23 October 2017 - 22:04
News ID: 430506
فونت
جہاں تک بشارت عظمٰی کانفرنسز کا تعلق ہے تو آپکو یہ بتاتا چلوں کہ یہ کسی صنف کیخلاف نہیں ہیں، جیسا کہ آپ سمجھ رہے ہیں کہ یہ علماء اتحاد ہے، جو ذاکرین کیخلاف ہے۔ نہیں بلکہ یہ ایک سوچ کیخلاف ہے۔ وہ سوچ کہ جس کا ملت تشیع سے کوئی تعلق نہیں، یہ اسکے خلاف ہے۔ ذاکرین میں سے کچھ حضرات یہ تاثر دے رہے تھے کہ نعوذ باللہ حضرت علی ؑ کار خداوندی انجام دے رہے ہیں اور خدا ریٹائرڈ ہوچکا ہے۔
شیعہ

تحریر: عبداللہ رضا

کچھ دن پہلے ایک سفر پر تھا کہ مجھے میرے واٹس ایپ نمبر پر کسی دوست کی طرف سے ایک تحریر موصول ہوئی، جس میں ڈاکٹر شفقت شیرازی کی کسی تحریر کا جواب دیا گیا تھا۔ میں نے موصوف سے سوال کیا کہ ڈاکٹر صاحب نے ایسا کیا لکھ دیا کہ آپ نے ان کی ذات پر ایک تحریر لکھ ڈالی تو مجھے اس دوست نے ڈاکٹر صاحب کی تحریر واٹس ایپ کی۔ ظاہراً یہ تحریر ڈاکٹر صاحب کا ملت تشیع کے حوالے سے ایک تجزیہ تھا، جس کا عنوان تھا "پاکستانی تشیع اور استعماری فتنے"۔ میں اس تحریر کے تمام پہلوؤں پر گفتگو کرنے بیٹھوں گا تو بات بہت لمبی ہو جائے گی۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی تحریر میں ملت کی داخلی وحدت کے حوالے سے سوالات اٹھائے اور ساتھ ہی ملک کے طول و عرض  اور بالخصوص پنجاب میں ہونے والی بشارت عظمٰی کانفرنسز کو بھی تحتہ مشق بنا ڈالا۔ صرف یہیں پر نہیں رکے بلکہ بزرگان ملت تشیع پر الزامات کے نشتر چلانے سے نہیں ہٹے اور یہاں تک الزام تراشی کی کہ مکتب تشیع کے اکابرین سیاست کو شجر ممنوعہ سمجھتے تھے اور سیاست کو غلط سمجھتے تھے۔ یہیں پر بس ہوتی تو شاید قابل برداشت تھا لیکن موصوف ڈاکٹر صاحب نے موجودہ قیادت سے لے کر سید محمد دہلوی کی قیادت تک تمام قائدین کو بھی نہیں بخشا اور یہ تک لکھ دیا کہ یہ تمام لیڈران ملت تشیع کی صحیح طریقے سے راہنمائی کرنے سے قاصر رہے۔

جناب  ڈاکٹر شفقت شیرازی صاحب، مجھے نہیں علم کہ آپ کی تعلیم کتنی ہے اور میں یہ بھی نہیں جانتا کہ آپ نے جو آرٹیکل لکھا، اس کی تحقیق آپ نے کہاں سے کی۔ تحقیق کا لفظ شاید درست نہ ہو آپ کے اس آرٹیکل کے لئے، کیونکہ مجھے تو اس آرٹیکل میں کوئی بھی ایسی بات نظر نہیں آئی، جس کو تحقیق کہا جا سکے۔ اگر آپ تھوڑا سا کسی بزرگ کے ساتھ بیٹھ جاتے اور اس سے پوچھ لیتے تو شاید آپ درست حقائق عوام تک پہنچا سکتے تھے۔ مکتب تشیع میں سب سے پہلے تشیع کے حقوق کی باقاعدہ آواز جنہوں نے اٹھائی ان کا نام سید محمد دہلوی تھا۔ جنہوں نے تشیع کے حقوق کا دفاع کرنے کے لئے علماء کے ساتھ مل کر ایک مشترکہ جدوجہد کی اور بعد میں ان کو علماء کرام نے قائد ملت جعفریہ پاکستان کا لقب دیا۔ بعد ازاں مفتی جعفر اعلی اللہ مقامہ اس تحریک کو لے کر آگے بڑھے اور مکتب تشیع کے بزرگان آج بھی یاد کرتے ہیں، وہ وقت جب مفتی جعفر کی قیادت میں ایک جم غفیر نے پارلیمنٹ کا گھیراؤ کیا۔ وہاں مطالبات صرف عزاداری کے حوالے سے نہیں تھے بلکہ وہاں مطالبات مکتب تشیع کی پہچان کے حوالے سے تھے، جن کو حکومت نے مجبوراً تسلیم کیا۔

جناب ڈاکٹر صاحب اگر آپ کی طبع نازک پر گراں نہ گزرے تو تھوڑا تاریخ کے مزید صفحات پلٹ کر دیکھیے گا۔ لاہور میں مینار پاکستان کے سائے تلے قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید عارف حسین الحسینی کی سربراہی میں ایک تاریخی اجتماع کیا گیا۔ اس اجتماع میں صرف شیعہ افراد نے شرکت نہیں کی بلکہ بہت سے غیر شیعہ افراد بھی ملک کے طول عرض سے وہاں اکٹھے ہوئے اور شہید قائد ملت جعفریہ پاکستان  علامہ سید عارف حسین الحسینی نے تحریک نفاذ فقہ جعفریہ پاکستان کے نام سے باقاعدہ ایک سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا۔ یہ جدوجہد صرف مکتب تشیع کے لئے نہ تھی بلکہ ملک عزیز میں موجود تمام مظلوم اور محکوم افراد کی نمائندگی کے لئے بنائی گئی۔ جناب ڈاکٹر صاحب یہی وہ وقت تھا جب ملت تشیع کا یہ اتحاد کچھ لوگوں کو ناگوار گزرا اور انہوں نے اس اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کی ٹھان لی اور علامہ عارف حسین الحسینی کی شہادت اس کی پہلی کڑی تھی۔ یہاں سے جہاں ملت تشیع کو ایک سائیڈ پر لگانے کا آغاز ہوا، وہیں ملت تشیع کے داخلی اتحاد کو توڑنے کی سازش بھی شروع کی گئی۔ بڑی معذرت کے ساتھ میں یہ لکھنے پر مجبور ہوا ہوں کہ کچھ اپنے بھی اس داخلی انتشار میں برابر کے شریک کار رہے کہ جن کا آگے چل کر میں ذکر کروں گا۔

مکتب تشیع پر جو بیرونی حملے شروع ہوئے، اس کے نتیجے میں بہت سے کارآمد اور نابغہ روزگار افراد کو ملک کے گوش و کنار میں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا، کبھی علماء کرام، تو کبھی ڈاکٹرز، کبھی انجینئرز تو کبھی بیوروکریٹ، کبھی وکلاء تو کبھی ملت تشیع کے کامیاب تاجر، کبھی اساتذہ، غرض ہر وہ فرد کہ جس کے بارے میں ذرہ سا بھی شبہ ہوتا کہ یہ شخص کسی نہ کسی طرح ملت تشیع کے لئے کارآمد ہے، اس کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنا دیا جاتا، اس کے دو مقاصد تھے۔
1۔ مکتب تشیع کی قیادت کو اس بات پر مجبور کیا جائے کہ وہ ہتھیار اٹھا لے اور مسلح جدوجہد کرے۔
2۔ پہلا نتیجہ نہ ملنے کی صورت میں ٹارگٹ کلنگ کو بنیاد بنا کر مکتب تشیع کو داخلی انتشار کر شکار کرکے چھوٹے چھوٹے گروہوں میں تقسیم کر دیا جائے۔
پہلا مقصد حاصل ہونے کی صورت میں ملت تشیع کی قیادت کو مجبور کیا جانا تھا کہ وہ اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے مسلح جدوجہد کا آغاز کرے۔ اس طرح یہ بہانہ مل جاتا کہ یہ لوگ پاکستان میں امن و امان کے خلاف ہیں، جس کو بنیاد بنا کر ریاستی سطح پر ملت تشیع کو دہشت گرد قرار دیا جاتا اور مکتب تشیع کی بیخ کنی شروع ہوتی۔ لیکن میں سلام پیش کروں گا ملت تشیع کی بابصیر قیادت کو کہ جنہوں نے صورت حال کو سمجھا اور مسلح جدوجہد کی بجائے سیاسی جدوجہد کا راستہ اپنایا اور ملت تشیع کے خلاف اٹھنے والی تمام آوازوں کا اپنی مدبرانہ قیادت کے ذریعے قلع قمع کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک عزیز میں تکفیریت کی ہوا کو گرم کرنے والے اور مکتب تشیع پر کفرانہ فتوے جاری کرنے والے آج خود ایک کونے میں کھڑے ہیں، جبکہ مکتب تشیع ملک عزیز کے مذہبی اتحاد کی قیادت کر رہی ہے۔

پہلے مقصد میں ناکامی کے بعد دوسرے مقصد کو فوکس کیا گیا اور اس پر اپنی تمام تر توجہات مرکوز کی گئیں اور اس مقصد کے لئے کچھ ناعاقبت اندیش/جذباتی اپنے ہی لوگوں نے ان کا ساتھ دیا اور مرکزی قومی پلیٹ فارم کے مقابلے میں ایک نئی جماعت بنائی اور تشیع کی مرکزیت کو کمزور کرنے کے ایک مذموم سازش کی۔ بہت سا پیسا لگایا گیا، نہ جانے وہ پیسا کہاں سے آیا اور کن شرائط کے ساتھ لیا گیا۔ ظاہری طور پر مرکزی پلیٹ فارم اور مرکزی قیادت کو کمزور کرنے کی ایک بھرپور سازش کی گئی اور عوام کو مرکزی قیادت سے دور کرنے کی سازش ہوئی۔ مگر الحمدللہ یہ لوگ اپنے مذموم مقصد میں اس طرح کامیاب نہ ہوسکے، جس طرح کی توقعات ان سے باندھی گئی تھی۔ یہاں بھی ایک شخص نے دیکھا کہ اس کو اس نئی تنظیم کا اقتدار نہیں مل رہا تو اس نے اپنے اقتدار کے حصول کے لئے ایک نئی تنظیم کی بنیاد رکھ دی اور خود اس تنظیم کا سربراہ بن گیا۔ اس طرح تقسیم در تقسیم کا فارمولہ اپنایا گیا۔ لیکن ملت تشیع کی قیادت چونکہ بابصیرت ہاتھوں میں تھی اور تمام بزرگ علمائے کرام کی حمایت حاصل تھی، اس لئے یہ نیا گروہ بھی اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہ ہوسکا اور اس کو منہ کی کھانی پڑی۔ جناب ڈاکٹر علامہ شفقت شیرازی صاحب تھوڑا سا ہوش کے ناخن لیں اور ملت تشیع کو تقسیم کرنے کی مذموم سازش سے توبہ کریں۔ یہ آپ اور آپ کے رفقائے کار ہی تھے، جنہوں نے داخلی وحدت کو پارہ پارہ کیا اور مجلس وحدت مسلمین کے نام سے ایک نئی جماعت بنا کر ملت تشیع کو دو دھڑوں میں تقسیم کیا۔ آپ جیسے لوگوں کو اتحاد و وحدت کی باتیں زیب نہیں دیتیں۔ یعنی الٹا چور ہی شور مچا رہا ہے کہ چور چور۔ آپ اور آپ کے رفقائے کار ہی تھے، جنہوں نے مرکزی پلیٹ فارم سے علیحدگی اختیار کی اور پھر آپ الگ کھڑے ہو کر اب کس منہ سے وحدت کا راگ الاپتے ہیں۔

جہاں تک بشارت عظمٰی کانفرنسز کا تعلق ہے تو آپ کو یہ بتاتا چلوں کہ یہ کسی صنف کے خلاف نہیں ہے، جیسا کہ آپ سمجھ رہے ہیں کہ یہ علماء اتحاد ہے، جو ذاکرین کے خلاف ہیں۔ نہیں بلکہ یہ ایک سوچ کے خلاف ہے۔ وہ سوچ کہ جس کا ملت تشیع سے کوئی تعلق نہیں، یہ اس کے خلاف ہے۔ ذاکرین میں سے کچھ حضرات یہ تاثر دے رہے تھے کہ نعوذ باللہ حضرت علی ؑ کار خداوندی انجام دے رہے ہیں اور خدا ریٹائرڈ ہوچکا ہے۔ پاکستان کے علماء نے قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی، آیۃ اللہ علامہ حافظ ریاض حسین نجفی اور شیخ محسن علی نجفی کی قیادت میں ملت تشیع کا اصل چہرہ لوگوں تک پہنچانے کا سلسلہ شروع کیا ہے اور یہ بتا رہے ہیں کہ مکتب تشیع میں وحدہ لا شریک ذات اللہ تعالٰی کی ہے۔ حضرت محمدؐ اللہ کے آخری نبی ہیں اور حضرت علیؑ ان کے جانشین ہیں۔ اب اس عقیدہ کے خلاف کوئی بھی ہو، چاہے وہ کوئی ذاکر ہو یا عالم دین، اس کا ملت تشیع سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ نہ صرف ذاکر یا عالم دین، بلکہ اگر کوئی ایسے ذاکروں یا علمائے کرام کی حمایت بھی کرے گا تو اس کا بھی مکتب تشیع سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جناب ڈاکٹر صاحب اب آپ کو سوچنا ہے اور فیصلہ کرنا ہے کہ آپ کس طرف ہیں۔ بزرگ علماء کی طرف ہیں یا پھر غالی ذاکرین و علماء کی طرف۔

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬