19 December 2017 - 17:19
News ID: 432319
فونت
ممبر بلوچستان اسمبلی آغا رضا :
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنما نے کہا کہ ملکی تاریخ کے اندوہ ناک سانحے پشاور آرمی پبلک سکول اور سقوط ڈھاکہ یہ دونوں زخم بتاتے ہیں کہ ایک ہی سوچ کا خنجر ہمارے دل کو زخم لگاتا رہا، یہ وہ سوچ ہے جس نے پاکستان کو ایک قومی ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کیا۔
 آغا رضا

ممبر بلوچستان اسمبلی آغا رضا :

 نہیں یہ انسانیت کا دشمن ہے

مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنما نے کہا کہ ملکی تاریخ کے اندوہ ناک سانحے پشاور آرمی پبلک سکول اور سقوط ڈھاکہ یہ دونوں زخم بتاتے ہیں کہ ایک ہی سوچ کا خنجر ہمارے دل کو زخم لگاتا رہا، یہ وہ سوچ ہے جس نے پاکستان کو ایک قومی ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کیا۔

رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنما و ممبر بلوچستان اسمبلی آغا رضا نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ کوئٹہ چرچ پر حملہ دہشتگردوں کی بزدلانہ کاروائی ہے اور قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ناقابل تلافی نقصان ہے، دہشتگردوں کا کوئی مذہب نہیں یہ انسانیت کا دشمن ہے ۔

انہوں نے کہا کہ کوئٹہ چرچ پر حملہ دہشتگردوں کی بزدلانہ کاروائی ہے اور قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ناقابل تلافی نقصان ہے،جن کی ہم بھر زور مذمت کرتے ہے۔

انہوں نے کہا کہ دہشتگردوں کا کوئی مذہب نہیں یہ انسانیت کا دشمن ہے،حکومت کرسمس کی تقریبات کے دوران مسیحی عبادت گاہوں کو فول پر وف سیکورٹی فراہم کریں اور پاکستان بھر بالخصوص کوئٹہ شہر میں کالعدم مذہبی جماعتوں اور انکے سہولت کاروں کے خلاف آپریشن شروع کرکے انکا قلعہ قمع کریں۔

انہوں نے کہا کہ اس سانحے میں جاں بحق ہونے والوں کے اہل خانہ کو تعزیت عرض کرتے ہیں اور انکے غم میں برابر کے شریک ہیں۔اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہے کہ زخمیوں کو بہترین طبی سہولیات فراہم کی جائیں۔

انہوں نے مزید کہا ملکی تاریخ کے اندوہ ناک سانحے پشاور آرمی پبلک سکول اور سقوط ڈھاکہ یہ دونوں زخم بتاتے ہیں کہ ایک ہی سوچ کا خنجر ہمارے دل کو زخم لگاتا رہا،یہ وہ سوچ ہے جس نے پاکستان کو ایک قومی ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کیا۔

وفاق کے تقاضے نہیں سمجھے، جمہور کی حکمرانی نہیں مانی اور معشیت کو ایک اجتماعی نصب العین کے طور پر قبول نہیں کیا، ان خیالات کا اظہار اصل مسئلہ معاشرے کے ذہن کو تبدیل کرنا ہے۔ عام لوگوں کی سوچ کو عدم برداشت اور تعصب کی گرفت سے آزاد کرنا ہے۔

ہمارے حکمران اس جنگ کی نوعیت سے پوری طرح آگاہ ہیں لیکن وہ ایسے معاشرے کے قیام سے غافل ہیں جس میں سوچ کی اور اظہار رائے کی آزادی ہواور قوم انتہا پسندی اور مذہبی دہشتگردی کے خلاف بے خوفی کے ساتھ کھڑی ہوسکے۔

 16دسمبر2014کے بعداس تحقیق کی اہمیت بڑھ گئی ہے کہ آخراچھے اور برے طالبان میں فرق کیو ں کیا جاتا ہے۔ دہشتگردوں کی پہچان تو ممکن ہے لیکن انتہا پسندی اور نفرت کی جڑوں تک پہنچناایک انتہائی دشوار عمل ہے، اگر انتہا پسندی اور نفرت کی تلقین کے زرائع کو ختم کیا جائے تو نئے دہشتگرد پیدا ہوتے رہیں گے۔

پاکستان میں انتہا پسندی کی جو فضا ہے اس میں دہشتگردی کے پھلنے پھولنے کے امکانات واضح ہیں گزشتہ برسوں میں مختلف آپریشنز مذہبی دہشتگردی کے خلاف کی ہے لیکن یہ بھی تسلیم کرنا چاہئے کہ فیصلوں کی میزان میں دہشتگردی کی سوچ ابھی سلامت ہے۔

سیاسی قوتوں میں ابھی یہ اعتماد پیدا نہیں ہوا کہ وہ کھل کر دہشتگردی کے خلاف کھڑی ہوں، 16 دسمبر محض ہمارے بچوں کی برسی نہیں، ان عناصرکی نشاندہی کا دن ہے جو دہشتگردی کی آبیاری کرتے ہیں، جس کی تازہ مثال کوئٹہ چرچ کا سانحہ ہے جس میں بے گناہ انسانوں کا خون بہایا گیا۔وہ کھل کر دہشتگردی کے خلاف کھڑی ہوں، 16 دسمبر محض ہمارے بچوں کی برسی نہیں، ان عناصرکی نشاندہی کا دن ہے جو دہشتگردی کی آبیاری کرتے ہیں، جس کی تازہ مثال کوئٹہ چرچ کا سانحہ ہے جس میں بے گناہ انسانوں کا خون بہایا گیا۔/۹۸۹/ف۹۴۰/

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬