13 October 2017 - 17:24
News ID: 430353
فونت
حجت الاسلام مسعود عالی:
استاد حوزه علمیہ نے اپنے بیان میں خانوادہ کو شیطانی تیروں کا نشانہ بتایا اور کہا: شیطان اس طریقہ سے نسل مهدویت کی تربیت میں رکاوٹ اور امام زمانہ(عج) کی فعالیتوں میں روڑے اٹکاتا ہے جبکہ خانوادہ عبادت و رضایت کی بہترین جگہ ہے ۔
حجت الاسلام مسعود عالی

رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی شھر اصفھان سے رپورٹ کے مطابق، استاد حوزه علمیہ حجت الاسلام مسعود عالی نے اپنی تقریر میں کہا: روایتیں، آخری زمانہ کو حیرت و سردرگمی کا دور بتاتی ہیں کہ جس میں شیطان کی پوری کوشش رہے گی کہ امام زمانہ علیہ السلام کے ظھور سے پہلے انسانوں سے تمام دینی اقداروں کو چھین لے ۔

انہوں نے مزید کہا: اس دور میں فقط مخلص انسان ہی محفوظ رہ سکیں گے اور باقی افراد خطا و لغزش کا شکار ہوجائیں گے ، اس دور میں انسان حق و باطل اور امر بالمعروف و نھی عن المنکر کی بہ نسبت سرگردانی کا شکار ہوں گے ، حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ امام زمانہ(عج) ایک طولانی غیبت کے بعد غبیت کے خاتمہ اور طولانی دوران حیرت و سردرگمی کے خاتمہ کے لئے ظھور فرمائیں گے ۔

استاد حوزه علمیہ نے مزید کہا: ہم سرداب مقدس کی زیارت میں پڑھتے ہیں کہ انبیاء الھی کے تمام ظاھری و باطنی صفات امام زمانہ(عج) کی اندر یکجا ہیں تاکہ وہ شیطان کے تمام حربوں اور چالوں کا بخوبی جواب دے سکیں ، یہ جملے آخری زمانے میں شیطان کی جانب سے ہونے والے کثیر حملے کی نشان دہی کرتا ہے ۔

حجت الاسلام عالی نے شیطان کی خصوصیتوں ، شیطانی اولادوں کی پیدوار اور اس کی چالوں میں آنے والی افزودگی کی جانب اشارہ کیا اور کہا: شیطان کی آج کی چالیں ، ہزار سال پہلے کی چالوں سے بہت مختلف ہیں ، اس نے اپنے علم اور گذشہ دور کے تجربے بخوبی استفادہ کرتے ہوئے مسائل میں پیچیدگی پیدا کردی ہے ، ابلیس کوئی خیالاتی اور تصوراتی موجود نہیں ہے بلکہ روایتوں کے مطابق اس کے پاس فوج موجود ہے اور حتی اپنے فوجی کمانڈروں کو تنبیہ کرنے کے لئے مختصر مدت کے لئے ان کی گرد بھی کاٹ دیتا ہے ۔

ابلیس معصومین سے گناہ نہیں کراسکتا مگر ان کے کام میں خلل ڈال سکتا ہے

انہوں نے بیان کیا: مرحوم شیخ مرتضی زاهد کہ جو اہل یقین اور صاحب نفس طاھر تھے ، تہران میں نماز پنجگانہ کی امامت کے فرائض ادا کرتے تھے ، آپ کی نماز جماعت میں دور دور سے لوگ شریک ہوتے تھے ، حتی آیت الله بروجردی نے انہیں پیغام دیا تھے کہ انہیں وعظ و نصیحت کے لئے ان کے پاس آئیں ، آیت الله بروجردی نے آپ کی نصیحت کے بعد کافی گریہ کیا تھا ، ایک ایسی شخصیت ایک مختصر مدت کے لئے اپنا ذھنی توازن کھو بیٹھی تھی اور جب آپ سے اس کی علت دریافت کی گئی تو آپ نے فرمایا کہ میں نے روایت دیکھی ہے کہ رسول اسلام(ص) نے حضرت امیرالمؤمنین علی (ع) فرمایا کہ « اے علی جس طرح تمہیں لوگوں کی ہدایت کے ہزاروں راستہ معلوم ہیں اسی طرح شیطان کو بھی لوگوں کی گمراہی کے ہزاروں راستے معلوم ہیں» ۔

استاد حوزه علمیہ نے بیان کیا: شیطان فقط انبیائے الهی ، ائمہ طاھرین ، معصومین اور مخلصین کو نہیں بہکا سکتا مگر آگاہ رہیں کہ شیطان ، انبیاء الھی کے کاموں میں روڑے اٹکا سکتا ہے ، جیسا کہ ہم سورہ قصص میں بڑھتے ہیں کہ شیطان ، حضرت موسی علیہ السلام کو دوانسانوں کے جھگڑے کا شکار بنانا چاہ رہا تھا تاکہ وہ اپنے ایک چاہنے والے کے دفاع میں فرعونیوں کے ہاتھوں پھانسی کے پھندے پر لٹکا دئے جائیں اور اپنی رسالت کی ذمہ داری نہ نبھا سکیں ، حضرت موسی علیہ السلام بھی کسی حد تک شیطان کی اس چال کا شکار بھی ہوگئے تھے مگر پھر اس شیطانی حیلے کو سمجھ گئے اور اپنے کو محفوظ کرلیا ۔

حجت الاسلام عالی نے واضح طور سے کہا: شیطان کو کسی بھی امام پر کوئی اختیار نہیں ہے اور نہ ہی انہیں بہکا سکتا ہے ، مگر پوری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ شیطان کی چالیں اور اس کے حربے اہل بیت علیھم السلام کے انصار اور اطرافیوں پر کارگر رہے ہیں ، شیطان نے انہیں اپنا اسیر بنالیا ، شیطان اس طرح اولیاء الھی کے کاموں میں رخنہ اندازی کرتا ہے ۔

انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ شیطان ہمیشہ ان لوگوں راستہ میں روڑے اٹکاتا ہے تو معنویت و اخلاق و عرفان کی دنیا میں ایک سیڑھی اوپر جانا چاہتے ہیں کہا: اس سلسلے میں علماء و عرفاء کی زندگی کے کافی نمونے موجود ہیں ، اس کا راہ حل یہ ہے انسان شیطان کی مکاریوں کو سمجھنے کی کوشش کرے اور اس کا مقابلہ کرے ۔

استاد حوزه علمیہ نے کہا: شیطان ان لوگوں کو جو خود کو قرب الھی کی اونچائیوں تک پہونچانا چاہتے ہیں ہرگز نہیں چھوڑتا ، آُپ جب بھی یہ محسوس کریں کہ کسی گناہ کے لئے آپ پر کافی دباو بڑھ رہا ہے تو جان لیں کہ وہ منزل آپ کی ترقی کا زینہ ہے ، مثال کے طور پر آپ نے یہ ارادہ بنا رکھا ہے کہ آپ اپنی انکھیں نامحرموں پر بند رکھیں گے مگر ہر وقت اس عمل کے لئے وسوسہ کئے جارہے ہیں تو جان لیں کہ آپ شیطان کے حملے سے روبرو ہیں وہ اپنے تمام حربے کا استعمال کررہا ہے تاکہ آپ کو ترقی کی راہ سے روک سکے ، لہذا آپ استقامت سے کام لیں کیوں کہ یہی آپ کی ترقی کا زینہ ہے ۔

خانوادے عبادت و ریاضت و تربیت کی منزل ہیں

حجت الاسلام عالی واضح طور سے کہا: عصر حاضر میں ہماری زندگی شیطانی تیروں کے نشانہ پر ہے کیوں کہ اگر خانوادہ کی اساس و بنیاد ختم ہوجائے گی تو بہت سارے نیک اعمال اور نیکیاں بھی فراموشی کے نظر ہوجائیں گی ، انسانوں کی گمراہی کے اسباب فراہم ہوجائیں گے ، امام زمانہ(عج) کے مخلص سپاہیوں کی تربیت ناممکن ہوجائے گی ، شیطان اس طرح ولی خدا کے کام میں خلل ایجاد کرتا ہے ۔

انہوں نے مزید کہا: خانوادہ مقدس مقام ہے ، انسان اس جگہ بہترین عبادت کو سادہ ترین انداز میں انجام دے سکتا ہے کہ جس کا دیگر جگہوں پر انجام دینا بہت سخت اور دشوار ہے ، گھر اور گھرانا انسان کی عبادت ، ریاضت اور تربیت کی منزل ہے ۔

استاد حوزه علمیہ نے واضح طور سے کہا: اسلام کی نگاہ میں محبوب ترین منزل ازدواجی منزل ہے ، انسان شادی کے ذریعہ « میں» سے « ہم » بن جاتا ہے اور پھر بچوں کی ولادت کے ساتھ ان دونوں آپشن سے گزر کر « وہ » تک پہونچ جاتا ہے ، حضرت امام صادق(ع) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی بیوی محبت سے بھرا پانی کا گلاس اپنے شوھر کو پلائے تو اس کا ثواب ایک سال کی ایسی عبادت سے بہتر ہے جس کے دن میں روزہ اور راتوں کو شب بیداری ہو ۔  

حجت الاسلام عالی نے مزید کہا: پیغمبر اکرم(ص) فرماتے ہیں کہ ایک گھنٹہ اپنے خانوادہ کی خدمت کا ثواب ایک ھزار سال کی عبادت سے زیادہ ہے ، نیز حضرت نے فرمایا کہ اپنے بچوں کو زیادہ پیار کیا کرو کیوں کہ یہ محبت کی نشانی ہے اور بچوں کے پر پیار کے بدلے تمہارے لئے جنت میں ایک مکان تعمیر ہوتا ہے کہ جو 500 سال کی عبادت کے بدلے میں تعمیر ہوتا ہے ، میاں کا بیوی کے پاس بیٹھنے کا ثواب بھی مسجد میں اعتکاف سے بالاتر ہے ۔

بیوی خانوادہ کی اساس اور سکون کی بنیاد ہے

انہوں نے مزید کہا: ہرگز دنیاوی محاسبات و فوائد کو اخروی ثواب سے مقایسہ نہ کریں ، خداوند متعال نے ان تمام جزاوں کے ذریعہ شیطانی چالوں کو ناکامی سے روبرو کرنا چاہا ہے ، اس طرح کی جزائیں گھرانوں میں محبت و قربت بڑھانے کے لئے ہیں ۔

استاد حوزه علمیہ نے بیوی کو گھر اور گھرانے کی اساس اور سکون کی بنیاد بتایا اور کہا: ہماری خواتین گھر میں رہنے کی اہمیت سمجھیں ، دشمن دنیاوی فائدہ کو گھرانوں کے اقدار کے عنوان سے پیش کرنا چاہتا ہے جبکہ عورت کا حقیقی چہرہ گھر کا ذمہ دار ہونا ہے ، ہماری خواتین جان لیں کہ گھر کی بنیادوں میں استحکام عورت کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے ۔

انہوں نے یہ کہتے ہوئے کہ امام خمینی(ره) نے اپنی بہو سے گھرداری کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے کہا: امام خمینی(ره) نے اپنی بہو سے کہا کہ کیا تم ایک رات بچہ داری کا ثواب میرے تمام ثواب سے بدلنے کے لئے حاضر ہو ، آپ بخوبی جانتے تھے کہ عورت کے لئے گھر عبادت کا بہترین مقام ہے ۔

کنوارے اور شادی شدہ کے طرز ریاضت الگ الگ ہیں

حجت الاسلام عالی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ کنوارے اور شادی شدہ کے طرز ریاضت الگ الگ ہیں کہا: صاحب تفسیر المیزان علامہ محمد حسین طباطبائی(ره) جب بھی کسی کو ریاضت کا پروگرام دیتے تو پہلے اس سے دریافت کرتے کہ کنوارہ ہے یا شادی شدہ ، بہت سارے وہ اعمال جو کنوارے لئے ہیں وہ شادی شدہ کے خدا سے دوری کا سبب بنتے ہیں ، شادی کے بعد انسانوں کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں کہ جن پر عمل بزرگترین عبادت اور اس سے دوری بزرگترین غفلت شمار کی جاتی ہے ۔

انہوں نے بعض مومنین کی جانب سے شادی کے بعد بیوی کے حقوق کی عدم مراعات اور کنوارے پن کے دوران کی حفاظت پر شدید تنقید کی اور کہا: بہت ساری خواتین انجمنوں اور مسجدوں سے جڑے ہوئے شوہروں سے گلا مند ہیں کہ وہ دیر وقت گھر لوٹتے ہیں ، اپنی عبادت و زھدانہ امور میں مشغول رہتے ہیں ، مومنین آگاہ رہیں کہ بیوی کی ذمہ داریوں کو انجام دینا ، بچوں کے ساتھ رہنا ، ان سے ابراز محبت ضروری اور دین کا حصہ ہے ۔

استاد حوزه علمیہ نے گھرانے کی ریاضت دیگر مقام سے کہیں بہتر جانا اور کہا: بیوی بچوں کی خطاوں سے گذشت ، شیطانی چالوں میں اسیر نہ ہونا اور غصہ سے دوری ، زھد و سجدہ داری اور ذکر الھی سے بہتر اور قیمتی ریاضت ہے ۔ /۹۸۸/ ن۹۳۰/ ک۱۶۸۲

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬