ہم اسي لمحے اس صحرا ميں قہر الہي ميں گرفتار ہو جائيں گے اور دوسرے نے کہا تو پھراس کا سد باب کيا ہے ؟ جواب ملا ان کے ساتھ صلح کرليں اورجزيہ کا وعدہ کريں تاکہ وہ ہم سے راضي رہيں اورپھر انہوں نے ايسا ہي کيا اس طرح حق کي باطل پر فتح ہوئي ۔

مباھلہ پيغمبر کي حقانيت اور امامت کي تصديق کا نام ہے ، مباھلہ اھل بيت پيغمبر کا اسلام پر آنے والے ہر آنچ پر قربان ہونے کيلئے الہي منشور کا نام ہے ، تاريخ ميں ہم اس مباھلے کي تفسير کبھي امام علي کي شہادت ، کبھي امام حسن علي شہادت کبھي امام حسين کي شہادت کبھي امام علي زيد العابدين کي شہادت ، کبھي امام محمد باقر کي شہادت ، کبھي امام جعفر صادق کي شہادت ، کبھي امام موسي کاظم کي شہادت ، کبھي امام علي رضا کي شہادت ، کبھي امام محمد تقي کي شہادت ، کبھي امام علي النقي کي شہادت ، کبھي امام حسن عسکري کي شہادت اور کبھي امام مھدي کي غيبت سے ملاحظہ کرتے ہيں کہ اس دن سے لے کراسلام کي بقا کيلئے يہي مباھلہ کےلوگ ، اسلام کي بقا کيلئے قربان ہونے کيلئے سامنے آتےنظر آتے رہے ہيں اور اسلام دشمن قوتوں کي ہر سازش کو ناکام بناديتے ہيں ۔

ھم اللہ کي بارگاہ ميں دست بہ دعا ہيں کہ ہميں مباھلہ ميں فتح پانے والے اسلام پر عمل کرنے اور پيغمبر کي تعليمات کو عام کرنے والے ائمہ معصومين عليہم السلام کے نش قدم پر چلنے کي توفيق عطا فرمائيں ۔/۹۸۸/ ن۹۴۰

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬