‫‫کیٹیگری‬ :
16 December 2017 - 00:51
News ID: 432271
فونت
میڈیا میں نامحرم مرد و زن کے حدود کی عدم مراعات ، غیر دینی طرز زندگی ، بے مورد نامحرم مرد و زن کا میکس ہونا ، ڈیش ، انٹرنٹ ، سائبر اسپیس یا ایک جملہ یوں کہا جائے کہ ثقافتی حملے محرم و نا محرم حدوں کو پائمال کرنے میں موثر ہیں ۔
محرم و نامحرم

رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، دین مبین اسلام ، اخری آسمانی دین اور کامل ترین الھی دین ہونے کے ناطے ان تعلیمات کا حامل ہے جو حکمتوں اور مصلحتوں سے بھرپور ہیں ، یہ احکامات انسان کے رشد ، اصلاح اور ترقی کے لئے خداوند متعال کی جانب سے بنائے گئے ہیں ۔ اگر انسان کو خدا کے حکیم ہونے پر ایمان ہے تو اس کے اوامر و نواہی کے سامنے سرتعظیم خم کرے اور دل و جان سے اسے قبول کرے ، ان احکامات کے برابر چون و چرا کئے بغیر اسے جامہ عمل پہنانے کی کوشش کرے کیوں کہ ان احکامات کے پیچھے بے کراں حکمت ، بے عیب علم اور حقائق پر مبنی دنیا پوشیدہ ہے ۔

الھی احکامات کا بہت بڑا حصہ نبی اکرم اور ائمہ اطهار علیهم‌ السلام کی سنتوں اور احادیث پر مشتمل ہے ، لہذا ہمیں ھرگز اس بات کی توقع نہیں ہونی چاہئے کہ جب بھی احکام الھی کی بات آئے تو فقط و فقط قران ہی کی بات کریں کیوں کہ اگر قران میں فقط یہی آیت «اطیعوا الله و اطیعو‌ا الرسول...» ہو تو ہماری اس بات کے اثبات کے لئے یہی کافی ہے ، کیوں کہ پیغمبر صلی الله علیه و آله کی اطاعت ، خدا کی اطاعت کے برابر ہے اور رسول اسلام صلی الله علیه و آله نے بار و بارہا لوگوں کو اہل بیت علیھم السلام کی اطاعت کی دعوت دی ہے کہ حدیث ثقلین «انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ و عترتی» اس کی روشن دلیل ہے ۔

اسلامی احکامات میں سے ایک حکم کہ جو در حقیقت اسلام کے سماجی مسائل کا حصہ ہے وہ محرم و نامحرم کے حدود کی مراعات ہے ، یہ گفتگو ایک ایسی گفتگو ہے جس کا قران کریم کی آیات اور ائمہ طاھرین کی روایت و احادیث میں بار و بارہا تذکرہ ہے ۔

 

محرم و نامحرم  کی بے توجہی کے اسباب

افسوس آج کے معاشرہ میں محرم و نامحرم  کے حدود کی مراعات میں بہت کمی آچکی ہے جس طرح ان حدوں کی مراعات ہونی چاہئے اس طرح اب اس کی مراعات نہیں ہوتی ، اس کے مختلف اسباب ہوسکتے ہیں ، محرم و نامحرم کی حدوں کی مراعات نہ کرنے کی ایک اہم وجہ جہالت و نادانی ہے ، ایک ایسا سبب جو بہت ساری خطاوں کے پیداوار کی بنیاد ہے ۔

بہت سارے لوگ اس بات سے بخوبی واقف نہیں ہیں کہ کون محرم تو کون نامحرم ہے نیز کچھ یہ نہیں جانتے کہ انہیں نامحرم سے کیسے روبرو ہونا چاہئے اور ان کے ساتھ کس طرح پیش آںا چاہئے ۔

ان حدود کے مراعات نہ کرنے کا ایک اور اہم سبب مذھبی جزبے میں کمی واقع ہونا اور ایمان کا سست ہونا ہے کہ جو محرم اور نامحرم کی حدوں کو پار کرنے کا سبب ہے ۔

اس کے علاوہ معاشرہ پر حاکم ثقافت ، میڈیا میں نامحرم مرد و زن کے حدود کی عدم مراعات ، غیر دینی طرز زندگی ، بے مورد نامحرم مرد و زن کا میکس ہونا ، ڈیش ، انٹرنٹ ، سائبر اسپیس یا ایک جملہ یوں کہا جائے کہ ثقافتی حملے محرم و نا محرم حدوں کو پائمال کرنے میں موثر ہیں ۔ بے پردگی اور بدحجابی کے بہت سارے اسباب کی بازگشت انہیں باتوں کی طرف ہے کیوں کہ حجاب کا محرم و نامحرم سے براہ راست متعلق ہے ، جب انسان الھی احکامات کی انجام دہی میں بے توجہ برتے ، کہ جنس مخالف کے مقابل اسے کن باتوں کی مراعات کرنی چاہئے تو اس کا نتیجہ حجاب کے ناگفتہ بہ حالات ہوں گے کہ جس کے ہم آج معاشرے میں شاھد ہیں ، جب الھی احکامات کی بہ نسبت بے توجہی برتی جائے گی اور ہوس کا دور دورہ ہوگا تو اس کا نتیجہ یہ ہے ہوگا کہ ملاء عام میں لوگ اس بات کے دعویدار ہوں کہ بہنوئی بھی باپ بھائی کی طرح محرم ہے ۔

 

طلاق اور نامحرم مرد و زن کے حدود کی عدم مراعات

میاں بیوی کے اختلافات کے بعض وہ اسباب جو طلاق کا سبب بنتے ہیں وہ نامحرم افراد سے روبرو ہونے میں بے توجہی ہے ۔

جب نامحرم مرد و زن ایک ملازمت میں ہوں گے اور صبح سے لیکر شام تک ایک دوسرے کے ہمنشین اور ہم گفتگو ہوں گے ، عورت کا لباس بھی نا مناسب ہو ، ایک دوسرے سے گاہے بگاہے ہنسی مزاق بھی جاری ہو تو یقینا ازدواجی زندگی متاثر اور مشکلات سے روبرو ہوگی کیوں کہ ممکن ہے یہ مرد و زن عطوفت اور محبت اور چہ بسا شہوت کے حوالے سے اپنی خواہشات کی تکمیل کرلیں اور اپنے شوھر کی بہ نسبت دلسرد ہوں کہ جو وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ طلاق کا زمینہ فراہم کرتا ہے اور کم از کم محبتوں کے طلاق کا سبب بن سکتا ہے ۔

البتہ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ بات صد در صد صحیح ہے مگر معمولا ان حالات میں ازدوجی زندگی متاثر ہوجاتی ہے کہ جس سے عصر حاضر کے گھرانے روبرو ہیں ۔

 

خانوادہ کا نامحرم یا غیر نامحرم

محرم و نامحرم کی گفتگو میں دیگر جو مشکلات موجود ہیں وہ یہ ہے کہ بعض افراد خانوادے کے نامحرم اورغیر نامحرم میں فرق قائل ہیں ، غیر نامحرم کے سامنے شرعی حجاب کرتے ہیں مگر خانوادے یا آشنا نامحرم کے سامنے جس طرح حجاب کی مراعات کرنی چاہئے ویسے حجاب نہیں کرتے ، جبکہ شریعت کے حوالے سے خانوادے کے نامحرم اور غیر نامحرم میں کوئی فرق نہیں ہے ، دنوں نامحرم ایک جیسے ہیں اور دونوں کے سامنے ایک طرح کے لباس اور حجاب کا انتخاب ضروری ہے ۔

 

محرم قرآن کی نگاہ میں 

قران کریم میں جن محارم کا تذکر ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں :

«حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَتُكُمْ وَ بَنَاتُكُمْ وَ أَخَوَاتُكُمْ وَ عَمَّاتُكُمْ وَ خَالَاتُكُمْ وَ بَنَاتُ الْأَخِ وَ بَنَاتُ الْأُخْتِ وَ أُمَّهَاتُكُمُ الَّتىِ أَرْضَعْنَكُمْ وَ أَخَوَاتُكُم مِّنَ الرَّضَعَةِ وَ أُمَّهَاتُ نِسَائكُمْ وَ رَبَئبُكُمُ الَّتىِ فىِ حُجُورِكُم مِّن نِّسَائكُمُ الَّتىِ دَخَلْتُم بِهِنَّ فَإِن لَّمْ تَكُونُواْ دَخَلْتُم بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ وَ حَلَئلُ أَبْنَائكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ وَ أَن تَجْمَعُواْ بَينْ‏َ الْأُخْتَينْ‏ِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ  إِنَّ اللَّهَ كاَنَ غَفُورًا رَّحِيمًا۔ ترجمہ: تم پر حرام کر دی گئی ہیں تمہاری مائیں، تمہاری بیٹیاں، تمہاری بہنیں، تمہاری پھوپھیاں، تمہاری خالائیں، تمہاری بھتیجیاں، تمہاری بھانجیاں، تمہاری وہ مائیں جو تمہیں دودھ پلا چکی ہوں اور تمہاری دودھ شریک بہنیں، تمہاری بیویوں کی مائیں اور جن بیویوں سے تم مقاربت کرچکے ہو ان کی وہ بیٹیاں جو تمہاری پرورش میں رہی ہوں، لیکن اگر ان بیویوں سے (صرف عقد ہوا ہو) مقاربت نہ ہوئی ہو تو کوئی حرج نہیں ہے نیز تمہارے صلبی بیٹوں کی بیویاں اور دو بہنوں کا باہم جمع کرنا مگر جو پہلے ہوچکا، بے شک اللہ بڑا بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے ۔ (نساء/ 23)

 

احادیث میں محرم نامحرم کی اہمیت

نامحرم مرد و زن کے حدود کی مراعات اس قدر اہم ہے کہ روایتوں میں اس کے مراعات نہ کرنے والے انسانوں کو سخت ترین عذاب کا مستحق قرار دیا ہے اور دوسری جانب اس کی مراعات برکتوں کا باعث ہے ۔

معصومین علیھم السلام سے روایتوں میں منقول ہے کہ نامحرم عورت سے ہاتھ ملانے والا خدا کے غضب اور عذاب سے روبرو ہوگا اور جو بھی نامحرم عورت کو اپنی آغوش میں لے گا وہ شیطان کا ہم قطار اور آگ کی زنجیروں سے جکڑکر آتش جہنم میں ڈال دیا جائے گا ۔ (من لا يحضره الفقيه / ج‏4/ ص14)

دیگر حدیث میں یوں منقول ہے کہ نامحرم عورت سے ہاتھ ملانے والا قیامت کے دن زنجیروں میں جکڑ ہوا لایا جائے گا اور پروردگار عالم کا حکم کا ہوگا کہ اسے آتش جہنم میں ڈال دو ، اور اگر کوئی نامحرم عورت سے مزاح کرے تو ہر ایک لفظ کے بدلے اسے محشر میں ہزار سال تک روکا جائے گا ، اور اگرعورت اپنی مرضی سے کسی نامحرم مرد کی آغوش میں جائے یا مرد اس کا بوسہ لے یا اس سے مباشرت کرے تو اس عورت کے لئے بھی وہ گناہ لکھی جائے گی جو مرد کے لئے لکھی گئی ہے ، اور اگر مرد کسی نامحرم عورت کو گناہ کرنے پر مجبور کرنے تو اس عورت کے گناہ بھی اس مرد کے دوش پر ہوں گے اور قیامت کے دن وہ دو سزا پائے گا ۔ (ثواب الأعمال و عقاب الأعمال/ص283)

اس کے برخلاف روایتوں میں آیا ہے کہ اگر کسی نے نامحرم عورت کو دیکھ کر اپنی آنکھیں بند کرلیں یا آسمان کی جانب دیکھا تو اس کی آنکھیں بند نہ ہوئیں ہوں گی کہ پروردگار عالم حور العین کو اس کے نکاح میں لے آئے گا ۔ (وسائل الشیعه/ج20/ص193)

ایک دیگر حدیث میں یوں منقول ہے کہ نامحرم پر نگاہ شیطانوں کے تیروں میں سے ایک تیر ہے ، جو کوئی بھی اسے خوف خدا کی بنیاد پر ترک کردے خداوند متعال اسے ایمان کی چاشنی چکھائے گا ۔ (مستدرک الوسائل/ج14/ص268)

یہ بات بھی مشھور ہے کہ حضرت زهرا علیها‌السلام نے نابینا صحابی سے منھ موڑ لیا اور اس عمل کے جواب میں یوں فرمایا کہ اگر میں ان کے سامنے جاوں گی تو وہ میری خوشبو محسوس کریں گے ، پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله نے آپ کا یہ طرز عمل دیکھ کر فرمایا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ تم میرا ٹکڑا ہو ۔ (بحار/ج43/ص/91)

نیز حضرت فاطمه علیهاالسلام سے روایت منقول ہے کہ حضرت نے فرمایا : عورتوں کے لئے بہترین چیز یہ ہے کہ وہ مردوں کو نہ دیکھیں اور عورتیں اسے نہ دیکھیں ۔ (بحار/ج43/ص54)

البتہ یہاں پر یہ بات روشن ہے کہ اس روایت اور اس جیسی روایتوں سے مراد معمولی حالات ہیں وگرنہ اضطرار کی حالت میں مسائل و احکامات الگ ہیں کہ حضرت کی سیرت اس سلسلے میں گویا ہیں ۔

اگر ہم ان روایات خصوصا آخری دو روایتوں کو معاشرہ کے موجودہ حالات کے تحت دیکھیں تو اس بات کی جانب متوجہ ہوں گے کہ ہم دینی تعلیمات سے کتنا دور ہوگئے ہیں خصوصا ملازمتوں کے محیط نامحرم مرد و زن سے مملو ہیں ۔

وہ مقامات جہاں نامحرم مرد و زن کے حدود کی مراعات نہیں ہوتی وہ لاتعداد ہیں کہ ان میں سے ایک مقام علاج کا جگہ ہے کہ جہاں معمولا ان حدود کی مراعات نہیں ہوتی ، مرد کمپاوںڈرز پوری بے فکری کے ساتھ مریض عورت کا علاج کرتے ہیں اور اسے چھوکر حرام کا مرتکب ہوتے ہیں نیز نرسز بھی مرد مریضوں کا مکمل بے فکری کے ساتھ علاج کرتی ہیں اور انہیں چھوتی ہیں ۔ جی ہاں ایک دور میں مجبور تھی مگر آج ایسا نہیں ہے مگر پھر بھی لوگ دھیان نہیں دیتے اور ان باتوں کی مراعات نہیں کرتے ۔

افسوس نامحرم مرد و زن کے حدود کی مراعات بعض افراد کے لئے ایک افسانہ کی صورت رکھتی ہے ، انہیں ان باتوں پر یقین و ایمان نہیں ہے کیوں کہ دینی ثقافت اتنا زیادہ بدل چکی ہے بعض افراد ان باتوں کو ہضم نہیں کرسکتے ۔ /۹۸۸/ ن۹۱۲

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬